تقدیر بگڑتی جاتی ہے ،گو بات بنائے جاتے ہیں- کیفی اعظمی

کاشفی

محفلین
غزل
(سید اظہر حسین رضوی کیفی اعظمی)
تقدیر بگڑتی جاتی ہے ،گو بات بنائے جاتے ہیں
وہ اُتنے ہی روٹھےجاتے ہیں، ہم جتنا منائے جاتے ہیں
وہ جا کے نہیں اب آنے والے، طور یہ پائے جاتے ہیں
ہنستے ہیں تسلّی دینے کو ، پر اشک بھی آئے جاتے ہیں
صد شکر کہ فرقِ حُسن و عشق، اعجازِ وفا نے مٹا دیا
میں جلوؤں میں کھویا جاتا ہوں، وہ مجھ میں سمائے جاتے ہیں
محفل بھی وہی، ساقی بھی وہی، قسمت ہےمگر اپنی اپنی
کچھ ہیں جو بلائے جاتے ہیں، ہم ہیں کہ اُٹھائے جاتے ہیں
ہے باغ سے ہم کو کیا مطلب، اب پھول کھلیں یا آگ لگے
جن تنکوں نے رشتہ جوڑا تھا، چُن چُن کے جلائے جاتے ہیں
بیتاب نگاہیں لوٹ رہی ہیں، پردہء در پر حسرت سے
اور آنے والے آنکھ بچا کر دل میں سمائے جاتے ہیں
ہے پیرہنِ صدپارہ میں خوشبو یہ کسی کے گیسو کی
بیگانہ ہوا جاتا ہوں جہاں سے غش پہ غش آئے جاتے ہیں
باتوں سے مروت کے رشتے وہ توڑ رہے ہیں ہنس ہنس کر
آنکھوں سے محبت کے ساغر بھر بھر کے پلائے جاتے ہیں
رہ رہ کے دھڑک اُٹھتا ہے کلیجہ، سانس الجھتی جاتی ہے
اے موت ٹھہر، تعجل نہ کر، دم بھر میں وہ آئے جاتے ہیں
کیفی کوئی اس کو جی سے مرے پوچھے کہ شب ِ وعدہ میں چراغ
کس طرح جلائے جاتے ہیں، کس طرح بجھائے جاتے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین

محفل بھی وہی، ساقی بھی وہی، قسمت ہےمگر اپنی اپنی
کچھ ہیں جو بلائے جاتے ہیں، ہم ہیں کہ اُٹھائے جاتے ہیں
کاشفی بھائی ۔۔۔۔!
خوبصورت کلام شاملِ محفل کرنے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔!
 

کاشفی

محفلین
محفل بھی وہی، ساقی بھی وہی، قسمت ہےمگر اپنی اپنی
کچھ ہیں جو بلائے جاتے ہیں، ہم ہیں کہ اُٹھائے جاتے ہیں
کاشفی بھائی ۔۔۔ ۔!
خوبصورت کلام شاملِ محفل کرنے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ ۔!
شکریہ محمد احمد بھائی!
کیا خوب غزل ہے، شکریہ کاشفی صاحب
شکریہ محمد وارث صاحب!

شکریہ الف عین صاحب!
 
Top