کاشفی
محفلین
غزل
(شوق انصاری - فیصل آباد، پاکستان)
تعلق میں گماں کیا کیا نہیں ہے
جسے اپنا کہیں اپنا نہیں ہے
خزاں کا روپ ہے مفلس کا چہرہ
کسی موسم میں بھی کھلتا نہیں ہے
چمن کی خستہ حالی کہہ رہی ہے
چمن کا پاسباں اچھا نہیں ہے
نبھی ہے وقت سے جیسے نبھالی
انا کو بیچ کر کھایا نہیں ہے
شرافت کے نقابوں کو ہٹا دو
کہ مجرم کا پتا ملتا نہیں ہے
بڑے دستور بدلے شوق ہم نے
مگر خود کو کبھی بدلا نہیں ہے
(شوق انصاری - فیصل آباد، پاکستان)
تعلق میں گماں کیا کیا نہیں ہے
جسے اپنا کہیں اپنا نہیں ہے
خزاں کا روپ ہے مفلس کا چہرہ
کسی موسم میں بھی کھلتا نہیں ہے
چمن کی خستہ حالی کہہ رہی ہے
چمن کا پاسباں اچھا نہیں ہے
نبھی ہے وقت سے جیسے نبھالی
انا کو بیچ کر کھایا نہیں ہے
شرافت کے نقابوں کو ہٹا دو
کہ مجرم کا پتا ملتا نہیں ہے
بڑے دستور بدلے شوق ہم نے
مگر خود کو کبھی بدلا نہیں ہے