صادق آبادی
محفلین
کلیاں تھیں حِجابوں میں،
جب پھول بنیں تو اب،
قبروں پہ، کتابوں میں۔
یہ پھول کَلِی رہتے،
کُھلتا نہ حِجاب اِن کا،
پھر کیوں یہ سِتم سہتے،
شاخوں پہ اگر ٹِکتے،
کانٹوں کی حفاظت میں،
سڑکوں پہ نہ یوں بکتے۔
باغوں میں نہیں بَستے،
اے پھولو! جَفا کر کے،
بن جاتے ہو گل دستے۔
پیسوں سے لیا جانا؟
یہ حسن کی وقعت ہے؟؟
تحفے میں دیا جانا؟
وہ جرم تمہارا تھا،
اک خاص ادا سے جب،
گُل چِیں کو پکارا تھا۔
تَحفِیظ، حیا میں ہے،
مرجھائے ہوئے پھولو!
تَقدِیس، حَیا میں ہے۔
دھوکا ہے ویلنٹائن،
اے قوم کے فرزندو،
تم طِفْل ہو، یہ ڈائن۔
(شاہدؔ ریاض عباسی)
جب پھول بنیں تو اب،
قبروں پہ، کتابوں میں۔
یہ پھول کَلِی رہتے،
کُھلتا نہ حِجاب اِن کا،
پھر کیوں یہ سِتم سہتے،
شاخوں پہ اگر ٹِکتے،
کانٹوں کی حفاظت میں،
سڑکوں پہ نہ یوں بکتے۔
باغوں میں نہیں بَستے،
اے پھولو! جَفا کر کے،
بن جاتے ہو گل دستے۔
پیسوں سے لیا جانا؟
یہ حسن کی وقعت ہے؟؟
تحفے میں دیا جانا؟
وہ جرم تمہارا تھا،
اک خاص ادا سے جب،
گُل چِیں کو پکارا تھا۔
تَحفِیظ، حیا میں ہے،
مرجھائے ہوئے پھولو!
تَقدِیس، حَیا میں ہے۔
دھوکا ہے ویلنٹائن،
اے قوم کے فرزندو،
تم طِفْل ہو، یہ ڈائن۔
(شاہدؔ ریاض عباسی)