محمد اجمل خان
محفلین
تعیمی نظام کو بدلئے
دنیا میں انسان کو بدلنا ہی سب سے مشکل کام ہے اور انسان کو بدلے بغیر نظام کو بدلنا ممکن نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے انسان کو بدلنے کیلئے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا اور آخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و الیہ و سلم کو رحمت للہ العالمین بنا کر بھیجا۔
آپ ﷺ نے انسان کو بدلنے کیلئے اللہ تعالٰی کی رہنمائی میں دن رات محنت کی اور اتنی محنت کیا اتنا غم کھایا کہ اللہ تعالی فرمانے لگے:
نبی کریم ﷺ کی ان محنت کی وجہ کر جب انسان کا دل بدلہ، انسان بدلے تب نظام بدلا اور خلافت نبوی قائم ہوئی۔
آج جو لوگ انسان کو بدلے بغیر نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں وہ یا تو احمقوں کی دنیا میں رہنے والے ہیں یا اپنی لیڈری چمکا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ جس کی مثال نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگانے والے ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص قوم کا حقیقی خیرخواہ ہو تو اسے سب سے پہلے انسان کو بدلنے کا کام اسی طرح کرنا ہوگا جس طرح نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔ اسی طرح محنت کرنی ہوگی جس طرح آپ ﷺ کرکے دکھایا، اسی طرح اپنی جان کو کھپانا ہوگا جس طرح آپ ﷺ نے اپنی جان کھپایا تھا۔
اور اسی کام سے شروع کرنا ہوگا جس کام سے آپ ﷺ نے انسان کو بدلنے کا آغاز کیا تھا۔ آپ ﷺ نے انسان کو بدلنے کا آغاز ’’ اقرا ‘‘ کیا تھا۔ ہمیں بھی اسی ’’اقرا‘‘ سے کرنا ہوگا۔
جب یہ علم انسان کے دل میں بیٹھ جاتا ہے تب ہی انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے، اپنے رب سے ڈرتا ہے، آخرت میں حساب کتاب سے ڈرتا ہے۔ کرپشن اور دیگر برائیوں کو چھوڑ کر اپنے اندر مثبت تبدیلی لاتا ہے۔ پھرمعاشرہ بھی تبدیل ہوتا ہے اور معاشرے سے کرپشن، رشوت خوری اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اسی علم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جس کے پاس صحیح علم نہ ہو، جس کا عقیدہ صحیح نہ ہو، جس کے دل میں اللہ کا ڈر و خوف نہ ہو، آخرت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے کا خوف نہ ہو، وہ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھے گا اور دنیا میں مال بنانے کیلئے کرپشن اور ظلم و زیادتی کا سہارا لے گا۔آج ہمارے معاشرے میں ایسے ہی لوگوں کی کثرت ہے جن کے پاس نہ ہی صحیح علم ہے اور نہ ہی جن کا عقیدہ صحیح ہے۔ ایسے لوگوں نے اسی دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ لہذا دنیا میں اپنی عزت، شہرت، دولت اور عیش و عشرت کیلئے ہر طرح کی کرپشن اور ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کے انجام کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس لئے اب اکثریت کے دلوں میں اللہ کے سامنے آخرت میں حاضر ہونے کا عقیدہ ہی ختم ہوگیا ہے یا کمزور پڑ گیا ہے، تب ہی معاشرے میں اتنی کرپشن اور اتنی ظلم و زیادتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔
ایک ایسا معاشرہ جس میں اکثریت دنیا پرست، حریص اور کرپٹ لوگوں کی ہو اس کے ںظام کو صرف نعرہ لگا کر یا صرف لیڈر بدل کر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاشرے اور اس نظام کو بدلنے کیلئے علم کی بنیاد پر ایک ایک فرد کی دل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب علم اور دلیل کی بنیاد پر انسان کا دل بدلے گا، دل میں معرفتِ الٰہی، تقویٰ اور آخرت میں اللہ کے حضور احتساب کا یقین پیدا ہو گا تب انسان بدلے گا، معاشرہ بدلے گا، نظام بدلے گا، کرپشن ختم ہو گا، ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوگا، انسان انسان کا خیر خواہ ہوگا، حکمران رعایا کی خیر خواہی کریں گے، فلاحی ریاست وجود میں آئے گا، عدل و انصاف قائم ہوگا اور انسان سکھ کا سانس لے گا۔
اور اس کیلئے ضرورت ہے، قرآن و سنت کے علم کی بنیاد پر ایک جدید تعلیمی نظام کی جو انسان کو سائنس اور ٹکنالوجی کے علم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں معرفتِ الٰہی پیدا کرے، اسے اللہ کا بنا دے، اللہ سے ڈرنے والا بنا دے، قیامت کے دن اللہ سامنے کھڑے ہونے ڈرنے والا بنا دے اور دنیا میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزانے والا بنا دے۔
افسوس کہ پاکستان بنے 73 سال ہوگئے لیکن ہم ابتک وہی لارڈ میکالے کا کالا تعلیمی نظام ہی رائج ہے۔ جس پر تنقید کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسے دین و مروت کے خلاف ایک سازش قرار دیا جیسا کہ آپ ضرب کلیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف: آج ہم اسی سازش کو بھگت رہے ہیں۔ لیڈر آتے ہیں کرپشن کرتے اور کرواتے ہیں اور ملک و قوم کی دولت اہل کلیسا کی نذر کرتے ہیں اور پھر اہل کلیسا کی گود میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
اسے روکنا ضروری ہے، اسے روکئے،
قوم کے خیر خواہ،
نظام کو بدلنے کے خواہاں!
اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو تعیمی نظام کو بدلئے۔
ورنہ کرپٹ لوگ تیار ہوتے رہیں گے اور کرپشن کرتے رہیں گے۔
تحریر: محمد اجمل خان۔
۔
دنیا میں انسان کو بدلنا ہی سب سے مشکل کام ہے اور انسان کو بدلے بغیر نظام کو بدلنا ممکن نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے انسان کو بدلنے کیلئے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کیا اور آخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و الیہ و سلم کو رحمت للہ العالمین بنا کر بھیجا۔
آپ ﷺ نے انسان کو بدلنے کیلئے اللہ تعالٰی کی رہنمائی میں دن رات محنت کی اور اتنی محنت کیا اتنا غم کھایا کہ اللہ تعالی فرمانے لگے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَ۔ٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (6) سورة الكهف
’’شاید آپ (ﷺ) ان کے پیچھے اس رنج و افسوس میں اپنی جان دے دیں گے کہ وہ اس کلام پر ایمان نہیں لاتے (خود کو نہیں بدلتے)‘‘۔ (6) سورة الكهف
ایک اور مقام پر فرمایا:’’شاید آپ (ﷺ) ان کے پیچھے اس رنج و افسوس میں اپنی جان دے دیں گے کہ وہ اس کلام پر ایمان نہیں لاتے (خود کو نہیں بدلتے)‘‘۔ (6) سورة الكهف
آلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (3) سورة الشعراء
’’شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (3) سورة الشعراء
پھر فرمایا:’’شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔ (3) سورة الشعراء
۔ ۔ ۔ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۔ ۔ ۔ ( سورة فاطر
’’پس ان (بدبختوں) کی غم میں آپ کی جان نہ گھلے‘‘۔ ۔ ۔ ( سورة فاطر
ان آیاتِ کریمہ میں انسان کو بدلنے کیلئے نبی کریم ﷺ کی کاوش اور محنت و مشقت کی جھلکیاں ملتی ہیں۔’’پس ان (بدبختوں) کی غم میں آپ کی جان نہ گھلے‘‘۔ ۔ ۔ ( سورة فاطر
نبی کریم ﷺ کی ان محنت کی وجہ کر جب انسان کا دل بدلہ، انسان بدلے تب نظام بدلا اور خلافت نبوی قائم ہوئی۔
آج جو لوگ انسان کو بدلے بغیر نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں وہ یا تو احمقوں کی دنیا میں رہنے والے ہیں یا اپنی لیڈری چمکا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ جس کی مثال نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگانے والے ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص قوم کا حقیقی خیرخواہ ہو تو اسے سب سے پہلے انسان کو بدلنے کا کام اسی طرح کرنا ہوگا جس طرح نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔ اسی طرح محنت کرنی ہوگی جس طرح آپ ﷺ کرکے دکھایا، اسی طرح اپنی جان کو کھپانا ہوگا جس طرح آپ ﷺ نے اپنی جان کھپایا تھا۔
اور اسی کام سے شروع کرنا ہوگا جس کام سے آپ ﷺ نے انسان کو بدلنے کا آغاز کیا تھا۔ آپ ﷺ نے انسان کو بدلنے کا آغاز ’’ اقرا ‘‘ کیا تھا۔ ہمیں بھی اسی ’’اقرا‘‘ سے کرنا ہوگا۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ (6) أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ (7) إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ ( سورة العلق
پڑھئے! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (1) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (2) پڑھئے، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے (3) جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا (4) انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا (5) مگر، انسان سرکشی کرتا ہے (6) اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (7) بیشک (ہر انسان کو) آپ کے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے ( سورة العلق
انسان کو بدلنے کا آغاز علم (اقرا) سے ہوا۔ انسان کو معرفت الہی سے روشناس علم کے ذریعے کرایا گیا۔ علم اور دلیل کی بنیاد پر انسان کو توحید و آخرت کا عقیدہ دیا گیا۔ انسان کو یہ علم دیا گیا کہ اسے پیدا کرنے والا کون ہے اور اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اور اسے بتایا گیا کہ اسے اس کے رب کے طرف لوٹنا ہے جہاں اس احتساب ہوگا، اسکے ایک ایک عمل کا ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا تاکہ وہ اپنی اوقات سمجھے اور اپنی اوقات میں رہے۔پڑھئے! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (1) جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا (2) پڑھئے، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے (3) جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا (4) انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا (5) مگر، انسان سرکشی کرتا ہے (6) اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (7) بیشک (ہر انسان کو) آپ کے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے ( سورة العلق
جب یہ علم انسان کے دل میں بیٹھ جاتا ہے تب ہی انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے، اپنے رب سے ڈرتا ہے، آخرت میں حساب کتاب سے ڈرتا ہے۔ کرپشن اور دیگر برائیوں کو چھوڑ کر اپنے اندر مثبت تبدیلی لاتا ہے۔ پھرمعاشرہ بھی تبدیل ہوتا ہے اور معاشرے سے کرپشن، رشوت خوری اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اسی علم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّ۔هَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ( سورة فاطر ۲۸ )
’’ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘۔ ( سورة فاطر ۲۸ )
’’ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘۔ ( سورة فاطر ۲۸ )
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٣﴾ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ﴿٤﴾ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ﴿٥﴾ لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ﴿٦﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ ﴿٧﴾ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴿٨﴾ سورة التكاثر
’’ (لوگو) تمہیں غافل رکھا ہے مال کی زیادہ طلبی نے (1) یہاں تک کہ تم (مال کی فکر میں) قبروں میں جا پہنچتے ہو (2) دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا (3) پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا (4) کاش! تم علم الیقین کے ساتھ جانتے (تو غفلت نہ کرتے) (5) تم ضرور جنہم کو دیکھو گے (6) پھر تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے (7) پھر ضرور اس دن تم سے نعمتوں کا حساب لیا جائے گا (‘‘۔ سورة التكاثر
آج قرآن کی ان باتوں کا کتنے لوگوں کو علم ہے اور جنہیں علم ہے تو کیا انہیں علم یقین بھی ہے؟ بالکل نہیں۔’’ (لوگو) تمہیں غافل رکھا ہے مال کی زیادہ طلبی نے (1) یہاں تک کہ تم (مال کی فکر میں) قبروں میں جا پہنچتے ہو (2) دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا (3) پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا (4) کاش! تم علم الیقین کے ساتھ جانتے (تو غفلت نہ کرتے) (5) تم ضرور جنہم کو دیکھو گے (6) پھر تم ضرور اسے یقین کی آنکھ سے دیکھو گے (7) پھر ضرور اس دن تم سے نعمتوں کا حساب لیا جائے گا (‘‘۔ سورة التكاثر
اس لئے اب اکثریت کے دلوں میں اللہ کے سامنے آخرت میں حاضر ہونے کا عقیدہ ہی ختم ہوگیا ہے یا کمزور پڑ گیا ہے، تب ہی معاشرے میں اتنی کرپشن اور اتنی ظلم و زیادتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔
ایک ایسا معاشرہ جس میں اکثریت دنیا پرست، حریص اور کرپٹ لوگوں کی ہو اس کے ںظام کو صرف نعرہ لگا کر یا صرف لیڈر بدل کر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاشرے اور اس نظام کو بدلنے کیلئے علم کی بنیاد پر ایک ایک فرد کی دل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب علم اور دلیل کی بنیاد پر انسان کا دل بدلے گا، دل میں معرفتِ الٰہی، تقویٰ اور آخرت میں اللہ کے حضور احتساب کا یقین پیدا ہو گا تب انسان بدلے گا، معاشرہ بدلے گا، نظام بدلے گا، کرپشن ختم ہو گا، ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوگا، انسان انسان کا خیر خواہ ہوگا، حکمران رعایا کی خیر خواہی کریں گے، فلاحی ریاست وجود میں آئے گا، عدل و انصاف قائم ہوگا اور انسان سکھ کا سانس لے گا۔
اور اس کیلئے ضرورت ہے، قرآن و سنت کے علم کی بنیاد پر ایک جدید تعلیمی نظام کی جو انسان کو سائنس اور ٹکنالوجی کے علم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں معرفتِ الٰہی پیدا کرے، اسے اللہ کا بنا دے، اللہ سے ڈرنے والا بنا دے، قیامت کے دن اللہ سامنے کھڑے ہونے ڈرنے والا بنا دے اور دنیا میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی گزانے والا بنا دے۔
افسوس کہ پاکستان بنے 73 سال ہوگئے لیکن ہم ابتک وہی لارڈ میکالے کا کالا تعلیمی نظام ہی رائج ہے۔ جس پر تنقید کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسے دین و مروت کے خلاف ایک سازش قرار دیا جیسا کہ آپ ضرب کلیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
جب کہ کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
جب کہ کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف: آج ہم اسی سازش کو بھگت رہے ہیں۔ لیڈر آتے ہیں کرپشن کرتے اور کرواتے ہیں اور ملک و قوم کی دولت اہل کلیسا کی نذر کرتے ہیں اور پھر اہل کلیسا کی گود میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
اسے روکنا ضروری ہے، اسے روکئے،
قوم کے خیر خواہ،
نظام کو بدلنے کے خواہاں!
اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو تعیمی نظام کو بدلئے۔
ورنہ کرپٹ لوگ تیار ہوتے رہیں گے اور کرپشن کرتے رہیں گے۔
تحریر: محمد اجمل خان۔
۔
مدیر کی آخری تدوین: