جاسم محمد
محفلین
تعزیرات پاکستان کا سیکشن 89 معطل: سکولوں میں بچوں پر تشدد ختم
جسمانی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرکے تشدد پر پابندی کا حکم جاری کیا۔
مونا خان نامہ نگار @mona_qau
جمعرات 13 فروری 2020 13:15
معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی جانب سےعدالت میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے (اے ایف پی فائل)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرتے ہوئے سکولوں میں بچوں پر مار پیٹ اور تشدد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
قبل ازیں تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کے تحت والدین، قانونی سرپرست یا اساتذہ ’نیک نیتی سے بچے یا فاترالعقل شخص کے فائدے کے لیے‘ کوئی بھی فعل سرانجام دے سکتے تھے۔ اس میں جسمانی سزا بھی شامل ہے۔
اس حکم نامے کا اطلاق اسلام آباد کے علاقے میں ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا اور بچوں پر تشدد کے خلاف کیس کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔
معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی جانب سےعدالت میں دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے اور سزا کے باعث سالانہ 35 ہزار بچے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔
سماعت کے آغاز میں شہزاد رائے کے وکیل شہاب الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست دائر کرنے کا مقصد بچوں کو تشدد سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں نہ صرف بری طرح مارا جاتا ہے بلکہ بچے اس تشدد سے مر بھی جاتے ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ سال لاہور میں ایک بچہ نجی سکول میں تشدد سے ہلاک ہو گیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی اسمبلی نے بچوں پر تشدد کے خلاف ایک بل بھی منظور کیا تھا۔ تاہم وکیل شہاب الدین نے جواب دیا کہ بل اسمبلی سے پاس ہوا تھا مگر سینیٹ سے نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کارپوریل پنشمنٹ (جسمانی سزا) کا قانون 160 سال پرانا ہے اور اس کو ختم کیا جائے کیونکہ بچوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچوں پر تشدد سے معاشرے میں تشدد بڑھتا ہے، اس لیے بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایات جاری کیں کہ آئین کا آرٹیکل 14 بچوں کو عزت نفس دیتا ہے اور اس کے تحت بچوں پر تشدد کی روک تھام کی جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 5 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور سکولوں میں تشدد روکنے کے حوالے سے اقدامات پر دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
سماعت کے اختتام پر شہزاد رائے نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں تو والدین تربیت کرتے ہوئے پٹائی کرتے ہیں، بچہ سکول جاتا ہے تو استاد اچھا انسان بنانے کے لیے مارتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تشدد سے صرف تشدد بڑھتا ہے۔ جب بچے پر تشدد ہوتا ہے تو دماغ کا وہی حصہ متاثر ہوتا ہے جو جنسی ہراسانی سے متاثر ہوتا ہے۔ صحت مند معاشرے کے لیے یہ سلسلہ اب روکنا ہو گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں وکیل شہاب الدین نے بتایا کہ پاکستان میں 81 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح ذہنی تشدد کا شکار ہیں۔
جسمانی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرکے تشدد پر پابندی کا حکم جاری کیا۔
مونا خان نامہ نگار @mona_qau
جمعرات 13 فروری 2020 13:15
معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی جانب سےعدالت میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے (اے ایف پی فائل)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرتے ہوئے سکولوں میں بچوں پر مار پیٹ اور تشدد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
قبل ازیں تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کے تحت والدین، قانونی سرپرست یا اساتذہ ’نیک نیتی سے بچے یا فاترالعقل شخص کے فائدے کے لیے‘ کوئی بھی فعل سرانجام دے سکتے تھے۔ اس میں جسمانی سزا بھی شامل ہے۔
اس حکم نامے کا اطلاق اسلام آباد کے علاقے میں ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا اور بچوں پر تشدد کے خلاف کیس کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔
معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی جانب سےعدالت میں دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے اور سزا کے باعث سالانہ 35 ہزار بچے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔
سماعت کے آغاز میں شہزاد رائے کے وکیل شہاب الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست دائر کرنے کا مقصد بچوں کو تشدد سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں نہ صرف بری طرح مارا جاتا ہے بلکہ بچے اس تشدد سے مر بھی جاتے ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ سال لاہور میں ایک بچہ نجی سکول میں تشدد سے ہلاک ہو گیا تھا۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی اسمبلی نے بچوں پر تشدد کے خلاف ایک بل بھی منظور کیا تھا۔ تاہم وکیل شہاب الدین نے جواب دیا کہ بل اسمبلی سے پاس ہوا تھا مگر سینیٹ سے نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کارپوریل پنشمنٹ (جسمانی سزا) کا قانون 160 سال پرانا ہے اور اس کو ختم کیا جائے کیونکہ بچوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچوں پر تشدد سے معاشرے میں تشدد بڑھتا ہے، اس لیے بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایات جاری کیں کہ آئین کا آرٹیکل 14 بچوں کو عزت نفس دیتا ہے اور اس کے تحت بچوں پر تشدد کی روک تھام کی جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 5 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور سکولوں میں تشدد روکنے کے حوالے سے اقدامات پر دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
سماعت کے اختتام پر شہزاد رائے نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں تو والدین تربیت کرتے ہوئے پٹائی کرتے ہیں، بچہ سکول جاتا ہے تو استاد اچھا انسان بنانے کے لیے مارتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تشدد سے صرف تشدد بڑھتا ہے۔ جب بچے پر تشدد ہوتا ہے تو دماغ کا وہی حصہ متاثر ہوتا ہے جو جنسی ہراسانی سے متاثر ہوتا ہے۔ صحت مند معاشرے کے لیے یہ سلسلہ اب روکنا ہو گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں وکیل شہاب الدین نے بتایا کہ پاکستان میں 81 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح ذہنی تشدد کا شکار ہیں۔