محمد شکیل خورشید
محفلین
میں تھا غم تھے اور شبِ تنہائی تھی
جانے کب سے یاد تمہاری آئی تھی
پلکیں جیسے کالی گھٹا سی چھائی تھی
اور آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائی تھی
کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
اس پہ تری یادوں کی رچی رعنائی تھی
یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تری ہی دل کو بھائی تھی
اک تو ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
اور ہماری چاہت بھی سودائی تھی
قریہ قریہ ہوئے جو رسوا تب جانا
کتنی شکیل اس الفت میں رسوائی تھی
یہ غزل نوے کی دہائی کے اوائل میں کہی تھی، ایک دو جگہوں پر وزن کے مسائل کی درستگی کے ساتھ پیش خدمت ہے
جانے کب سے یاد تمہاری آئی تھی
پلکیں جیسے کالی گھٹا سی چھائی تھی
اور آنکھوں میں جھیلوں کی گہرائی تھی
کچھ تو فضا میں مہک تھی تازہ کلیوں کی
اس پہ تری یادوں کی رچی رعنائی تھی
یوں تو نظارے لاکھ نظر سے گزرے تھے
صورت ایک تری ہی دل کو بھائی تھی
اک تو ان کا عشق بھی تھا دیوانہ سا
اور ہماری چاہت بھی سودائی تھی
قریہ قریہ ہوئے جو رسوا تب جانا
کتنی شکیل اس الفت میں رسوائی تھی
یہ غزل نوے کی دہائی کے اوائل میں کہی تھی، ایک دو جگہوں پر وزن کے مسائل کی درستگی کے ساتھ پیش خدمت ہے