کاشفی
محفلین
غزل
(حفیظ ہوشیار پوری)
تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا
وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا؟
محبت میں تمیزِ دشمن و دوست!
یہاں ناآشنا کیا، آشنا کیا
زمانے بھر سے میںکھو گیا ہوں
تمہیں پا کر مجھے آخر ملا کیا
پھریں مجھ سے زمانے کی نگاہیں
پھری مجھ سے نگاہِ آشنا کیا
وفا کے مدّعی! افسوس افسوس!
تجھے بھی بھول جانا آگیا کیا
نہ مانی ہے نہ مانیں گے تری بات
حفیظ ان سے تقاضائے وفا کیا