تعزیرات پاکستان کا سیکشن 89 معطل: سکولوں میں بچوں پر تشدد ختم

جاسم محمد

محفلین
تعزیرات پاکستان کا سیکشن 89 معطل: سکولوں میں بچوں پر تشدد ختم
جسمانی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرکے تشدد پر پابندی کا حکم جاری کیا۔
مونا خان نامہ نگار @mona_qau
جمعرات 13 فروری 2020 13:15

69646-2064509859.jpg

معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی جانب سےعدالت میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے (اے ایف پی فائل)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کو معطل کرتے ہوئے سکولوں میں بچوں پر مار پیٹ اور تشدد پر پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

قبل ازیں تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کے تحت والدین، قانونی سرپرست یا اساتذہ ’نیک نیتی سے بچے یا فاترالعقل شخص کے فائدے کے لیے‘ کوئی بھی فعل سرانجام دے سکتے تھے۔ اس میں جسمانی سزا بھی شامل ہے۔

اس حکم نامے کا اطلاق اسلام آباد کے علاقے میں ہو گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا اور بچوں پر تشدد کے خلاف کیس کی سماعت جمعرات کو ہوئی۔

معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی جانب سےعدالت میں دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے لیے بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے اور سزا کے باعث سالانہ 35 ہزار بچے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔

سماعت کے آغاز میں شہزاد رائے کے وکیل شہاب الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست دائر کرنے کا مقصد بچوں کو تشدد سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں نہ صرف بری طرح مارا جاتا ہے بلکہ بچے اس تشدد سے مر بھی جاتے ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ سال لاہور میں ایک بچہ نجی سکول میں تشدد سے ہلاک ہو گیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قومی اسمبلی نے بچوں پر تشدد کے خلاف ایک بل بھی منظور کیا تھا۔ تاہم وکیل شہاب الدین نے جواب دیا کہ بل اسمبلی سے پاس ہوا تھا مگر سینیٹ سے نہیں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کارپوریل پنشمنٹ (جسمانی سزا) کا قانون 160 سال پرانا ہے اور اس کو ختم کیا جائے کیونکہ بچوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچوں پر تشدد سے معاشرے میں تشدد بڑھتا ہے، اس لیے بچوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایات جاری کیں کہ آئین کا آرٹیکل 14 بچوں کو عزت نفس دیتا ہے اور اس کے تحت بچوں پر تشدد کی روک تھام کی جائے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 5 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور سکولوں میں تشدد روکنے کے حوالے سے اقدامات پر دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

سماعت کے اختتام پر شہزاد رائے نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں تو والدین تربیت کرتے ہوئے پٹائی کرتے ہیں، بچہ سکول جاتا ہے تو استاد اچھا انسان بنانے کے لیے مارتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تشدد سے صرف تشدد بڑھتا ہے۔ جب بچے پر تشدد ہوتا ہے تو دماغ کا وہی حصہ متاثر ہوتا ہے جو جنسی ہراسانی سے متاثر ہوتا ہے۔ صحت مند معاشرے کے لیے یہ سلسلہ اب روکنا ہو گا۔‘

ایک سوال کے جواب میں وکیل شہاب الدین نے بتایا کہ پاکستان میں 81 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح ذہنی تشدد کا شکار ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اگر ہمارے بچپن میں اپنی بے سری آواز میں گانے بجانے کی بجائے پٹیشن لے کر کورٹ چلا جاتا تو ہم سزا ؤں سے بچ جاتے۔ بے سرا کہیں کا!
پٹواری جج اطہر من اللہ کا شکریہ بہرحال۔
ان کو ہم تھوڑا بہت جانتے ہیں۔ یہ پٹواری جج نہیں ہیں۔ آپ کے خان صاحب کے حق میں بھی جناب اطہر کچھ فیصلے سنا چکے۔ آپ کی یادداشت شاید کمزور ہو گئی ہے۔ بادام کیا زیادہ مہنگے ہو گئے!
 

محمد سعد

محفلین
بچوں پر مار پیٹ سے دماغی نشو و نما میں کمی پہلے ہی واضح طور پر مشاہدے میں آ چکی ہے۔
Tomoda, A., Suzuki, H., Rabi, K., Sheu, Y.-S., Polcari, A., & Teicher, M. H. (2009). Reduced prefrontal cortical gray matter volume in young adults exposed to harsh corporal punishment. NeuroImage, 47, T66–T71.
DOI: 10.1016/j.neuroimage.2009.03.005
اچھا ہے کہ بے جا تشدد کی اس رسم کو کچرے دان کی نذر کر ہی دیا جائے جہاں اس کی صحیح جگہ بنتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اچھا ہے کہ بے جا تشدد کی اس رسم کو کچرے دان کی نذر کر ہی دیا جائے جہاں اس کی صحیح جگہ بنتی ہے۔
مغرب میں تشدد کو صرف تشدد ہی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اضافی طور پر "بےجا" ساتھ لگا دیا جاتا ہے جیسے کسی وجہ کے تشدد جائز ہو :)
 

سین خے

محفلین
قبل ازیں تعزیرات پاکستان کے سیکشن 89 کے تحت والدین، قانونی سرپرست یا اساتذہ ’نیک نیتی سے بچے یا فاترالعقل شخص کے فائدے کے لیے‘ کوئی بھی فعل سرانجام دے سکتے تھے۔ اس میں جسمانی سزا بھی شامل ہے۔

اس حکم نامے کا اطلاق اسلام آباد کے علاقے میں ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں وکیل شہاب الدین نے بتایا کہ پاکستان میں 81 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح ذہنی تشدد کا شکار ہیں۔

انتہائی افسوسناک۔ یہ کس قسم کا قانون ہے۔ نیت نیک ہو تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ واہ بھئی! قانون دانوں کے اس کارنامے پر رائے دینے کے لئے الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔

چلیں جی اسلام آباد میں ہی سہی کہیں تو اساتذہ کو اب اپنے کو "کنٹرول" کرنے کی عادت ڈالنا پڑے گی۔

81 فیصد بہت بڑی تعداد ہے۔ ہم ترقی کیوں نہیں کرتے ہیں اور ہمارے یہاں ذہین افراد کیوں کم پیدا ہوتے ہیں، اس کے پیچھے وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔ دماغ سب ایک جیسا ہی لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن حالات ہی کسی انسان کو ذہین بناتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
چلیں جی اسلام آباد میں ہی سہی کہیں تو اساتذہ کو اب اپنے کو "کنٹرول" کرنے کی عادت ڈالنا پڑے گی۔
ہائی کورٹ چاہے تو اس فیصلہ کو حتمی قرار دے کر پورے ملک میں قانون سازی کا آرڈر جاری کر سکتی ہے۔ یو اس فیصلہ کا اطلاق قانون سازی کے بعد ہر جگہ ہوگا۔
 

عدنان عمر

محفلین
وہ تو ہم صاحبِ اولاد نہیں ہیں، ورنہ ایسے قانون کے نفاذ کے بعد تو یوں لگتا کہ ہم اپنے نہیں کسی اور کے بچے پال رہے ہیں۔
 

یاقوت

محفلین
خیر اس گل کو کھلنے تو دیا جائے باقی وقت درست اور غلط کا فیصلہ خود ہی کر دےگا۔اچھے کی امید کے ساتھ اچھی ابتدا ہونی چاہیے اللہ پاک سب پر رحم فرمائیں ۔باقی اگر یہ نکتہ اخلاص کے ساتھ اٹھایا گیا ہے تو خوب ورونہ اگر فرمائشی ہے تو اچھے نتائج کی امید فضول ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
وہ تو ہم صاحبِ اولاد نہیں ہیں، ورنہ ایسے قانون کے نفاذ کے بعد تو یوں لگتا کہ ہم اپنے نہیں کسی اور کے بچے پال رہے ہیں۔
اتنی تو قابلیت والدین اور اساتذہ میں ہونی چاہیے کہ دنیا میں بیس تیس برس گزار لینے کے بعد بچوں کو بے تحاشا کوٹے بغیر ان کو ٹھیک راستے کی طرف لا سکیں۔ اگر اتنا نہیں کر سکتے تو پھر بچے پیدا ہی نہ کریں، دنیا پر ان کا احسان ہو گا۔
 

محمد سعد

محفلین
ہائی کورٹ چاہے تو اس فیصلہ کو حتمی قرار دے کر پورے ملک میں قانون سازی کا آرڈر جاری کر سکتی ہے۔ یو اس فیصلہ کا اطلاق قانون سازی کے بعد ہر جگہ ہوگا۔
معاشرے میں بڑی تبدیلی لانے کے لیے چھوٹے تجربے سے ابتداء کرنا اچھا رہتا ہے۔ جب ایک معاشرہ اتنا عرصہ ایک شے کو نارملائز کر کے چلا ہے تو وہاں اس کو ترک کر دینے کا عمل مسائل سے خالی نہیں ہو گا۔ چھوٹے پیمانے کے تجربے سے سیکھ کر ہم بڑی سطح پر یہ کام بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
اگر آپ کے ہلکے پھلکے کا threshold بہت زیادہ نہیں ہے تو خیر ہے۔ :rolleyes:
ساتھ ہی تجویز دوں گا کہ متبادل بہتر طریقوں کی تلاش جاری رکھیں۔
جی بہتر۔ بعض اوقات تمام متبادل طریقے اپنانے کے باوجود جب بات نہیں بنتی، تب مجبوراً نرم دل والدین کو بھی ہلکی پھلکی مار پیٹ کرنی پڑتی ہے۔ ایسے والدین کے لیے ہی آپ سے کلیئرنس مانگی تھی، شکریہ۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
جی بہتر۔ بعض اوقات تمام متبادل طریقے اپنانے کے باوجود جب بات نہیں بنتی، تب مجبوراً نرم دل والدین کو بھی ہلکی پھلکی مار پیٹ کرنی پڑتی ہے۔ ایسے والدین کے لیے ہی آپ سے کلیئرنس مانگی تھی، شکریہ۔
اگر انسانوں کے بچوں کو بھی جانوروں کی طرح ڈنڈے اور چھتر سے ہی ہانکنا ہے تو پھر اسے اشرف المخلوقات کہنے، سمجھنے کا کیا فائدہ؟ اگر آپ بغیر مار پیٹ کے اپنے بچوں کی اصلاح نہیں کر سکتے تو پھر ان کو پیدا ہی نہ کریں۔
اتنی تو قابلیت والدین اور اساتذہ میں ہونی چاہیے کہ دنیا میں بیس تیس برس گزار لینے کے بعد بچوں کو بے تحاشا کوٹے بغیر ان کو ٹھیک راستے کی طرف لا سکیں۔ اگر اتنا نہیں کر سکتے تو پھر بچے پیدا ہی نہ کریں، دنیا پر ان کا احسان ہو گا۔
 

محمد سعد

محفلین
جی بہتر۔ بعض اوقات تمام متبادل طریقے اپنانے کے باوجود جب بات نہیں بنتی، تب مجبوراً نرم دل والدین کو بھی ہلکی پھلکی مار پیٹ کرنی پڑتی ہے۔ ایسے والدین کے لیے ہی آپ سے کلیئرنس مانگی تھی، شکریہ۔
دیکھیں جتنا اصرار آپ تشدد کے استعمال پر کر رہے ہیں، اس میں میری اپنی ہی بھلائی ہے کہ آپ کے ساتھ اتفاق کر کے خود کو کسی طرح کے ممکنہ تشدد سے محفوظ رکھوں۔
 

عدنان عمر

محفلین
دیکھیں جتنا اصرار آپ تشدد کے استعمال پر کر رہے ہیں، اس میں میری اپنی ہی بھلائی ہے کہ آپ کے ساتھ اتفاق کر کے خود کو کسی طرح کے ممکنہ تشدد سے محفوظ رکھوں۔
بھائی میرے! آپ کا شکریہ کہ آپ مجھ سے اتفاق کر رہے ہیں۔ دیکھیے! مجھ بے ضرر سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بائی دا وے، آپ رہتے کہاں ہیں؟:)
اور براہِ مہربانی آپ نے والدین کو جو چھوٹ دی ہے، اس پر قائم رہیے گا، چاہے آپ کو یو ٹرن لینے پر کوئی کتنا ہی اکسائے۔:)
 
Top