تعلق کی اس کچی ڈورکو بس ٹوٹنا ہی تھا - برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
معزز اساتذہ کرام

الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی @محمّد احسن سمیع :راحل:


آپ سے رہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔

شکریہ


تعلق کی اس کچی ڈورکو بس ٹوٹنا ہی تھا
دلِ ناسورکو کچھ اس طرح سے پھوٹنا ہی تھا

ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا ایٹھنا بتلائے تم کو روٹھنا ہی تھا

یہ پتھرائ ہوئ آنکھوں سے اکثر دیکھنا ہم کو
ہمیں سمجھا گیا تھا یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا

گریزاں ہونا ہم سےاور کھڑی کرنا فصیلوں کو
نوشتہ پڑھ لیا تھا ساتھ اب یہ چھوٹنا ہی تھا

یہ مصنوعی تنفس پر کہاں جیتے ہیں رشتے بھی
لرزتی، ڈگمگاتی ناؤ کو پھر ڈوبنا ہی تھا

پلٹ کر وار کرنے پر ہو کیوں آپے سے باہر تم
ہمیں بپھرے ہوئے دریا کا رخ پھر موڑنا ہی تھا

نشہ دولت کا تھا یا حسن کا یا اپنے آپے کا
خماری توخماری ہے، اسے پھرٹوٹنا ہی تھا

یہ اب جو اسطرح بکھرے کہ سمٹائے نہ سمٹو تم
تکبر کا یہ بت تو اسطرح سے ٹوٹنا ہی تھا

تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے
دل نادان ہے بس سادہ اسے تو ماننا ہی تھا

نہ ہوتا دل میں جو خوف خدا ہرگز نہ کر پاتے
کہ ٹوٹے ہر تعلق کو ہمیں تو جوڑنا ہی تھا
 
جنابہ صابرہ صاحبہ، آداب!

سب سے پہلے قافیہ کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا. کیونکہ آپ نے مطلع میں ٹوٹ اور پھوٹ (نا چونکہ مصدر کی علامات ہے اس لئے اس کا یہاں اعتبار نہیں) کی تخصیص کردی ہے، اس لئے اب آپ کو پوری غزل میں ایسے ہی قوافی لانا ہوں گے جن میں مشترک "وٹ" سے ماقبل حرف مضموم ہو. یعنی ٹوٹنا، پھوٹنا، چھوٹنا، لُوٹنا تو قوافی لائے جاسکتے ہیں، موڑنا، جوڑنا، ڈوبنا وغیرہ نہیں.

ثانیا، علم قافیہ کا ایک اصول یہ ہے کہ قافیہ اگر مصدر ہو یا مصدر سے حاصل کیا گیا ہو، تو مشرک حروف نکال کر جو (فعل امر) بچ رہے، وہ ہم قافیہ ہو. مثلا ٹوٹنا اور جوڑنا میں سے مشترک "نا" نکال دیا جائے تو محض ٹوٹ اور جوڑ بچتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی ہم آواز نہیں.

تعلق کی اس کچی ڈورکو بس ٹوٹنا ہی تھا
دلِ ناسورکو کچھ اس طرح سے پھوٹنا ہی تھا
پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے، "اس" کی الف وزن میں نہیں آرہی، نہ ہی اس کو ساقط کیا جاسکتا ہے.

ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا ایٹھنا بتلائے تم کو روٹھنا ہی تھا
Tense یا زمانے کا مسئلہ ہے. ردیف کا تقاضا ہے کہ پہلے مصرعے میں لکھ پائے "تھے" ہونا چاہیئے.
دوسرے مصرعے میں "بتلاتا تھا" ہونا چاہیئے.
علاوہ ازیں، ایٹھنا ٹھیک نہیں، درست املا اینٹھنا ہے.

یہ پتھرائ ہوئ آنکھوں سے اکثر دیکھنا ہم کو
ہمیں سمجھا گیا تھا یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا
پہلے مصرعے میں "یہ" بھرتی کا معلوم ہوتا ہے. دوسرے یہ کہ یہاں پتھرائی ہوئی آنکھوں کا محل نہیں، بلکہ انجانہ پن، بیگانگی، بےرخی وغیرہ کا ہے.

گریزاں ہونا ہم سےاور کھڑی کرنا فصیلوں کو
نوشتہ پڑھ لیا تھا ساتھ اب یہ چھوٹنا ہی تھا
"کھڑی کرنا" نہیں بلکہ "کھڑا کرنا فصیلوں کو".
"کو" وجہ سے اب مشار الیہ تعمیر کا عمل ہے، نہ کہ فصیلیں.

یہ مصنوعی تنفس پر کہاں جیتے ہیں رشتے بھی
لرزتی، ڈگمگاتی ناؤ کو پھر ڈوبنا ہی تھا
پہلے مصرعے میں یہ اور بھی دونوں ہی بھرتی کے الفاظ ہیں.
رشتوں کے وینٹیلیٹر پر ہونے سے ناؤ کے ڈوبنے کا تعلق ثابت کرنا آپ کے ذمہ رہ جائے گا. اگر رشتوں کو ڈوبتی ناؤ سے تشبیہ دینی ہے تو پہلے مصرعے میں بھی اس کی مناسبت سے کوئی ترکیب تراشیں، وگرنہ کشتیوں کا مصنوعی تنفس سے کیا علاقہ؟؟؟

پلٹ کر وار کرنے پر ہو کیوں آپے سے باہر تم
ہمیں بپھرے ہوئے دریا کا رخ پھر موڑنا ہی تھا
شعر عجز بیان کا شکار ہے.
دوسرے مصرعے میں "پھر"، پھر سے زائد ہے، اس کی جگہ "تو" زیادہ مناسب رہے گا. دونوں مصرعوں کے ربط پر سوالیہ نشان بہرحال موجود ہے.

نشہ دولت کا تھا یا حسن کا یا اپنے آپے کا
خماری توخماری ہے، اسے پھرٹوٹنا ہی تھا
پہلے مصرعے میں آپا آپے سے باہر ہوتا نہیں لگ رہا؟ :)
عموما ایسے مواقع پر "سراپا" کہا جاتا ہے، تاہم جب ایک بار حسن کا ذکر کردیا تو پھر دوبارہ آپے یا سراپے ذکر کرنا بے معنی ہے.
نشہ دولت کا ہو، یا پھر سراپا حسن کا اپنے

خماری تو حالتِ خمار کو کہا جاتا ہے. درست محاورہ خمار ٹوٹنا ہے، خماری ٹوٹنا کہنا درست نہیں. "پھر" پھر سے بھرتی کا ہے.

یہ اب جو اسطرح بکھرے کہ سمٹائے نہ سمٹو تم
تکبر کا یہ بت تو اسطرح سے ٹوٹنا ہی تھا
یہاں بھی حشو و زوائد کا مسئلہ ہے.

تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے
دل نادان ہے بس سادہ اسے تو ماننا ہی تھا
جب دلِ نادان نہیں کہا جاسکتا، دلِ ناداں کہیں. ایک تو وزن میں نہیں آسکتا، دوسرے یہ کہ اصولا بھی یہ غلط ہے! اضافت کے بعد ن معلن نہیں رہتی.
علاوہ ازیں، جب دلِ ناداں کہہ دیا، تو سادہ کا اضافہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے.

نہ ہوتا دل میں جو خوف خدا ہرگز نہ کر پاتے
کہ ٹوٹے ہر تعلق کو ہمیں تو جوڑنا ہی تھا
دونوں مصرعے کچھ تضاد بیانی کا شکار معلوم ہوتے ہیں. دل میں خوف خدا ہے، تبھی تو ٹوٹے تعلق جوڑے جارہے ہیں! سو پہلے مصرعے میں خوف خدا ہونے کا اثبات بیان ہونا چاہیئے، نہ کہ عدم خوف کی نہی ... اس طرح بیان الجھے گا نہیں.

دعاگو،
راحل.
 

صابرہ امین

لائبریرین
جنابہ صابرہ صاحبہ، آداب!

سب سے پہلے قافیہ کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا. کیونکہ آپ نے مطلع میں ٹوٹ اور پھوٹ (نا چونکہ مصدر کی علامات ہے اس لئے اس کا یہاں اعتبار نہیں) کی تخصیص کردی ہے، اس لئے اب آپ کو پوری غزل میں ایسے ہی قوافی لانا ہوں گے جن میں مشترک "وٹ" سے ماقبل حرف مضموم ہو. یعنی ٹوٹنا، پھوٹنا، چھوٹنا، لُوٹنا تو قوافی لائے جاسکتے ہیں، موڑنا، جوڑنا، ڈوبنا وغیرہ نہیں.

ثانیا، علم قافیہ کا ایک اصول یہ ہے کہ قافیہ اگر مصدر ہو یا مصدر سے حاصل کیا گیا ہو، تو مشرک حروف نکال کر جو (فعل امر) بچ رہے، وہ ہم قافیہ ہو. مثلا ٹوٹنا اور جوڑنا میں سے مشترک "نا" نکال دیا جائے تو محض ٹوٹ اور جوڑ بچتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی ہم آواز نہیں.

.
استادِ محترم ،
آداب!
یہ غزل میں نے شاعری کے ابتدائ دنوں میں لکھی تھی ۔ ۔ اسوقت قافیہ کا مطلب بھی معلوم نہ تھا ۔ ۔ اگر اس کے بیشتر قافیے تبدیل کیے تو اسکی شکل بالکل بدل جائے گی ۔ ۔ آپ رہنمائ کیجیے کہ اگر اس کے مطلع میں قوافی بالکل الگ ہوں مگر حرف روی "الف" باندھا جائے تو پھر باقی قوافی تو تبدیل نہ ہوں گے ۔ ۔ اس کے بعد باقی مسائل پر کام کرنا آسان ہو جاے گا ۔ ۔

شکریہ
 
استادِ محترم ،
آداب!
یہ غزل میں نے شاعری کے ابتدائ دنوں میں لکھی تھی ۔ ۔ اسوقت قافیہ کا مطلب بھی معلوم نہ تھا ۔ ۔ اگر اس کے بیشتر قافیے تبدیل کیے تو اسکی شکل بالکل بدل جائے گی ۔ ۔ آپ رہنمائ کیجیے کہ اگر اس کے مطلع میں قوافی بالکل الگ ہوں مگر حرف روی "الف" باندھا جائے تو پھر باقی قوافی تو تبدیل نہ ہوں گے ۔ ۔ اس کے بعد باقی مسائل پر کام کرنا آسان ہو جاے گا ۔ ۔

شکریہ

صرف مطلع میں نہ کریں، ورنہ یہ تو Hacking ہوجائے گی :)
بہتر ہوگا کہ کچھ دیگر اشعار میں بھی محض الف والے قوافی لے آئیں، پھر عیب جاتا رہے گا.

پس نوشت: جناب میں یہ بغیر کسی تکلف و تصنع کے عرض کررہا ہوں کہ استادی میرا منصب نہیں، نہ ہی میں فی الحال اس کا اہل ہوں، اس لئے یہ خطاب میرے لئے نہ ہی استعمال کریں.
میں بھی ابھی دشت سخن کی ابتدائی منزلوں میں ہی ہوں، اور خود کئی بار فاش غلطیوں کا مرتک ہوجاتا ہوں. یہا‍ں لکھنے لکھانے کا مقصد محض اساتذہ کرام کی خوشہ چینی ہے، بس. کھل کر اس لئے رائے دے دیتا ہوں کہ اگر ذہن میں کہیں کوئی غلط تاثر بن گیا ہو تو اساتذہ کی نظروں میں آجائے.
آپ راحل بھائی کہیں گی تو مجھے خوشی ہوگی

دعا گو،
راحل.
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
پس نوشت: جناب میں یہ بغیر کسی تکلف و تصنع کے عرض کررہا ہوں کہ استادی میرا منصب نہیں، نہ ہی میں فی الحال اس کا اہل ہوں، اس لئے یہ خطاب میرے لئے نہ ہی استعمال کریں.
آپ راحل بھائی کہیں گی تو مجھے خوشی ہوگی
.. حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے۔'' جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہوا۔۔''

آپ سے تو بہت کچھ مسلسل ہی سیکھا جا رہا ہے ۔ ۔ مگر آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔ ۔ ۔

اصل میں ایک ادارے میں بہت عرصے پڑھایا ۔ ۔ ۔ کولیگز کی اکثریت عمر میں ہم سے کئ دہائیوں بڑی تھی ۔ ۔ مگر امریکن سسٹم رائج تھا ۔ ۔ کبھی کسی کا ذاتی نام نہیں لیتے تھے اور نہ غیر ضروری رشتہ باندھتے تھے ۔ ۔ سب بہت فرینک مگر امپرسنل ۔ ۔ ہمیشہ مس، مسٹر یا مسز کے ساتھ سر نیم ۔ ۔ ۔ شادی سے پہلے ہم مس جمال اور بعد میں مسز امین کہلائے ۔ ۔
مزے کی بات بتاؤں کہ ہمیں عرصے کے بعد پتہ چلا کہ مس احمد اور مسز ارشد آپس میں والدہ اور صاحبزادی ہیں ۔ ۔ وہ بھی ایک دوسرے کو امی بیٹی نہیں کہتی تھیں ۔ ۔ !!
اسی طرح طالبعلم ہم سے عمرمیں کئ گنا بڑے رہے اور انھوں نے ایک روحانی والدہ کی سی عزت دی مگر کبھی امی ، باجی وغیرہ نہیں کہا ۔ ۔ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ۔ اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ ۔ ۔ یہ سب اس لیئے بتایا کہ کچھ کنفیوژن دور ہو کہ ہمیں یہ سب عجیب لگتا ہے ۔ ۔ مگر عادت ہو ہی جائےگی ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
.. حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے۔'' جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہوا۔۔''

آپ سے تو بہت کچھ مسلسل ہی سیکھا جا رہا ہے ۔ ۔ مگر آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔ ۔ ۔

اصل میں ایک ادارے میں بہت عرصے پڑھایا ۔ ۔ ۔ کولیگز کی اکثریت عمر میں ہم سے کئ دہائیوں بڑی تھی ۔ ۔ مگر امریکن سسٹم رائج تھا ۔ ۔ کبھی کسی کا ذاتی نام نہیں لیتے تھے اور نہ غیر ضروری رشتہ باندھتے تھے ۔ ۔ سب بہت فرینک مگر امپرسنل ۔ ۔ ہمیشہ مس، مسٹر یا مسز کے ساتھ سر نیم ۔ ۔ ۔ شادی سے پہلے ہم مس جمال اور بعد میں مسز امین کہلائے ۔ ۔
مزے کی بات بتاؤں کہ ہمیں عرصے کے بعد پتہ چلا کہ مس احمد اور مسز ارشد آپس میں والدہ اور صاحبزادی ہیں ۔ ۔ وہ بھی ایک دوسرے کو امی بیٹی نہیں کہتی تھیں ۔ ۔ !!
اسی طرح طالبعلم ہم سے عمرمیں کئ گنا بڑے رہے اور انھوں نے ایک روحانی والدہ کی سی عزت دی مگر کبھی امی ، باجی وغیرہ نہیں کہا ۔ ۔ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ۔ اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ ۔ ۔ یہ سب اس لیئے بتایا کہ کچھ کنفیوژن دور ہو کہ ہمیں یہ سب عجیب لگتا ہے ۔ ۔ مگر عادت ہو ہی جائےگی ۔ ۔
اور یہاں محفل کا معاملہ عجیب ہے۔ کئی ارکان کے لئے میں بابا جانی ہوں، کچھ کے لیے چاچو/چچا جان! شاید شکیب نےبھی تم کو لکھتے وقت کہیں چچا جان لکھا تھا جو مجھے ہی کہا گیا تھا!
 
اور یہاں محفل کا معاملہ عجیب ہے۔ کئی ارکان کے لئے میں بابا جانی ہوں، کچھ کے لیے چاچو/چچا جان! شاید شکیب نےبھی تم کو لکھتے وقت کہیں چچا جان لکھا تھا جو مجھے ہی کہا گیا تھا!
ہمارے لئے تو آپ بس استاد محترم ہیں، جب استاد مان لیا اور روحانی والد اور چچا وغیرہ تو بائی ڈیفالٹ ہو گئے :)
 
.. حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے۔'' جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہوا۔۔''
یہ تو نابغہ روزگار اور عظیم ہستیاں تھیں، ان کی کیا ہی بات ہے. باب العلم رضی اللہ عنہ کسی عامی کو استاد کہیں تو یہ ان کی خشیت الہی کے سبب ہے.
ہم ایسے کم علموں کی اتنی حیثیت کہاں کہ لفظ استاد کا مرتبہ کم کرنے کے مرتکب ہونے کی جرأت کریں. ابھی تو بہت سا سفر باقی ہے، اور منزل ہنوز دور است.
باقی آپ مسٹر راحل، بھائی راحل، ابے راحل کچھ بھی کہہ لیں، آپ کی صوابدید ہے :)
ابے والی بات کو سنجیدگء سے مت لیجئے گا :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
اور یہاں محفل کا معاملہ عجیب ہے۔ کئی ارکان کے لئے میں بابا جانی ہوں، کچھ کے لیے چاچو/چچا جان! شاید شکیب نےبھی تم کو لکھتے وقت کہیں چچا جان لکھا تھا جو مجھے ہی کہا گیا تھا!
آداب
ہم نے تو اہک مخصوص ماحول کے عادی ہونے کی وجہ اس لیئے بیان کی کہ کچھ "گڑ بڑ" کا سا احساس ہوا ۔ ۔ ورنہ مشرقی ماحول میں تو یہ ایک عام سی بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شائد اچھی روایت ہے ۔ ۔

ہائیں تو شکیب صاحب آپ کے سگے بھتیجے نہیں ۔ ۔ ؟ ویسے اگر نہیں بھی ہیں توکیا وہ آپ سے بے انتہا محبت کرتے معلوم ہوتے ہیں اور بے پناہ عزت کرتےبھی ۔ ۔ کتنی نعمت اور رشک کی بات ہے کہ لوگ کسی کو اتنا چاہیں کہ کوئ رشتہ باندھیں ۔ ۔ آپ یقیناََ خوشنصیب ہیں ۔ ۔ ما شا اللہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
سب سے پہلے قافیہ کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا. کیونکہ آپ نے مطلع میں ٹوٹ اور پھوٹ (نا چونکہ مصدر کی علامات ہے اس لئے اس کا یہاں اعتبار نہیں) کی تخصیص کردی ہے، اس لئے اب آپ کو پوری غزل میں ایسے ہی قوافی لانا ہوں گے جن میں مشترک "وٹ" سے ماقبل حرف مضموم ہو. یعنی ٹوٹنا، پھوٹنا، چھوٹنا، لُوٹنا تو قوافی لائے جاسکتے ہیں، موڑنا، جوڑنا، ڈوبنا وغیرہ نہیں.

ثانیا، علم قافیہ کا ایک اصول یہ ہے کہ قافیہ اگر مصدر ہو یا مصدر سے حاصل کیا گیا ہو، تو مشرک حروف نکال کر جو (فعل امر) بچ رہے، وہ ہم قافیہ ہو. مثلا ٹوٹنا اور جوڑنا میں سے مشترک "نا" نکال دیا جائے تو محض ٹوٹ اور جوڑ بچتے ہیں جو کسی لحاظ سے بھی ہم آواز نہیں.


پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے، "اس" کی الف وزن میں نہیں آرہی، نہ ہی اس کو ساقط کیا جاسکتا ہے.
معزز اساتذہ کرام

الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی @محمّد احسن سمیع :راحل:

محترم راحل بھائ

آداب
مطلع ملاحظہ کیجیئے۔

ہماری بات کاالٹا اثر تم پر ہوا ہی تھا
تعلق کی لٹکتی ڈور کو بس ٹوٹنا ہی تھا

ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا ایٹھنا بتلائے تم کو روٹھنا ہی تھا

Tense یا زمانے کا مسئلہ ہے. ردیف کا تقاضا ہے کہ پہلے مصرعے میں لکھ پائے "تھے" ہونا چاہیئے.
دوسرے مصرعے میں "بتلاتا تھا" ہونا چاہیئے.
علاوہ ازیں، ایٹھنا ٹھیک نہیں، درست املا اینٹھنا ہے.
اب ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔

ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا اینٹھنا کہتا تھا تم کو روٹھنا ہی تھا

علاوہ ازیں، ایٹھنا ٹھیک نہیں، درست املا اینٹھنا ہے.

اردو ہماری بہت اچھی تو نہیں مگر یہ سراسر ٹائپو ہوا ہے ۔ ۔ آئندہ صحیح سے چیک کریں گے ۔ ۔

پہلے مصرعے میں "یہ" بھرتی کا معلوم ہوتا ہے. دوسرے یہ کہ یہاں پتھرائی ہوئی آنکھوں کا محل نہیں، بلکہ انجانہ پن، بیگانگی، بےرخی وغیرہ کا ہے.


"کھڑی کرنا" نہیں بلکہ "کھڑا کرنا فصیلوں کو".
"کو" وجہ سے اب مشار الیہ تعمیر کا عمل ہے، نہ کہ فصیلیں.

.

اب دیکھیئے ۔ ۔
تمھارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سی آنکھوں سے
ہمیں سمجھا گیا تھا یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا

فصیلوں کو کیا تم نے کھڑا جب درمیاں اپنے
نوشتہ پڑھ لیا تھا ساتھ اب یہ چھوٹنا ہی تھا

"کھڑی کرنا" نہیں بلکہ "کھڑا کرنا فصیلوں کو".
"کو" وجہ سے اب مشار الیہ تعمیر کا عمل ہے، نہ کہ فصیلیں.

.

بالکل ٹھیک ۔ ۔ ۔ یہ غلطی ہے ہماری

پہلے مصرعے میں یہ اور بھی دونوں ہی بھرتی کے الفاظ ہیں.
رشتوں کے وینٹیلیٹر پر ہونے سے ناؤ کے ڈوبنے کا تعلق ثابت کرنا آپ کے ذمہ رہ جائے گا. اگر رشتوں کو ڈوبتی ناؤ سے تشبیہ دینی ہے تو پہلے مصرعے میں بھی اس کی مناسبت سے کوئی ترکیب تراشیں، وگرنہ کشتیوں کا مصنوعی تنفس سے کیا علاقہ؟؟؟



بھلا جھوٹے سہاروں پر کبھی بنتے ہیں رشتے بھی

یا
بھلا مصنوعی تنفس پر کبھی جیتے ہیں رشتے بھی
جدا ہم تم سے ہوں گے یہ کہیں پر تو لکھا ہی تھا



پھٹےتھے بادباں جس کے، نہ تھے پتوار قابو میں
لرزتی، ڈگمگاتی ناؤ کو پھر ڈوبنا ہی تھا



پلٹ کر وار کرنے پر ہو کیوں آپے سے باہر تم
ہمیں بپھرے ہوئے دریا کا رخ پھر موڑنا ہی تھا
شعر عجز بیان کا شکار ہے.
دوسرے مصرعے میں "پھر"، پھر سے زائد ہے، اس کی جگہ "تو" زیادہ مناسب رہے گا. دونوں مصرعوں کے ربط پر سوالیہ نشان بہرحال موجود ہے.
دیکھیئے ۔ ۔ ۔


پلٹ کر وار کرنے پر ہو کیوں آپے سے باہر تم
تمھارے بپھرے دریا کا ہمیں رخ موڑنا ہی تھا


نشہ دولت کا تھا یا حسن کا یا اپنے آپے کا
خماری توخماری ہے، اسے پھرٹوٹنا ہی تھا
پہلے مصرعے میں آپا آپے سے باہر ہوتا نہیں لگ رہا؟ :)
عموما ایسے مواقع پر "سراپا" کہا جاتا ہے، تاہم جب ایک بار حسن کا ذکر کردیا تو پھر دوبارہ آپے یا سراپے ذکر کرنا بے معنی ہے.
نشہ دولت کا ہو، یا پھر سراپا حسن کا اپنے

خماری تو حالتِ خمار کو کہا جاتا ہے. درست محاورہ خمار ٹوٹنا ہے، خماری ٹوٹنا کہنا درست نہیں. "پھر" پھر سے بھرتی کا ہے.


نشہ دولت کا تھا، یا پھر سراپا حسن کا اپنے
خمارِ بے وجہ کو ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا




یہ اب جو اسطرح بکھرے کہ سمٹائے نہ سمٹو تم
تکبر کا یہ بت تو اسطرح سے ٹوٹنا ہی تھا
یہاں بھی حشو و زوائد کا مسئلہ ہے.

بہترہے ۔ ۔

تمھارا یہ گھمنڈی روپ چاروں اور بکھرا سا
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا

یا
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح سے ٹوٹنا ہی تھا



تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے
دل نادان ہے بس سادہ اسے تو ماننا ہی تھا
جب دلِ نادان نہیں کہا جاسکتا، دلِ ناداں کہیں. ایک تو وزن میں نہیں آسکتا، دوسرے یہ کہ اصولا بھی یہ غلط ہے! اضافت کے بعد ن معلن نہیں رہتی.
علاوہ ازیں، جب دلِ ناداں کہہ دیا، تو سادہ کا اضافہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے.
جی دیکھیئے ۔ ۔ ۔ ۔


تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے

یا

دلِ سادہ ہوا بےکل اسے پھر ماننا ہی تھا

یا

دلِ سادہ تھا بےکل سا اسے پھر ماننا ہی تھا

یا

دلِ سادہ تھا بس بےکل اسے پھر ماننا ہی تھا


نہ ہوتا دل میں جو خوف خدا ہرگز نہ کر پاتے
کہ ٹوٹے ہر تعلق کو ہمیں تو جوڑنا ہی تھا

دونوں مصرعے کچھ تضاد بیانی کا شکار معلوم ہوتے ہیں. دل میں خوف خدا ہے، تبھی تو ٹوٹے تعلق جوڑے جارہے ہیں! سو پہلے مصرعے میں خوف خدا ہونے کا اثبات بیان ہونا چاہیئے، نہ کہ عدم خوف کی نہی ... اس طرح بیان الجھے گا نہیں.


اب ٹھیک ہے یا نہیں

شکر ہےاپنے دل میں ہم خدا کا خوف رکھتے ہیں
کہ ٹوٹے ہر تعلق کو ہمیں تو جوڑنا ہی تھا


امید ہے اب کچھ بہتری آئ ہو گی، سر ۔ ۔ آپ کی رہنمائ کی منتظر
 
آخری تدوین:
آداب
مطلع ملاحظہ کیجیئے۔

ہماری بات کاالٹا اثر تم پر ہوا ہی تھا
تعلق کی لٹکتی ڈور کو بس ٹوٹنا ہی تھا
دو تین روز سے جواب لکھنے کا ارادہ کررہا ہوں مگر ہر بار سستی اور کاہلی آڑے آجاتے ہیں۔ اصل میں موبائل پر طویل تحریر لکھنا کار از بس لگتا ہے، آج دفتر کے کام لئے لیپ ٹاپ کھولا تو سوچا ہمت کر ہی لوں۔
مطلع کا پہلا مصرع تھوڑا الجھا ہوا تھا۔ جس مفہوم کی ادائیگی مطلوب ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ’’ہی‘‘، ’’الٹا‘‘ کے بعد آئے ۔۔۔ یعنی ’’ الٹا ہی اثر ہوا تھا‘‘ کہا جائے، جو آپ کی زمین میں ممکن نہیں۔
پھر قافیہ کے باب میں آپ نے ’’لائف ہیک‘‘ سے ہی کام چلایا :) بہتر ہے کہ درمیان کے کچھ قافیہ بھی بدل دیں، سب قافیوں کا نا پر ختم ہونا مناسب نہیں۔

ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا اینٹھنا کہتا تھا تم کو روٹھنا ہی تھا
پہلے مصرعے میں ’’تھے‘‘ تو اب بھی نہیں ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں۔
ابھی تو لکھ نہ پائے تھے ستم کا س تک بھی ہم

تمھارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سی آنکھوں سے
ہمیں سمجھا گیا تھا یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا
بیگانی سی آنکھیں کہنا محاورتاً درست نہیں، بیگانی نظریں کہیں۔
تمہارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سے نظروں سے

فصیلوں کو کیا تم نے کھڑا جب درمیاں اپنے
نوشتہ پڑھ لیا تھا ساتھ اب یہ چھوٹنا ہی تھا
پہلے مصرعے کی بنت محاورے کے مطابق درست نہیں لگتی، جبکہ دوسرے مصرعے میں فاعل موجود نہیں۔ اس کو یوں کرلیں
فصیلیں جب کھڑی کیں درمیاں تم نے، تبھی ہم کو
سمجھ یہ آگیا تھا، ساتھ آخر چھوٹنا ہی تھا۔

نوشتہ میں نے اس لئے بدل دیا کہ مکمل ترکیب نوشتۂ دیوار ہے، جبکہ محاورہ نوشتۂ دیوار پڑھنا، اس لئے صرف نوشتہ پڑھنا میرے خیال میں ٹھیک نہیں۔

بھلا مصنوعی تنفس پر کبھی جیتے ہیں رشتے بھی
جدا ہم تم سے ہوں گے یہ کہیں پر تو لکھا ہی تھا
اب بھی بات نہیں بن رہی۔ میرے خیال یہ شعر نکال دیں، یا دونوں مصرعوں پر الگ الگ گرہ لگائیں۔

پھٹےتھے بادباں جس کے، نہ تھے پتوار قابو میں
لرزتی، ڈگمگاتی ناؤ کو پھر ڈوبنا ہی تھا
ناؤ یا کشتی کے لئے لرزنا کہنا شاید محاورے کے مطابق درست نہ ہو۔
پھٹے ہوں بادباں جس کے، نہ ہوں پتوار قابو میں
اب ایسی ڈگمگاتی ناؤ کو تو ڈوبنا ہی تھا

پلٹ کر وار کرنے پر ہو کیوں آپے سے باہر تم
تمھارے بپھرے دریا کا ہمیں رخ موڑنا ہی تھا
نہ کرتے ہم پلٹ کر وار تو پھر اور کیا کرتے؟
ہمیں بپھرے ہوئے دریا رخ تو موڑنا ہی تھا

نشہ دولت کا تھا، یا پھر سراپا حسن کا اپنے
خمارِ بے وجہ کو ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا
وجہ کا تلفظ درست نہیں کیا آپ نے۔ وجہ کی ہ ساکن ہوتی ہے اور اس کی تقطیع ’’وج+ہْ‘‘ کرتے ہیں، جبکہ آپ کی تقطیع میں ’’و+جہ‘‘ آتا ہے۔

تمھارا یہ گھمنڈی روپ چاروں اور بکھرا سا
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا

یا
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح سے ٹوٹنا ہی تھا
یہاں بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
وجود تو بکھرا ہوا ہو سکتا ہے، روپ کیسے بکھر سکتا ہے؟

تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے

یا

دلِ سادہ ہوا بےکل اسے پھر ماننا ہی تھا
یوں سوچ کر دیکھئے
دلِ ناداں کو تو ہر حال میں بس ماننا ہی تھا

شکر ہےاپنے دل میں ہم خدا کا خوف رکھتے ہیں
کہ ٹوٹے ہر تعلق کو ہمیں تو جوڑنا ہی تھا
شکر کا تلفظ درست نہیں، شکر میں ک ساکن ہوتی ہے اور تقطیع میں ’’شکْ+رْ‘‘ آتا ہے۔
خدا کے خوف سے لبریز جب رکھتے ہیں اپنا دل
تو پھر ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ہم کو جوڑنا ہی تھا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
دو تین روز سے جواب لکھنے کا ارادہ کررہا ہوں مگر ہر بار سستی اور کاہلی آڑے آجاتے ہیں۔ اصل میں موبائل پر طویل تحریر لکھنا کار از بس لگتا ہے، آج دفتر کے کام لئے لیپ ٹاپ کھولا تو سوچا ہمت کر ہی لوں۔
معزز اساتذہ کرام

الف عین ، محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی @محمّد احسن سمیع :راحل:

راحل بھائ

آداب

شرمندگی سے برا حال ہے کہ آپ اس طرح کہہ رہے ہیں ۔ ۔ یہ ٹھیک ہے کہ محفل میں بار بار آ کر چیک کیا مگر لگا کہ ویک اینڈ وجہ ہے ۔ ۔ مگر اب لگا کہ رب کی مصلحت تھی کیونکہ اس طرح یعقوب آسی صاحب، اسامہ سرسری صاحب، خلیل صاحب، عاطف بھائ اور شکیب بھائ کا کام دیکھنے کا موقع مل گیا ۔ ۔ اپنی پروفائل کی بھی پہلی مرتبہ سمجھ آئ ۔ ۔ دیواناگری رسم الخط سیکھتے سیکھتے بال بال بچے ۔ ۔ کیا ہی ظالم قسم کے اسباق ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اتفاق ہے کہ مہینہ بھر پہلے یو ٹیوب سے سیکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ۔ ۔ پھر سوچا پہلے ہی بہت سے کام شروع کر رکھے ہیں ۔ ۔ عروض کی کتب کے بعد انشا اللہ ۔ ۔ ۔

ہماری بات کاالٹا اثر تم پر ہوا ہی تھا
تعلق کی لٹکتی ڈور کو بس ٹوٹنا ہی تھا

ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا اینٹھنا کہتا تھا تم کو روٹھنا ہی تھا

مطلع کا پہلا مصرع تھوڑا الجھا ہوا تھا۔ جس مفہوم کی ادائیگی مطلوب ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ’’ہی‘‘، ’’الٹا‘‘ کے بعد آئے ۔۔۔ یعنی ’’ الٹا ہی اثر ہوا تھا‘‘ کہا جائے، جو آپ کی زمین میں ممکن نہیں۔

پہلے مصرعے میں ’’تھے‘‘ تو اب بھی نہیں ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں۔
ابھی تو لکھ نہ پائے تھے ستم کا س تک بھی ہم
دونوں اشعار پرسوچ بچار کے بعد کچھ یہ صورت ہے


ستم کا "س" بس ہم نے ابھی آدھا لکھا ہی تھا
یا

ستم کا "س" بس ہم نے ابھی پورا کیا ہی تھا
یا

ستم کا "س" بس ہم سے ابھی پورا ہوا ہی تھا
یا

تمھارا اینٹھنا کہتا تھا تم کو روٹھنا ہی تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمھاری بدگمانی نے کچھ ایسے گل کھلائے تھے
یا

ہماری بات کا الٹا اثر جو لے چکے تھے تم
یا

تعلق کی لٹکتی ڈور کو تو ٹوٹنا ہی تھا

یا

تعلق کی لٹکتی ڈور کو بس ٹوٹنا ہی تھا


بیگانی سی آنکھیں کہنا محاورتاً درست نہیں، بیگانی نظریں کہیں۔
تمہارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سے نظروں سے

جی بہتر ۔ ۔ شکریہ

تمھارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سی نظروں سے
ہمیں سمجھا گیا تھا یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا

پہلے مصرعے کی بنت محاورے کے مطابق درست نہیں لگتی، جبکہ دوسرے مصرعے میں فاعل موجود نہیں۔ اس کو یوں کرلیں

فصیلیں جب کھڑی کیں درمیاں تم نے، تبھی ہم کو
سمجھ یہ آگیا تھا، ساتھ آخر چھوٹنا ہی تھا۔
شکریہ

نوشتہ میں نے اس لئے بدل دیا کہ مکمل ترکیب نوشتۂ دیوار ہے، جبکہ محاورہ نوشتۂ دیوار پڑھنا، اس لئے صرف نوشتہ پڑھنا میرے خیال میں ٹھیک نہیں۔

اب بھی بات نہیں بن رہی۔ میرے خیال یہ شعر نکال دیں، یا دونوں مصرعوں پر الگ الگ گرہ لگائیں۔
پھر قافیہ کے باب میں آپ نے ’’لائف ہیک‘‘ سے ہی کام چلایا :) بہتر ہے کہ درمیان کے کچھ قافیہ بھی بدل دیں، سب قافیوں کا نا پر ختم ہونا مناسب نہیں۔

ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔

یہ مصنوعی تنفس پر کہاں جیتے ہیں رشتے بھی

ہمارے بیچ رشتے میں زہر تو گھل چکا ہی تھا
یا

یہ بندھن آپ اپنی موت کب کا مر چکا ہی تھا
یا

یہ رشتہ آپ اپنی موت کب کا مر چکا ہی تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمجھ میں کچھ نہیں آتا، بجز کاتب کی مرضی کے
یا
سمجھ آیا کہ یہ تھی کاتبِ تقدیر کی منشا

جدا ہم تم سے ہوں گے یہ کہیں پر تو لکھا ہی تھا

ایک نیا شعر

قیامت تم نے کی برپا، ہمارے جیت جانے پر

خوشی کی بات تھی لیکن تمھارا دل دکھا ہی تھا



(یہ اشعارقافیوں کی "نا" کی گردان کو کم کر دیں گے اگر صحیح ہوئے تو ۔ ۔ ورنہ اب کسی شعر کو بدلنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لگ رہا)


ناؤ یا کشتی کے لئے لرزنا کہنا شاید محاورے کے مطابق درست نہ ہو۔

پھٹے ہوں بادباں جس کے، نہ ہوں پتوار قابو میں
اب ایسی ڈگمگاتی ناؤ کو تو ڈوبنا ہی تھا
جی بہتر ۔ ۔


نہ کرتے ہم پلٹ کر وار تو پھر اور کیا کرتے؟
ہمیں بپھرے ہوئے دریا رخ تو موڑنا ہی تھا
شکریہ ۔ ۔


نشہ دولت کا تھا، یا پھر سراپا حسن کا اپنے
خمارِ بے وجہ کو ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا


وجہ کا تلفظ درست نہیں کیا آپ نے۔ وجہ کی ہ ساکن ہوتی ہے اور اس کی تقطیع ’’وج+ہْ‘‘ کرتے ہیں، جبکہ آپ کی تقطیع میں ’’و+جہ‘‘ آتا ہے۔

ابھی اس مقام پر پر جلتے ہیں ۔ ۔ مشینی تقطیع اور اصلاح کچھ غلطی نہیں بتاتے تو اپنی فہم کے مطابق بدل ڈالا ۔ ۔ اللہ کرے ٹھیک ہو ۔ ۔

اس کو یوں بدلا ہے ۔ ۔ ۔


نشہ دولت کا تھا، یا پھر سراپا حسن کا اپنے

خمارِ بے سبب کو ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا
یا
تھاباعث کچھ بھی، آخرایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا


تمھارا یہ گھمنڈی روپ چاروں اور بکھرا سا
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا

یہاں بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
وجود تو بکھرا ہوا ہو سکتا ہے، روپ کیسے بکھر سکتا ہے؟
جی دیکھیئے ۔ ۔


کہ جیسے تم تھے بکھرے اور جو حالت تمھاری تھی

تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا

یا

تکبر کا یہ بت بھی اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا

یا


مناتِ کبر بھی کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا


یوں سوچ کر دیکھئے
دلِ ناداں کو تو ہر حال میں بس ماننا ہی تھا
بہتر ۔ ۔


تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے

دلِ ناداں کو تو ہر حال میں بس ماننا ہی تھا


شکر کا تلفظ درست نہیں، شکر میں ک ساکن ہوتی ہے اور تقطیع میں ’’شکْ+رْ‘‘ آتا ہے۔
خدا کے خوف سے لبریز جب رکھتے ہیں اپنا دل
تو پھر ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ہم کو جوڑنا ہی تھا۔

شکریہ ۔ ۔

امید کرتی ہوں اب سب ٹھیک ہو گا ۔ ۔ رہنمائ کا شکریہ
 
آخری تدوین:
Top