جس طرح جودھا اکبر کی تھی، ہیر رانجھے کی تھی، اسی طرح علم بھی متلاشی کا ہوتا ہے. یہ علم کی تلاش ہی ہے کہ تندور پر روٹی لگانے والا ٹاپ کرتا نظر آتا ہے، دودھ بیچنے والا وزیراعظم نظر آتا ہے، گلیوں میں گولیاں ٹافیاں بیچنے والا گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نظر آتا ہے۔
افغانستان کا ایک گاؤں جس کا نام غزالہ تھا، اس گاؤں میں ایک امیر شخص رہتا تھا، اس کو تعلیم کا بہت شوق تھا، وہ خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکا، لیکن اس نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلانے کے لیے استاد رکھا ہوا تھا۔ استاد گاؤں سے بیس میل دور شہر میں رہتا تھا، وہ روزانہ اس لڑکے کو پڑھانے گاؤں آتا تھا،
اسی گاؤں میں ایک بچہ اور بھی تھا جس کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن غربت اتنی تھی کہ وہ تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
ایک دن اس بچے نے استاد کو دیکھا اور انہیں کہا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے، آپ مجھے بھی تھوڑا وقت دے دیا کریں تاکہ میں بھی تعلیم حاصل کر سکوں. استاد نے جواب دیا کہ میں صرف اس بچے کو پڑھانے کا معاوضہ وصول کرتا ہوں، اگر تم کو بھی پڑھانا شروع کر دیا تو یہ ناانصافی ہو گی. بچے نے کہا کہ جب آپ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس شہر جاتے ہیں، اس وقت میں آپ کے ساتھ ساتھ پیدل چلا کروں گا، آپ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے مجھے سبق دے دیا کریں، میں اس کو یاد کر لیا کروں گا،
استاد نے بچے کی بات کو قبول کر لیا، اور یوں وہ بچہ تعلیم حاصل کرنے لگا. جب استاد نے اس بچے کا شوق دیکھا تو اسے کہا کہ میں تم کو ایک سہولت اور دیتا ہوں، وہ یہ کہ جہاں ہمارا سفر ختم ہوتا ہے، تم میرے شہر سے آنے سے پہلے اس مقام پر کھڑے ہو جایا کرو، جب میں آؤں تو تم میر ے ساتھ ساتھ چلنا، اس طرح تمھیں مزید سبق مل جائے گا.
بچے نے استاد کی بات کو قبول کر لیا، اور یوں اس بچے نے چھ سال پیدل چل کر اس استاد سے تعلیم حاصل کی. بعد میں اسی بچے نے دنیا میں پہلی مرتبہ بجٹ، اور دینی و دنیاوی تعلیم کا تصور پیش کیا. آج دنیا اس بچے کو حضرت امام غزالیؒ کے نام سے جانتی ہے۔
اگر طالب علم، علم کا طلب گار نہیں ہے، علم کا متلاشی نہیں ہے، علم کے لیے سفر نہیں کرتا، استاد کے لیے جوتیاں سیدھی نہیں کرتا، علم کے لیے تکلیف برداشت نہیں کرتا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو اور اسے علم کے نتائج ملیں۔ تعلیم چار نتائج دیتی ہے، تخلیق، تربیت، اقدار اور ٹیکنالوجی۔ ہمارا تعلیم کا نظام ایسا ہے کہ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں ہو رہا، تخلیق اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہم دنیا میں پیچھے ہیں، باہر کے ملکوں میں ہم تہذیب کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں نہیں اپناتے. مذہبی رسومات اور مذہبی اجتماعات ہیں لیکن کردار ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیم رویوں کے انقلاب پر بات کرتی ہے، رویے بدلتی ہے، عالم اور جاہل میں فرق کرتی ہے، لیکن اس سسٹم میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں برابر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے معنی کو بدل دیا ہے، ہم نے اس کا نام ڈگری رکھ دیا ہے۔
جس طرح شہد کے اردگرد مکھیاں رہتی ہیں، اسی طرح استاد کے گرد بھی لوگوں کا میلہ لگا رہتا ہے، اگر استاد کے گرد دنیا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ استاد نہیں ہے۔ جب تک انسپائریشن نہیں ہو گی، اس وقت تک بچہ پیروی نہیں کرے گا، پیروی متاثر ہونے سے ہی ہوتی ہے۔ جس شخصیت سے انسپائریشن ہوتی ہے، اگر وہ کوئی کام کرنے کو کہے تو کام ہو گا، کتاب پڑھی جائے گی اور علمی بات بھی ہو گی۔ ہماری زندگی میں افراد اور ہیرو معتبر نہیں رہے، جب ہیرو معتبر نہ رہیں تو پھر ان کی باتیں بھی معتبر نہیں رہتیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم میں غلطیاں ہیں، ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم زیادتیاں کر رہے ہیں۔ یہ قوم ایک سوالیہ نشان ہے جس نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن کردار نہیں بنایا۔ آخر کب تک ہم ایٹم بم کا نعرہ لگاتے رہیں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دفاع کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی انقلاب لانا ہے۔
کردار کو بنانے کی پہلی ذمہ داری ماں کی ہوتی ہے، پھر استاد کی، پھر عالم کی، اور پھر میڈیا کی، لیکن ان چاروں میں کوئی بھی کردار بنانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ہمیں ان چاروں میں سے کسی ایک کو بہتر کرنا ہے. بہتر یہ ہے استاد کو بہتر کیا جائے کیونکہ میڈیا ان لوگوں کے پاس ہے جن پر ہم بات نہیں کر سکتے، ہم اپنے علماء کو جدید نہیں کر سکے، ماں تعلیم یافتہ نہیں ہے.
سکھوں کی تاریخ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ونچورا نے رنجیت سنگھ کو کہا تھا کہ اگر تم نے قوم پر احسان کرنا ہے تو عورت کی تعلیم لازم کر دو، تمہاری قوم میں بھکاری پیدا نہیں ہوں گے، لیکن استاد وہ شخصیت ہے جس کا شاگرد ہر جگہ نظر آتا ہے، اس نے ہزاروں لوگوں کو پڑھایا ہوتا ہے، اگر ان ہزاروں میں سے چند کو تیار کیا جائے تو انقلاب آ سکتا ہے۔ ہمیں ان اساتذہ کی ضرورت ہے جو اپنے پیشے سے عشق کرتے ہیں، جو اپنے استاد ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں لاکھوں کی ضرورت نہیں، ہمیں ہزاروں چاہییں، اگر ہزاروں ہوں گے تویہ لاکھوں کروڑوں کو بدل دیں گے۔
ہمارے پاس کبھی پی ٹی وی کی صورت میں میڈیا کا ذریعہ ہوتا تھا، جس میں کچھ نہ کچھ کردارسازی ہوتی تھی لیکن اس وقت ہمارے پورے میڈیا میں شام ساڑھے پانچ سے ساڑھے سات تک بچوں کی تربیت کا کوئی پروگرام ہی نہیں ہوتا، اس کی وجہ کمرشلزم ہے، یہی کمرشلزم اپنی مرضی کے مطابق میڈیا کو چلاتا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کیسے کرنا ہے؟ اس کا مثبت استعمال تب ہی ہو سکتا ہے جب کوئی مقصد ہو، اگر مقصد ہو تو یہی ٹیکنالوجی فائدہ مند ہوتی ہے، اگر مقصد نہ ہو تو یہی ٹیکنالوجی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہم نے بحثییت مجموعی قوم میں نہ مقصد، نہ علم، نہ گرومنگ، نہ تہذیب اور نہ ہی لٹریچر کی تحریک پیدا کی۔ ہمارا سب سے زیادہ ویران پاک ٹی ہاؤس، داستان سرائے، الحمرا آرٹس، پنجابی کلچرل کمپلیکس اور وہ تمام کی تمام جگہیں جہاں پر بیٹھ کر کوئی اچھی بات ہوتی تھی، ویران ہوئے۔ جب یہ ویرانے ہوں تو پھر میڈیا ہی معاشرے کو چلاتا ہے۔
ہمیں آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے سب سے پہلے استاد کی تربیت کرنی پڑے گی۔ استاد بادشاہ بنانے والی شخصیت ہوتی ہے جو بادشاہ بنانے کی قابلیت نہیں رکھتا، وہ کسی قابل نہیں ہے۔ ہمیں وہ استاد چاہیے جو فزکس اور کیمسٹری کے ساتھ ساتھ زندگی بھی پڑھائے تاکہ لیڈرز پیدا ہوں۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ ”گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنی چاہیے لیکن دیکھ لینا چاہیے کہیں گونگلو کم اور مٹی زیادہ نہ ہو جائے۔“
استاد اپنے سٹائل میں بادشاہ ہوتا ہے، اس کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ یہ بڑا انسان ہے، اس لیے جو بنانے والا ہے اس کو خود بنانے کی ضرورت ہے، پہلے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جس کی اپنی خودی بیدار نہیں، وہ دوسرے کی خودی کو کیسے بیدار کر سکے گا. حضرت علامہ اقبال ؒ کے پاس ایک شخص شعر کا مطلب سمجھنے گیا، اس شعر میں قلندر کا لفظ آتا تھا، اس نے آپؒ سے کہا کہ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی، آپ ؒ نے فرمایا کہ اس شعر کو سمجھنے کے لیے آدھا قلندر بننا پڑتا ہے. جب تک تم اس کیفیت سے نہیں گزرو گے، تب تک یہ شعر سمجھ نہیں آئے گا۔ ہم باتیں کرتے ہیں کہ ہم نے آنے والی نسل کو تیار کرنا ہے لیکن خود تیار نہیں ہیں۔ ہم نے اسے تیار کرنا ہے جس نے آنے والی نسلوں کو تیار کرنا ہے. اگر ہم وہ استاد نہیں دیں گے، ہم کبھی بھی وہ انقلاب نہیں لا سکیں گے۔ ہمیں گرومر کی گرومنگ کی ضرورت ہے. پاکستان میں دیگیں بانٹنے سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا، پاکستان میں جب بھی انقلاب آئے گا، وہ شعور اور تربیت کا انقلاب ہو گا۔
سید قاسم علی شاہ 03/01/2017
جس طرح جودھا اکبر کی تھی، ہیر رانجھے کی تھی، اسی طرح علم بھی متلاشی کا ہوتا ہے. یہ علم کی تلاش ہی ہے کہ تندور پر روٹی لگانے والا ٹاپ کرتا نظر آتا ہے، دودھ بیچنے والا وزیراعظم نظر آتا ہے، گلیوں میں گولیاں ٹافیاں بیچنے والا گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نظر آتا ہے۔
افغانستان کا ایک گاؤں جس کا نام غزالہ تھا، اس گاؤں میں ایک امیر شخص رہتا تھا، اس کو تعلیم کا بہت شوق تھا، وہ خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکا، لیکن اس نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلانے کے لیے استاد رکھا ہوا تھا۔ استاد گاؤں سے بیس میل دور شہر میں رہتا تھا، وہ روزانہ اس لڑکے کو پڑھانے گاؤں آتا تھا،
اسی گاؤں میں ایک بچہ اور بھی تھا جس کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن غربت اتنی تھی کہ وہ تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
ایک دن اس بچے نے استاد کو دیکھا اور انہیں کہا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے، آپ مجھے بھی تھوڑا وقت دے دیا کریں تاکہ میں بھی تعلیم حاصل کر سکوں. استاد نے جواب دیا کہ میں صرف اس بچے کو پڑھانے کا معاوضہ وصول کرتا ہوں، اگر تم کو بھی پڑھانا شروع کر دیا تو یہ ناانصافی ہو گی. بچے نے کہا کہ جب آپ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس شہر جاتے ہیں، اس وقت میں آپ کے ساتھ ساتھ پیدل چلا کروں گا، آپ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے مجھے سبق دے دیا کریں، میں اس کو یاد کر لیا کروں گا،
استاد نے بچے کی بات کو قبول کر لیا، اور یوں وہ بچہ تعلیم حاصل کرنے لگا. جب استاد نے اس بچے کا شوق دیکھا تو اسے کہا کہ میں تم کو ایک سہولت اور دیتا ہوں، وہ یہ کہ جہاں ہمارا سفر ختم ہوتا ہے، تم میرے شہر سے آنے سے پہلے اس مقام پر کھڑے ہو جایا کرو، جب میں آؤں تو تم میر ے ساتھ ساتھ چلنا، اس طرح تمھیں مزید سبق مل جائے گا.
بچے نے استاد کی بات کو قبول کر لیا، اور یوں اس بچے نے چھ سال پیدل چل کر اس استاد سے تعلیم حاصل کی. بعد میں اسی بچے نے دنیا میں پہلی مرتبہ بجٹ، اور دینی و دنیاوی تعلیم کا تصور پیش کیا. آج دنیا اس بچے کو حضرت امام غزالیؒ کے نام سے جانتی ہے۔
اگر طالب علم، علم کا طلب گار نہیں ہے، علم کا متلاشی نہیں ہے، علم کے لیے سفر نہیں کرتا، استاد کے لیے جوتیاں سیدھی نہیں کرتا، علم کے لیے تکلیف برداشت نہیں کرتا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو اور اسے علم کے نتائج ملیں۔ تعلیم چار نتائج دیتی ہے، تخلیق، تربیت، اقدار اور ٹیکنالوجی۔ ہمارا تعلیم کا نظام ایسا ہے کہ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں ہو رہا، تخلیق اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہم دنیا میں پیچھے ہیں، باہر کے ملکوں میں ہم تہذیب کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں نہیں اپناتے. مذہبی رسومات اور مذہبی اجتماعات ہیں لیکن کردار ٹھیک نہیں ہے۔ تعلیم رویوں کے انقلاب پر بات کرتی ہے، رویے بدلتی ہے، عالم اور جاہل میں فرق کرتی ہے، لیکن اس سسٹم میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں برابر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے معنی کو بدل دیا ہے، ہم نے اس کا نام ڈگری رکھ دیا ہے۔
جس طرح شہد کے اردگرد مکھیاں رہتی ہیں، اسی طرح استاد کے گرد بھی لوگوں کا میلہ لگا رہتا ہے، اگر استاد کے گرد دنیا نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ استاد نہیں ہے۔ جب تک انسپائریشن نہیں ہو گی، اس وقت تک بچہ پیروی نہیں کرے گا، پیروی متاثر ہونے سے ہی ہوتی ہے۔ جس شخصیت سے انسپائریشن ہوتی ہے، اگر وہ کوئی کام کرنے کو کہے تو کام ہو گا، کتاب پڑھی جائے گی اور علمی بات بھی ہو گی۔ ہماری زندگی میں افراد اور ہیرو معتبر نہیں رہے، جب ہیرو معتبر نہ رہیں تو پھر ان کی باتیں بھی معتبر نہیں رہتیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم میں غلطیاں ہیں، ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم زیادتیاں کر رہے ہیں۔ یہ قوم ایک سوالیہ نشان ہے جس نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن کردار نہیں بنایا۔ آخر کب تک ہم ایٹم بم کا نعرہ لگاتے رہیں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دفاع کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی انقلاب لانا ہے۔
کردار کو بنانے کی پہلی ذمہ داری ماں کی ہوتی ہے، پھر استاد کی، پھر عالم کی، اور پھر میڈیا کی، لیکن ان چاروں میں کوئی بھی کردار بنانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ ہمیں ان چاروں میں سے کسی ایک کو بہتر کرنا ہے. بہتر یہ ہے استاد کو بہتر کیا جائے کیونکہ میڈیا ان لوگوں کے پاس ہے جن پر ہم بات نہیں کر سکتے، ہم اپنے علماء کو جدید نہیں کر سکے، ماں تعلیم یافتہ نہیں ہے.
سکھوں کی تاریخ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ونچورا نے رنجیت سنگھ کو کہا تھا کہ اگر تم نے قوم پر احسان کرنا ہے تو عورت کی تعلیم لازم کر دو، تمہاری قوم میں بھکاری پیدا نہیں ہوں گے، لیکن استاد وہ شخصیت ہے جس کا شاگرد ہر جگہ نظر آتا ہے، اس نے ہزاروں لوگوں کو پڑھایا ہوتا ہے، اگر ان ہزاروں میں سے چند کو تیار کیا جائے تو انقلاب آ سکتا ہے۔ ہمیں ان اساتذہ کی ضرورت ہے جو اپنے پیشے سے عشق کرتے ہیں، جو اپنے استاد ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں لاکھوں کی ضرورت نہیں، ہمیں ہزاروں چاہییں، اگر ہزاروں ہوں گے تویہ لاکھوں کروڑوں کو بدل دیں گے۔
ہمارے پاس کبھی پی ٹی وی کی صورت میں میڈیا کا ذریعہ ہوتا تھا، جس میں کچھ نہ کچھ کردارسازی ہوتی تھی لیکن اس وقت ہمارے پورے میڈیا میں شام ساڑھے پانچ سے ساڑھے سات تک بچوں کی تربیت کا کوئی پروگرام ہی نہیں ہوتا، اس کی وجہ کمرشلزم ہے، یہی کمرشلزم اپنی مرضی کے مطابق میڈیا کو چلاتا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کیسے کرنا ہے؟ اس کا مثبت استعمال تب ہی ہو سکتا ہے جب کوئی مقصد ہو، اگر مقصد ہو تو یہی ٹیکنالوجی فائدہ مند ہوتی ہے، اگر مقصد نہ ہو تو یہی ٹیکنالوجی نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہم نے بحثییت مجموعی قوم میں نہ مقصد، نہ علم، نہ گرومنگ، نہ تہذیب اور نہ ہی لٹریچر کی تحریک پیدا کی۔ ہمارا سب سے زیادہ ویران پاک ٹی ہاؤس، داستان سرائے، الحمرا آرٹس، پنجابی کلچرل کمپلیکس اور وہ تمام کی تمام جگہیں جہاں پر بیٹھ کر کوئی اچھی بات ہوتی تھی، ویران ہوئے۔ جب یہ ویرانے ہوں تو پھر میڈیا ہی معاشرے کو چلاتا ہے۔
ہمیں آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے سب سے پہلے استاد کی تربیت کرنی پڑے گی۔ استاد بادشاہ بنانے والی شخصیت ہوتی ہے جو بادشاہ بنانے کی قابلیت نہیں رکھتا، وہ کسی قابل نہیں ہے۔ ہمیں وہ استاد چاہیے جو فزکس اور کیمسٹری کے ساتھ ساتھ زندگی بھی پڑھائے تاکہ لیڈرز پیدا ہوں۔
اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ ”گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنی چاہیے لیکن دیکھ لینا چاہیے کہیں گونگلو کم اور مٹی زیادہ نہ ہو جائے۔“
استاد اپنے سٹائل میں بادشاہ ہوتا ہے، اس کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ یہ بڑا انسان ہے، اس لیے جو بنانے والا ہے اس کو خود بنانے کی ضرورت ہے، پہلے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جس کی اپنی خودی بیدار نہیں، وہ دوسرے کی خودی کو کیسے بیدار کر سکے گا. حضرت علامہ اقبال ؒ کے پاس ایک شخص شعر کا مطلب سمجھنے گیا، اس شعر میں قلندر کا لفظ آتا تھا، اس نے آپؒ سے کہا کہ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی، آپ ؒ نے فرمایا کہ اس شعر کو سمجھنے کے لیے آدھا قلندر بننا پڑتا ہے. جب تک تم اس کیفیت سے نہیں گزرو گے، تب تک یہ شعر سمجھ نہیں آئے گا۔ ہم باتیں کرتے ہیں کہ ہم نے آنے والی نسل کو تیار کرنا ہے لیکن خود تیار نہیں ہیں۔ ہم نے اسے تیار کرنا ہے جس نے آنے والی نسلوں کو تیار کرنا ہے. اگر ہم وہ استاد نہیں دیں گے، ہم کبھی بھی وہ انقلاب نہیں لا سکیں گے۔ ہمیں گرومر کی گرومنگ کی ضرورت ہے. پاکستان میں دیگیں بانٹنے سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا، پاکستان میں جب بھی انقلاب آئے گا، وہ شعور اور تربیت کا انقلاب ہو گا۔
نائس شئیرنگ۔ البتہ افغانستان کی بات میں تسامح معلوم ہوتا ہے کیونکہ غزالہ خراسان کے شہر طاہران کا ایک گاؤں تھا۔ دیکھیے "الغزالی" شبلی نعمانی۔ دوسرے یہ واقعہ آپ نے کہاں سے لیا ہے؟ الغزالی میں اس بظاہر اہم واقعہ کی طرف کی طرف اشارہ تک نہیں۔