تقریبا تین دہائیاں پرانی ایک غزل- میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی

میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی
جانے کب سے یاد تمہاری آئی تھی

پلکیں جیسے کالی گھٹا سی چھائی تھی
اور آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائی تھی

کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
اس پہ تری یادوں کی رچی رعنائی تھی

یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تری ہی دل کو بھائی تھی

اک تو ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
اور ہماری چاہت بھی سودائی تھی

قریہ قریہ ہوئے جو رسوا تب جانا
کتنی شکیل اس الفت میں رسوائی تھی

یہ غزل نوے کی دہائی کے اوائل میں کہی تھی، ایک دو جگہوں پر وزن کے مسائل کی درستگی کے ساتھ پیش خدمت ہے
 
غزل اچھی لگی شکیل بھائی ۔۔۔ اسلوب سے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ نوجوانی کے دور کی ہوگی :)
(ویسے ہماری نظر میں آپ اب بھی نوجوان ہی ہیں :) )
میرے خیال میں نظر ثانی کرتے وقت آپ تھوڑی اور توجہ دیتے کچھ مصرعوں کی بنت مزید بہتر کی جا سکتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اتنے پرانے کلام پر زیادہ محنت کرنے کو مشکل سے ہی دل چاہتا ہے :)
 
غزل اچھی لگی شکیل بھائی ۔۔۔ اسلوب سے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ نوجوانی کے دور کی ہوگی :)
(ویسے ہماری نظر میں آپ اب بھی نوجوان ہی ہیں :) )
میرے خیال میں نظر ثانی کرتے وقت آپ تھوڑی اور توجہ دیتے کچھ مصرعوں کی بنت مزید بہتر کی جا سکتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ بھی ہے کہ اتنے پرانے کلام پر زیادہ محنت کرنے کو مشکل سے ہی دل چاہتا ہے :)
درست فرمایا آپ نے، میں نے صرف وہیں تبدیلی کی جہاں وزن کا مسئلہ تھا
ورنہ معنوی طور پر آج کی سوچ، طبعی میلان اور ذہنی کیفیت میں اتنا بدلاؤ آ چکا ہے کہ سب کچھ ہی بدل ڈالوں
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم شکیل بھائی!
یہ غزل آپ کی دیگر غزلوں کی نسبت زیادہ پسند آئی۔
سوچا کچھ مقامات پر تجاویز دوں اور آپ کے رویے سے نہیں لگتا کہ آپ ناراض ہوں گے۔یوں آپ مالک ہیں۔

میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی
جانے کب سے یاد تمہاری آئی تھی

میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی
اس عالم میں یاد تمہاری آئی تھی


پلکیں جیسے کالی گھٹا سی چھائی تھی
اور آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائی تھی
واہ۔خوب

کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
اس پہ تری یادوں کی رچی رعنائی تھی

کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
کچھ پھر تیری یادوں کی رعنائی تھی


یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تری ہی دل کو بھائی تھی

یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تمھاری دل کو بھائی تھی


اک تو ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
اور ہماری چاہت بھی سودائی تھی

کچھ کچھ ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
کچھ کچھ میری چاہت بھی سودائی تھی

قریہ قریہ ہوئے جو رسوا تب جانا
کتنی شکیل اس الفت میں رسوائی تھی

ویسے اس بحر کو درست برتنا مشکل ہے۔آپ نے درست برتا ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔:)
 
السلام علیکم شکیل بھائی!
یہ غزل آپ کی دیگر غزلوں کی نسبت زیادہ پسند آئی۔
سوچا کچھ مقامات پر تجاویز دوں اور آپ کے رویے سے نہیں لگتا کہ آپ ناراض ہوں گے۔یوں آپ مالک ہیں۔

میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی
جانے کب سے یاد تمہاری آئی تھی

میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی
اس عالم میں یاد تمہاری آئی تھی


پلکیں جیسے کالی گھٹا سی چھائی تھی
اور آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائی تھی
واہ۔خوب

کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
اس پہ تری یادوں کی رچی رعنائی تھی

کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
کچھ پھر تیری یادوں کی رعنائی تھی


یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تری ہی دل کو بھائی تھی

یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تمھاری دل کو بھائی تھی


اک تو ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
اور ہماری چاہت بھی سودائی تھی

کچھ کچھ ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
کچھ کچھ میری چاہت بھی سودائی تھی

قریہ قریہ ہوئے جو رسوا تب جانا
کتنی شکیل اس الفت میں رسوائی تھی

ویسے اس بحر کو درست برتنا مشکل ہے۔آپ نے درست برتا ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔:)
رہنمائی کا شکریہ، جیسے میں نے اوپر راحل بھائی کے تبصرے کے جواب میں لکھا، یہ تین دہائیوں سے پرانی غزل تھی، میں نے صرف وہیں تصحیح کر کے یہاں شامل کر دیا، جہاں وزن وغیرہ کا مسئلہ تھا، ورنہ معنوی اعتبار سے تو آج دوبارہ لکھوں تو سب کچھ ہی بدل ڈالتا۔
باقی آپ کا اندازا درست ہے کہ میں ناراض بالکل بھی نہیں ہوتا، اپنی اردو دانی کی کمزوریوں اور کمیوں سے خوب واقف ہوں اس لئے تمام احباب کی رہنمائی کا منتظر رہتا ہوں
 
Top