محمود احمد غزنوی
محفلین
تفسیرِ وجود
::::::::::::::
بے شک ہر انسان اپنے اپنے طور پر وجود کی کوئی نہ کوئی تفسیر اختیار کرتا ہے، جو اس انسان کے مقام اور ذہنی سطح کے مطابق ہوتی ہے۔ وجود کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو عوام الناس میں عام طور پر پایا جاتا ہے اور جوایک جگہ پر آکر رک سا گیا ہے جمود کا شکار ہوگیا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس گاہے گاہے وجود کا مفہوم زمانوں کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر بھی ہوتا ہے اگر بندہ صاحبانِ عقل کے خواص میں سے ہو یا مشروع کردہ راستے کے سالکین میں سے ہو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وجود کی معرفت کی ابتداء اس کے ادنیٰ مراتب سے ہوتی ہے اور ان ادنیٰ مراتبِ وجود میں، یہ عالمِ طبیعی (Physical World ) اور حِس ( Common Sense) کی دنیا شامل ہے. وجود کی یہ سطح، افعالِ الٰہیہ کے مظاہر کی سطح( Plane) ہے جس کو وحی کی زبان میں 'اسفل السافلین' کہا گیا ہے کیونکہ یہ اصطلاح دلالت کرتی ہے کہ ادراکِ عام ( General Public Perception) کے لئے اس سے زیادہ قریب تر اور کوئی مرتبہِ وجود نہیں ہے۔
اور ہم اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف قسم کے مکاتبِ فکر میں ۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ دینی ہوں یا غیر دینی ۔۔۔۔۔۔ وجود کی تعبیرات و تشریحات میں جو اختلاف رونما ہوا ہے، ضروری نہیں کہ وہ اختلاف ہمیشہ مراتب کے اختلاف کی وجہ سے وقوع پزیر ہوا ہو۔ یہ اختلاف تو مرتبہءِ دنیا یعنی عوام الناس کے مرتبے سے تعلق رکھتا ہے اور عام طور پر لوگوں کی مختلف استعدادات ( Diverse Capabilities) کی وجہ سے کسی ایک اعتبار( Consideration) کو دوسرے اعتبار پر ترجیح دینے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اور ادراک کے اس میدان میں وجودیت کے نقطہ نظر سے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون مومن ہے اور کون کافر۔ فرق صرف عقلی اور شرعی احکام کا اعتبار کرنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ اور یہ بات اس بات سے بلند تر ہے کہ زیادہ تر عقول ادراک اس کا کرسکیں۔
چنانچہ وجود کی جہت سے ملحد کے اس قول کہ " اللہ موجود نہیں ہے"، اور مومن کے اس قول کہ " لا الہٰ الا اللہ"، میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں اقوال بیک وقت دو متقابل اور برعکس اقوال سے وجود کی ذات ہی کا بیان کر رہی ہیں۔ چنانچہ ملحد اس قول سے اپنے لئے وجود کا اثبات کر رہا ہے۔ اور یہ بات اس سے نادانستگی میں اللہ کے اس قول کا اعلان کروارہی ہے کہ {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا} [طه: 14] کہ بے شک میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اور مومن اتباع کے طریق سے وجود اور الوہیت کواللہ سے منسوب کر رہا ہے جو اس کا اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور ان دونوں اقوال میں حکمِ شرعی کے اعتبار کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہے، یہ حکمِ شرعی ہی ہے جو ملحد کو کافر قرار دیتا ہے جو اگر اسی اعتقاد پر مرجائے تو عذابِ جہنم میں داخل ہوگا، اور یہی حکمِ شرعی مومن کو ابدی سعادت کا حق دار قرار دیتا ہے خواہ وہ شخص لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت کا علم نہ بھی حاصل کر پایا ہو۔ ہم یہ بات کر رہے ہیں کیونکہ اکثر مومنین لغوی اعتبار سے کافر ہی ہیں۔ اور اگر ہم عوام المسلمین (جن میں ان کےعلماء و فقہاء بھی شامل ہیں) کے تصورات کا جائزہ لیں جو وہ وجود کے حوالے سے رکھتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ وہ متعدد وجودوں کا تصور رکھتے ہیں اور بلا شک و شبہ، لغت کے اعتبار سے یہ شرک کے معنی میں سے ہے ( اگرچہ شرع کے اعتبار سے شرکِ اصغر کے درجے میں ہے)۔
اور اگر ہم اس دنیا پر اور اس میں رونما ہونے والے واقعات و افعال پر نظر ڈالیں جن سے ہر ہر زمانہ بھرا پڑا ہے اور ان واقعاتِ عالم کا مشاہدہ کرنے والوں کے ان کے بارے میں تاثرات ، خیالات اور آراء کو بھی مدِ نظر رکھیں (جیسا کہ عام طور پر سیاسی واقعات کے حوالے سے لوگوں کی مختلف آراء ہوا کرتی ہیں) تو ان تمام آراء و نظریات کو سن کر یہی محسوس ہوگا کہ :
1- کچھ لوگ وہ ہیں جو دنیا کے تمام معاملات کا انتساب صرف مخلوقات سے کرتے ہیں اور افعال کے اس دوسرے مرتبے سے نہیں کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے {وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} [الصافات: 96] ( اور اللہ تمہارا اور تمہارے افعال کا بھی خالق ہے)
2- کچھ وہ ہیں جو تمام معاملات اور افعال کو سوائے حق تعالیٰ کے، اور کسی سے منسوب نہیں کرتے( اور یہ لوگ عارفین ہیں)۔
3- اور دو گروہ ایسے ہیں جو تمام افعال کا انتساب کرتے وقت حق تعالیٰ کا بھی اعتبار کرتے ہیں اور خلق کا بھی۔ اان میں سے ایک فریق مومنین پر مشتمل ہے اور دوسرا فریق محققین کا ہے (اور محققین کا ان تمام لوگوں سے زیادہ بلند درجہ ہے)۔
صرف مخلوقات کو معتبر رکھنے والے، صاحبانِ کفرِ اکبر ہیں جن میں سرِ فہرست ملحدین و معطّلین ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سطحِ افعال سے ماوراء کوئی بھی پیشِ نظر نہیں ہے۔ {يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ} [الروم:7] جو حیاتِ دنیوی کے صرف ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور دوسری جہت (آخرت) سے یکسر غافل ہیں۔
جہاں تک ایمان رکھنے والوں کی بات ہے خواہ وہ حق پر ایمان رکھتے ہوں یا مظاہر پرست وثنیین (ُPagans ) کی طرح شرکیہ ایمان رکھتے ہوں، یہ تمام لوگ وجود کی تفسیر صرف صفات (صفاتِ ربوبیت) کی سطح سے کرتے ہیں یعنی ایسی صفاتِ ربوبیت جو مشاہدے میں آنے والے افعال کی ذمہ دار ہیں۔ چنانچہ اسی صفات کی سطح ( Plane) سے تعلق کے حوالے سے مشرکین جنگ کے خدا، خوشحالی کے خدا، سمندر کے خدا اور اسی قسم کے دوسرے خداؤں کا اعتقاد رکھتے ہیں۔۔۔ اور صفاتِ ربوبیت کی درست معرفت کے لئے آسمانی کتب نازل کی گئیں کہ جن سے حقیقت کی مناسب تفہیم اور عبادت میں حق کے ساتھ موافقت کے لئے مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اگر ہم مسلمانوں( کہ جو دینِ برحق پر ہیں) کے علمِ صفات کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی اکثریت یا تو صفات سے لاعلم ہےاگرچہ وہ ان پر ضعیف درجے میں ایمان رکھتے ہیں، یا پھر وہ صفات کے میدان میں ایمان کی بجائے اپنی فکر کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور فلسفیوں اور مفکرین کی طرح عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، اور یہ بات انہیں اصلی اور سچے راستے سےہٹا دیتی ہے۔ چنانچہ عقائد کے میدان میں زیادہ تر متکلمین نے جو کلام کیا ہے وہ اسی قبیل سے ہے۔
اور جہاں تک ذات کا تعلق ہے، تو وہ صفات اور افعال دونوں کو محیط ہے۔ اور علم و ادراک کی دسترس میں نہیں آتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہرگز نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے ماوراء ہو کر ذات کو نہیں جانا جاسکتا اور اس کی تحقیق ( Realization) نہیں کی جاسکتی۔ نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ صفات اور افعال وہ معانی ہیں جو ذات کے اندر ہیں۔ غیر نہیں۔ چنانچہ جوں جوں کسی بندے کا صفات اور افعال کا علم بڑھتا ہے، اس کا ذات کے بارے میں علم بھی بڑھتا جاتا ہے۔ اور جو چیز علم کو اس کے ساتھ تعلق پذیر ہونے سے روکتی ہے وہ صرف اس کا مرتبہءِ صرافت ہے (جسے مرتبہِ ذاتِ ساذج بھی کہتے ہیں)۔
اور چونکہ صفات و افعال مختلف المعانی اسماء کی طرف لوٹتے ہیں جن میں سے کئی اسماء اکثر باہم متقابل یعنی ایک دوسرے کے مخالف اور برعکس بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں، تو اس صورتِ حال میں اہلِ شرک کو یہ گمان ہوا کہ شائد ہر اسم کی اپنی اپنی مخصوص ذات ہے، چنانچہ ایسے لوگ متعدد خداؤں کے قائل ہوئے۔ اور جو اہلِ توحید ہیں، تو انہوں نے تمام اسماء خواہ وہ باہم موافق یا مخالف ہوں، سب کو ایک ہی ذات سے نسبت دی۔ لیکن وہ بھی ایک غلطی کا شکار ہوئے اور وہ غلطی ہے ہر اسم کے لئے ذات کی مصابحت ان معنوں میں گمان کرنی جو صرف ذات ہی کے لئے مخصوص ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں کے نزدیک تمام اسماء ایک ہی ذات قرار پاگئے ، یا کچھ اس کے نزدیک ترین مفہوم کے حامل۔ اور اس بات نے انہیں قرآن کے معانی کے درست ادراک سے محجوب کردیا۔ اور اپنی فہم کے ا نحراف کے سبب انہیں توحید کا مفہوم بھی درست معنوں سے ہٹ کر کچھ اور ہی سمجھ میں آیا ( جیسا کہ ابنِ تیمیہ کے ماننے والے گروہِ وہابیہ کا معاملہ ہے) اور یہ سوءِ ادراک اس درجے تک پہنچا کہ انہیں اپنی توحید شرکِ جلی اور بتوں کی عبادت کے تناظر میں ہی سمجھ میں آتی ہے۔۔۔۔۔ ہماری مراد یہ ہے کہ یہ لوگ توحید کا نہایت عامیانہ مفہوم ذہن میں رکھتے ہیں اور خاص الخواص کی توحید کا انکار کرتے ہیں کہ جس کی بدولت دین میں امامت کا اثبات ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
(تحریر: سیدی الشیخ عبدالغنی العمری القاسمی الادریسی الحَسَنی حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
::::::::::::::
بے شک ہر انسان اپنے اپنے طور پر وجود کی کوئی نہ کوئی تفسیر اختیار کرتا ہے، جو اس انسان کے مقام اور ذہنی سطح کے مطابق ہوتی ہے۔ وجود کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو عوام الناس میں عام طور پر پایا جاتا ہے اور جوایک جگہ پر آکر رک سا گیا ہے جمود کا شکار ہوگیا ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس گاہے گاہے وجود کا مفہوم زمانوں کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر بھی ہوتا ہے اگر بندہ صاحبانِ عقل کے خواص میں سے ہو یا مشروع کردہ راستے کے سالکین میں سے ہو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وجود کی معرفت کی ابتداء اس کے ادنیٰ مراتب سے ہوتی ہے اور ان ادنیٰ مراتبِ وجود میں، یہ عالمِ طبیعی (Physical World ) اور حِس ( Common Sense) کی دنیا شامل ہے. وجود کی یہ سطح، افعالِ الٰہیہ کے مظاہر کی سطح( Plane) ہے جس کو وحی کی زبان میں 'اسفل السافلین' کہا گیا ہے کیونکہ یہ اصطلاح دلالت کرتی ہے کہ ادراکِ عام ( General Public Perception) کے لئے اس سے زیادہ قریب تر اور کوئی مرتبہِ وجود نہیں ہے۔
اور ہم اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مختلف قسم کے مکاتبِ فکر میں ۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ دینی ہوں یا غیر دینی ۔۔۔۔۔۔ وجود کی تعبیرات و تشریحات میں جو اختلاف رونما ہوا ہے، ضروری نہیں کہ وہ اختلاف ہمیشہ مراتب کے اختلاف کی وجہ سے وقوع پزیر ہوا ہو۔ یہ اختلاف تو مرتبہءِ دنیا یعنی عوام الناس کے مرتبے سے تعلق رکھتا ہے اور عام طور پر لوگوں کی مختلف استعدادات ( Diverse Capabilities) کی وجہ سے کسی ایک اعتبار( Consideration) کو دوسرے اعتبار پر ترجیح دینے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اور ادراک کے اس میدان میں وجودیت کے نقطہ نظر سے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون مومن ہے اور کون کافر۔ فرق صرف عقلی اور شرعی احکام کا اعتبار کرنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ اور یہ بات اس بات سے بلند تر ہے کہ زیادہ تر عقول ادراک اس کا کرسکیں۔
چنانچہ وجود کی جہت سے ملحد کے اس قول کہ " اللہ موجود نہیں ہے"، اور مومن کے اس قول کہ " لا الہٰ الا اللہ"، میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں اقوال بیک وقت دو متقابل اور برعکس اقوال سے وجود کی ذات ہی کا بیان کر رہی ہیں۔ چنانچہ ملحد اس قول سے اپنے لئے وجود کا اثبات کر رہا ہے۔ اور یہ بات اس سے نادانستگی میں اللہ کے اس قول کا اعلان کروارہی ہے کہ {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا} [طه: 14] کہ بے شک میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اور مومن اتباع کے طریق سے وجود اور الوہیت کواللہ سے منسوب کر رہا ہے جو اس کا اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور ان دونوں اقوال میں حکمِ شرعی کے اعتبار کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہے، یہ حکمِ شرعی ہی ہے جو ملحد کو کافر قرار دیتا ہے جو اگر اسی اعتقاد پر مرجائے تو عذابِ جہنم میں داخل ہوگا، اور یہی حکمِ شرعی مومن کو ابدی سعادت کا حق دار قرار دیتا ہے خواہ وہ شخص لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت کا علم نہ بھی حاصل کر پایا ہو۔ ہم یہ بات کر رہے ہیں کیونکہ اکثر مومنین لغوی اعتبار سے کافر ہی ہیں۔ اور اگر ہم عوام المسلمین (جن میں ان کےعلماء و فقہاء بھی شامل ہیں) کے تصورات کا جائزہ لیں جو وہ وجود کے حوالے سے رکھتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ وہ متعدد وجودوں کا تصور رکھتے ہیں اور بلا شک و شبہ، لغت کے اعتبار سے یہ شرک کے معنی میں سے ہے ( اگرچہ شرع کے اعتبار سے شرکِ اصغر کے درجے میں ہے)۔
اور اگر ہم اس دنیا پر اور اس میں رونما ہونے والے واقعات و افعال پر نظر ڈالیں جن سے ہر ہر زمانہ بھرا پڑا ہے اور ان واقعاتِ عالم کا مشاہدہ کرنے والوں کے ان کے بارے میں تاثرات ، خیالات اور آراء کو بھی مدِ نظر رکھیں (جیسا کہ عام طور پر سیاسی واقعات کے حوالے سے لوگوں کی مختلف آراء ہوا کرتی ہیں) تو ان تمام آراء و نظریات کو سن کر یہی محسوس ہوگا کہ :
1- کچھ لوگ وہ ہیں جو دنیا کے تمام معاملات کا انتساب صرف مخلوقات سے کرتے ہیں اور افعال کے اس دوسرے مرتبے سے نہیں کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے {وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} [الصافات: 96] ( اور اللہ تمہارا اور تمہارے افعال کا بھی خالق ہے)
2- کچھ وہ ہیں جو تمام معاملات اور افعال کو سوائے حق تعالیٰ کے، اور کسی سے منسوب نہیں کرتے( اور یہ لوگ عارفین ہیں)۔
3- اور دو گروہ ایسے ہیں جو تمام افعال کا انتساب کرتے وقت حق تعالیٰ کا بھی اعتبار کرتے ہیں اور خلق کا بھی۔ اان میں سے ایک فریق مومنین پر مشتمل ہے اور دوسرا فریق محققین کا ہے (اور محققین کا ان تمام لوگوں سے زیادہ بلند درجہ ہے)۔
صرف مخلوقات کو معتبر رکھنے والے، صاحبانِ کفرِ اکبر ہیں جن میں سرِ فہرست ملحدین و معطّلین ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سطحِ افعال سے ماوراء کوئی بھی پیشِ نظر نہیں ہے۔ {يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ} [الروم:7] جو حیاتِ دنیوی کے صرف ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور دوسری جہت (آخرت) سے یکسر غافل ہیں۔
جہاں تک ایمان رکھنے والوں کی بات ہے خواہ وہ حق پر ایمان رکھتے ہوں یا مظاہر پرست وثنیین (ُPagans ) کی طرح شرکیہ ایمان رکھتے ہوں، یہ تمام لوگ وجود کی تفسیر صرف صفات (صفاتِ ربوبیت) کی سطح سے کرتے ہیں یعنی ایسی صفاتِ ربوبیت جو مشاہدے میں آنے والے افعال کی ذمہ دار ہیں۔ چنانچہ اسی صفات کی سطح ( Plane) سے تعلق کے حوالے سے مشرکین جنگ کے خدا، خوشحالی کے خدا، سمندر کے خدا اور اسی قسم کے دوسرے خداؤں کا اعتقاد رکھتے ہیں۔۔۔ اور صفاتِ ربوبیت کی درست معرفت کے لئے آسمانی کتب نازل کی گئیں کہ جن سے حقیقت کی مناسب تفہیم اور عبادت میں حق کے ساتھ موافقت کے لئے مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اگر ہم مسلمانوں( کہ جو دینِ برحق پر ہیں) کے علمِ صفات کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی اکثریت یا تو صفات سے لاعلم ہےاگرچہ وہ ان پر ضعیف درجے میں ایمان رکھتے ہیں، یا پھر وہ صفات کے میدان میں ایمان کی بجائے اپنی فکر کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور فلسفیوں اور مفکرین کی طرح عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں، اور یہ بات انہیں اصلی اور سچے راستے سےہٹا دیتی ہے۔ چنانچہ عقائد کے میدان میں زیادہ تر متکلمین نے جو کلام کیا ہے وہ اسی قبیل سے ہے۔
اور جہاں تک ذات کا تعلق ہے، تو وہ صفات اور افعال دونوں کو محیط ہے۔ اور علم و ادراک کی دسترس میں نہیں آتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہرگز نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے ماوراء ہو کر ذات کو نہیں جانا جاسکتا اور اس کی تحقیق ( Realization) نہیں کی جاسکتی۔ نہیں یہ بات نہیں ہے بلکہ صفات اور افعال وہ معانی ہیں جو ذات کے اندر ہیں۔ غیر نہیں۔ چنانچہ جوں جوں کسی بندے کا صفات اور افعال کا علم بڑھتا ہے، اس کا ذات کے بارے میں علم بھی بڑھتا جاتا ہے۔ اور جو چیز علم کو اس کے ساتھ تعلق پذیر ہونے سے روکتی ہے وہ صرف اس کا مرتبہءِ صرافت ہے (جسے مرتبہِ ذاتِ ساذج بھی کہتے ہیں)۔
اور چونکہ صفات و افعال مختلف المعانی اسماء کی طرف لوٹتے ہیں جن میں سے کئی اسماء اکثر باہم متقابل یعنی ایک دوسرے کے مخالف اور برعکس بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں، تو اس صورتِ حال میں اہلِ شرک کو یہ گمان ہوا کہ شائد ہر اسم کی اپنی اپنی مخصوص ذات ہے، چنانچہ ایسے لوگ متعدد خداؤں کے قائل ہوئے۔ اور جو اہلِ توحید ہیں، تو انہوں نے تمام اسماء خواہ وہ باہم موافق یا مخالف ہوں، سب کو ایک ہی ذات سے نسبت دی۔ لیکن وہ بھی ایک غلطی کا شکار ہوئے اور وہ غلطی ہے ہر اسم کے لئے ذات کی مصابحت ان معنوں میں گمان کرنی جو صرف ذات ہی کے لئے مخصوص ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں کے نزدیک تمام اسماء ایک ہی ذات قرار پاگئے ، یا کچھ اس کے نزدیک ترین مفہوم کے حامل۔ اور اس بات نے انہیں قرآن کے معانی کے درست ادراک سے محجوب کردیا۔ اور اپنی فہم کے ا نحراف کے سبب انہیں توحید کا مفہوم بھی درست معنوں سے ہٹ کر کچھ اور ہی سمجھ میں آیا ( جیسا کہ ابنِ تیمیہ کے ماننے والے گروہِ وہابیہ کا معاملہ ہے) اور یہ سوءِ ادراک اس درجے تک پہنچا کہ انہیں اپنی توحید شرکِ جلی اور بتوں کی عبادت کے تناظر میں ہی سمجھ میں آتی ہے۔۔۔۔۔ ہماری مراد یہ ہے کہ یہ لوگ توحید کا نہایت عامیانہ مفہوم ذہن میں رکھتے ہیں اور خاص الخواص کی توحید کا انکار کرتے ہیں کہ جس کی بدولت دین میں امامت کا اثبات ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
(تحریر: سیدی الشیخ عبدالغنی العمری القاسمی الادریسی الحَسَنی حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)