عبد الرحمٰن
محفلین
والدہ سے آخری بار بلند آواز سے بات کئے کئی برس بیت گئے ۔ تب ابا جی نے ایک جملہ کہا تھا جس کے بعد میری آواز گلے میں ھی کہیں دب گئی ۔ کہنے لگے ۔
بیٹا اگر اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ نہ سیکھ پائے کہ بزرگوں سے بات کیسے کرنی ھے تو کل سے کالج نہ جانا ۔جو تعلیم اچھا انسان نہ بنا پائے اس کا مقصد ھی کیا ھے ۔ کمائی تو سنیارے کی دکان کے باہر گندی نالی سے کیچڑ چھاننے والا ان پڑھ بھی کئی پڑھے لکھوں سے زیادہ کر لیتا ھے۔
اسی طرح پہلی اور آخری بار روزگار کا خوف تب ختم ھو گیا تھا جب ھم انتہائی سخت حالات کا شکار تھے۔ چند ھزار کی ایک ملازمت کے دوران کسی نے ایسی بات کر دی جو برداشت نہ کر پایا۔ دفتر سے ھی ابا جی کو مشورہ کے لئے فون کیا تو کہنے لگے ،
"ملازمت چھوڑنے کے لئے مجھے فون تب کرنا جب خدا پر اعتبار نہ ھو۔ اس مالک نے رزق کا وعدہ کیا ھے نا تو پھر اس کے وعدے پر یقین بھی رکھو یا پھر اسے مالک تسلیم کرنے سے انکار کر رھے ھو ؟ یہاں ملازمت کے لئے دل نہیں مانتا تو ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرنا۔"
میں نے فون بند کیا اور اسی وقت استعفی لکھ دیا۔ چار دن میں بے روزگار رھا۔ ان چار دنوں میں جتنا فکر مند رھا ابا جی اتنے ھی مطمئن نظر آئے اور پانچویں دن مجھے ایک ایسے ادارے سے فون کال آ گئی جہاں میں نے ایک سال قبل ایک دوست کے کہنے پر مذاق مذاق میں سی وی بھیجی تھی اور مجھے اب یاد تک نہ تھا۔ تنخواہ پیکج پہلی ملازمت سے تین گنا تھا۔
اس کے بعد سے یہی ھوتا آیا ھے۔ جب بھی خدا کے بھروسے کسی ملازمت سے استعفی دیا ، اللہ نے پہلے سے بڑھ کر نواز دیا۔ رب کی مہربانیوں کی طویل داستانیں ھیں جن کا عینی شائد ھوں۔ ایک بار صورت حال یہ تھی کہ جب ابا جی اپنا گھر تعمیر کر رھے تھے تو ٹائلوں کے لئے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کم پڑ گئے۔ ھم سب قدرے پریشان تھے تو ایک دن ابا جی کہنے لگے ، "بیٹا میں ساری عمر حرام سے بچا ھوں اور تم سب کو بچایا ھے ، مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی فرد نے کسی کا حق نہیں کھایا تو یہ کیسے ممکن ھے کہ مجھے ضرورت ھو اور رب عطا نہ کرے۔ تب عجیب سا لگا۔ نہ کوئی وسیلہ ، نہ کہیں سے امید۔ ابا جی کی ملازمت کے آخری ماہ تھے۔ اچانک خبر ملی ، ابا جی کو پنجاب کا بیسٹ آفسر قرار دیا گیا ھے۔ وزیراعلی کی جانب سے ایوارڈ کے ساتھ ساتھ کیش انعام بھی تھا۔ اس انعام کے باوجود ابھی بھی پچاس ھزار کم تھے۔ ابا جی کہنے لگے ،
"میں مقابلے کی دوڑ میں شامل نہیں ھوا ، صرف اپنا فرض ادا کرتا رھا ھوں۔ خدا نے اس انعام کا حق دار قرار دلا کر یہ رقم دلوا دی ھے تو باقی رقم کا انتظام بھی وھی کر دے گا ، میں اس کے علاوہ کسی کے آگے ھاتھ نہیں پھیلائوں گا"۔
اسی ھفتے اگلی خبر یہ ملی کہ محکمہ کی جانب سے بھی بہترین آفیسر قرار دیتے ھوئے کیش انعام دیا جا رھا ھے۔ ھمیں جتنی رقم کی ضرورت تھی اس سے زیادہ رقم عزت کے ساتھ آ گئی تھی۔ اس دن سے ایمان پختہ ھو گیا۔ ھم کسی کا حق نہ ماریں تو خدا ھمارا خیال رکھتا ھے۔
ابا جی کی زندگی ایسے ھی معجزوں سے بھری ھوئی ھے۔ ان بظاھر عام سی باتوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ھے سو اب ڈر نہیں لگتا۔ نہ کسی سے ھارنے کا ، اور نہ ھی رزق کی کمی کا۔
بیٹا اگر اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ نہ سیکھ پائے کہ بزرگوں سے بات کیسے کرنی ھے تو کل سے کالج نہ جانا ۔جو تعلیم اچھا انسان نہ بنا پائے اس کا مقصد ھی کیا ھے ۔ کمائی تو سنیارے کی دکان کے باہر گندی نالی سے کیچڑ چھاننے والا ان پڑھ بھی کئی پڑھے لکھوں سے زیادہ کر لیتا ھے۔
اسی طرح پہلی اور آخری بار روزگار کا خوف تب ختم ھو گیا تھا جب ھم انتہائی سخت حالات کا شکار تھے۔ چند ھزار کی ایک ملازمت کے دوران کسی نے ایسی بات کر دی جو برداشت نہ کر پایا۔ دفتر سے ھی ابا جی کو مشورہ کے لئے فون کیا تو کہنے لگے ،
"ملازمت چھوڑنے کے لئے مجھے فون تب کرنا جب خدا پر اعتبار نہ ھو۔ اس مالک نے رزق کا وعدہ کیا ھے نا تو پھر اس کے وعدے پر یقین بھی رکھو یا پھر اسے مالک تسلیم کرنے سے انکار کر رھے ھو ؟ یہاں ملازمت کے لئے دل نہیں مانتا تو ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرنا۔"
میں نے فون بند کیا اور اسی وقت استعفی لکھ دیا۔ چار دن میں بے روزگار رھا۔ ان چار دنوں میں جتنا فکر مند رھا ابا جی اتنے ھی مطمئن نظر آئے اور پانچویں دن مجھے ایک ایسے ادارے سے فون کال آ گئی جہاں میں نے ایک سال قبل ایک دوست کے کہنے پر مذاق مذاق میں سی وی بھیجی تھی اور مجھے اب یاد تک نہ تھا۔ تنخواہ پیکج پہلی ملازمت سے تین گنا تھا۔
اس کے بعد سے یہی ھوتا آیا ھے۔ جب بھی خدا کے بھروسے کسی ملازمت سے استعفی دیا ، اللہ نے پہلے سے بڑھ کر نواز دیا۔ رب کی مہربانیوں کی طویل داستانیں ھیں جن کا عینی شائد ھوں۔ ایک بار صورت حال یہ تھی کہ جب ابا جی اپنا گھر تعمیر کر رھے تھے تو ٹائلوں کے لئے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کم پڑ گئے۔ ھم سب قدرے پریشان تھے تو ایک دن ابا جی کہنے لگے ، "بیٹا میں ساری عمر حرام سے بچا ھوں اور تم سب کو بچایا ھے ، مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی فرد نے کسی کا حق نہیں کھایا تو یہ کیسے ممکن ھے کہ مجھے ضرورت ھو اور رب عطا نہ کرے۔ تب عجیب سا لگا۔ نہ کوئی وسیلہ ، نہ کہیں سے امید۔ ابا جی کی ملازمت کے آخری ماہ تھے۔ اچانک خبر ملی ، ابا جی کو پنجاب کا بیسٹ آفسر قرار دیا گیا ھے۔ وزیراعلی کی جانب سے ایوارڈ کے ساتھ ساتھ کیش انعام بھی تھا۔ اس انعام کے باوجود ابھی بھی پچاس ھزار کم تھے۔ ابا جی کہنے لگے ،
"میں مقابلے کی دوڑ میں شامل نہیں ھوا ، صرف اپنا فرض ادا کرتا رھا ھوں۔ خدا نے اس انعام کا حق دار قرار دلا کر یہ رقم دلوا دی ھے تو باقی رقم کا انتظام بھی وھی کر دے گا ، میں اس کے علاوہ کسی کے آگے ھاتھ نہیں پھیلائوں گا"۔
اسی ھفتے اگلی خبر یہ ملی کہ محکمہ کی جانب سے بھی بہترین آفیسر قرار دیتے ھوئے کیش انعام دیا جا رھا ھے۔ ھمیں جتنی رقم کی ضرورت تھی اس سے زیادہ رقم عزت کے ساتھ آ گئی تھی۔ اس دن سے ایمان پختہ ھو گیا۔ ھم کسی کا حق نہ ماریں تو خدا ھمارا خیال رکھتا ھے۔
ابا جی کی زندگی ایسے ھی معجزوں سے بھری ھوئی ھے۔ ان بظاھر عام سی باتوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ھے سو اب ڈر نہیں لگتا۔ نہ کسی سے ھارنے کا ، اور نہ ھی رزق کی کمی کا۔