دو تین روز سے جواب لکھنے کا ارادہ کررہا ہوں مگر ہر بار سستی اور کاہلی آڑے آجاتے ہیں۔ اصل میں موبائل پر طویل تحریر لکھنا کار از بس لگتا ہے، آج دفتر کے کام لئے لیپ ٹاپ کھولا تو سوچا ہمت کر ہی لوں۔
معزز اساتذہ کرام
الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ،
سید عاطف علی @
محمّد احسن سمیع :راحل:
راحل بھائ
آداب
شرمندگی سے برا حال ہے کہ آپ اس طرح کہہ رہے ہیں ۔ ۔ یہ ٹھیک ہے کہ محفل میں بار بار آ کر چیک کیا مگر لگا کہ ویک اینڈ وجہ ہے ۔ ۔ مگر اب لگا کہ رب کی مصلحت تھی کیونکہ اس طرح یعقوب آسی صاحب، اسامہ سرسری صاحب، خلیل صاحب، عاطف بھائ اور شکیب بھائ کا کام دیکھنے کا موقع مل گیا ۔ ۔ اپنی پروفائل کی بھی پہلی مرتبہ سمجھ آئ ۔ ۔ دیواناگری رسم الخط سیکھتے سیکھتے بال بال بچے ۔ ۔ کیا ہی ظالم قسم کے اسباق ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اتفاق ہے کہ مہینہ بھر پہلے یو ٹیوب سے سیکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ۔ ۔ پھر سوچا پہلے ہی بہت سے کام شروع کر رکھے ہیں ۔ ۔ عروض کی کتب کے بعد انشا اللہ ۔ ۔ ۔
ہماری بات کاالٹا اثر تم پر ہوا ہی تھا
تعلق کی لٹکتی ڈور کو بس ٹوٹنا ہی تھا
ابھی تو ہم ستم کا "س" بھی پورا نہ لکھ پائے
تمھارا اینٹھنا کہتا تھا تم کو روٹھنا ہی تھا
مطلع کا پہلا مصرع تھوڑا الجھا ہوا تھا۔ جس مفہوم کی ادائیگی مطلوب ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ’’ہی‘‘، ’’الٹا‘‘ کے بعد آئے ۔۔۔ یعنی ’’ الٹا ہی اثر ہوا تھا‘‘ کہا جائے، جو آپ کی زمین میں ممکن نہیں۔
پہلے مصرعے میں ’’تھے‘‘ تو اب بھی نہیں ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں۔
ابھی تو لکھ نہ پائے تھے ستم کا س تک بھی ہم
دونوں اشعار پرسوچ بچار کے بعد کچھ یہ صورت ہے
ستم کا "س" بس ہم نے ابھی آدھا لکھا ہی تھا
یا
ستم کا "س" بس ہم نے ابھی پورا کیا ہی تھا
یا
ستم کا "س" بس ہم سے ابھی پورا ہوا ہی تھا
یا
تمھارا اینٹھنا کہتا تھا تم کو روٹھنا ہی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری بدگمانی نے کچھ ایسے گل کھلائے تھے
یا
ہماری بات کا الٹا اثر جو لے چکے تھے تم
یا
تعلق کی لٹکتی ڈور کو تو ٹوٹنا ہی تھا
یا
تعلق کی لٹکتی ڈور کو بس ٹوٹنا ہی تھا
بیگانی سی آنکھیں کہنا محاورتاً درست نہیں، بیگانی نظریں کہیں۔
تمہارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سے نظروں سے
جی بہتر ۔ ۔ شکریہ
تمھارا دیکھنا ہم کو یوں بیگانی سی نظروں سے
ہمیں سمجھا گیا تھا یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا
پہلے مصرعے کی بنت محاورے کے مطابق درست نہیں لگتی، جبکہ دوسرے مصرعے میں فاعل موجود نہیں۔ اس کو یوں کرلیں
فصیلیں جب کھڑی کیں درمیاں تم نے، تبھی ہم کو
سمجھ یہ آگیا تھا، ساتھ آخر چھوٹنا ہی تھا۔
شکریہ
نوشتہ میں نے اس لئے بدل دیا کہ مکمل ترکیب نوشتۂ دیوار ہے، جبکہ محاورہ نوشتۂ دیوار پڑھنا، اس لئے صرف نوشتہ پڑھنا میرے خیال میں ٹھیک نہیں۔
اب بھی بات نہیں بن رہی۔ میرے خیال یہ شعر نکال دیں، یا دونوں مصرعوں پر الگ الگ گرہ لگائیں۔
پھر قافیہ کے باب میں آپ نے ’’لائف ہیک‘‘ سے ہی کام چلایا
بہتر ہے کہ درمیان کے کچھ قافیہ بھی بدل دیں، سب قافیوں کا نا پر ختم ہونا مناسب نہیں۔
ملاحظہ کیجیئے ۔ ۔
یہ مصنوعی تنفس پر کہاں جیتے ہیں رشتے بھی
ہمارے بیچ رشتے میں زہر تو گھل چکا ہی تھا
یا
یہ بندھن آپ اپنی موت کب کا مر چکا ہی تھا
یا
یہ رشتہ آپ اپنی موت کب کا مر چکا ہی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، بجز کاتب کی مرضی کے
یا
سمجھ آیا کہ یہ تھی کاتبِ تقدیر کی منشا
جدا ہم تم سے ہوں گے یہ کہیں پر تو لکھا ہی تھا
ایک نیا شعر
قیامت تم نے کی برپا، ہمارے جیت جانے پر
خوشی کی بات تھی لیکن تمھارا دل دکھا ہی تھا
(یہ اشعارقافیوں کی "نا" کی گردان کو کم کر دیں گے اگر صحیح ہوئے تو ۔ ۔ ورنہ اب کسی شعر کو بدلنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں لگ رہا)
ناؤ یا کشتی کے لئے لرزنا کہنا شاید محاورے کے مطابق درست نہ ہو۔
پھٹے ہوں بادباں جس کے، نہ ہوں پتوار قابو میں
اب ایسی ڈگمگاتی ناؤ کو تو ڈوبنا ہی تھا
جی بہتر ۔ ۔
نہ کرتے ہم پلٹ کر وار تو پھر اور کیا کرتے؟
ہمیں بپھرے ہوئے دریا رخ تو موڑنا ہی تھا
شکریہ ۔ ۔
نشہ دولت کا تھا، یا پھر سراپا حسن کا اپنے
خمارِ بے وجہ کو ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا
وجہ کا تلفظ درست نہیں کیا آپ نے۔ وجہ کی ہ ساکن ہوتی ہے اور اس کی تقطیع ’’وج+ہْ‘‘ کرتے ہیں، جبکہ آپ کی تقطیع میں ’’و+جہ‘‘ آتا ہے۔
ابھی اس مقام پر پر جلتے ہیں ۔ ۔ مشینی تقطیع اور اصلاح کچھ غلطی نہیں بتاتے تو اپنی فہم کے مطابق بدل ڈالا ۔ ۔ اللہ کرے ٹھیک ہو ۔ ۔
اس کو یوں بدلا ہے ۔ ۔ ۔
نشہ دولت کا تھا، یا پھر سراپا حسن کا اپنے
خمارِ بے سبب کو ایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا
یا
تھاباعث کچھ بھی، آخرایک دن تو ٹوٹنا ہی تھا
تمھارا یہ گھمنڈی روپ چاروں اور بکھرا سا
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا
یہاں بھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
وجود تو بکھرا ہوا ہو سکتا ہے، روپ کیسے بکھر سکتا ہے؟
جی دیکھیئے ۔ ۔
کہ جیسے تم تھے بکھرے اور جو حالت تمھاری تھی
تکبر کا یہ بت کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا
یا
تکبر کا یہ بت بھی اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا
یا
مناتِ کبر بھی کچھ اس طرح ٹوٹا ہوا ہی تھا
یوں سوچ کر دیکھئے
دلِ ناداں کو تو ہر حال میں بس ماننا ہی تھا
بہتر ۔ ۔
تمھارے اک اشارے ہی کا تھا یہ منتظر جیسے
دلِ ناداں کو تو ہر حال میں بس ماننا ہی تھا
شکر کا تلفظ درست نہیں، شکر میں ک ساکن ہوتی ہے اور تقطیع میں ’’شکْ+رْ‘‘ آتا ہے۔
خدا کے خوف سے لبریز جب رکھتے ہیں اپنا دل
تو پھر ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ہم کو جوڑنا ہی تھا۔
شکریہ ۔ ۔
امید کرتی ہوں اب سب ٹھیک ہو گا ۔ ۔ رہنمائ کا شکریہ