تقطیع سے متعلق ایک اشکال: حضرت غالب کا ایک شعر

عرفان سعید

محفلین
(عروض سے بس واجبی سی شد بد ہے، اہلِ علم سے رہنمائی کی درخواست ہے)

حضرت غالب کے درج ذیل شعر میں، قبلہ نے "کوئی" کو فَعُو کے وزن پر باندھا ہے

رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

سوال یہ ہے: کیا "اور" کے علاوہ بھی کسی لفظ کے درمیان سے "و" کا اسقاط جائز ہے؟
 
مجھے اجازت ہو تو عرض کروں کہ اساتذہ کے ہاں دوئی بمعنیٰ ثنویت، موئی بمعنیٰ فوت شد وغیرہ کی درمیانی واؤ کا اسقاط ملتا ہے۔ معروف الفاظ میں البتہ غالباً یہی دو ہیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ ان کے اسقاط کے متعلق بھی بعض موشگافیاں موجود ہیں۔ مثلاً اور کے معاملے میں اصول یہ ہے:
قاعدہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ اور کا لفظ اگر حرفِ عطف (ایسا حرف جو دو کلموں یا جملوں کو جوڑتا ہے) کے طور پر آئے تو اسے سببِ خفیف (فع) اور وتدِ مفروق (فاع) دونوں کے وزن پر باندھا جا سکتا ہے۔
مثال دیکھیے:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)

ادب ہے اور یہی کش مکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو؟
(مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن)​
تقطیع کریں گے تو معلوم ہو گا کہ پہلے شعر کے مصرعِ ثانی میں حرفِ عطف کو سببِ خفیف کے وزن پر باندھا گیا ہے اور دوسرے شعر کے دونوں مصرعوں میں وتدِ مفروق کے وزن پر۔ دونوں طرح درست ہے۔
لیکن اگر "اور" بمعنیٰ مزید یا مختلف آئے یا اس قسم کی دلالتیں رکھتا ہو تو لازم ہے کہ اسے وتدِ مفروق کے وزن پر باندھا جائے۔ اساتذہ کے ہاں تو خیر اس کا التزام رہا ہی ہے مگر مستند معاصر شعرا نے بھی اس روایت کا کماحقہٗ لحاظ کیا ہے۔ لہٰذا اس کی رعایت نہ کرنے کو عیب گننا چاہیے۔
مثال ملاحظہ ہو:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
(مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل/فعولن)​
مصرعِ اولیٰ میں اور کا لفظ مزید کے معنیٰ میں ہے اور مصرعِ ثانی میں مختلف کے معنیٰ میں۔ دونوں جگہ اس کا وزن وتدِ مفروق یعنی فاع ہی کا ہے۔
کوئی کے سلسلے میں بھی ایک آدھ ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے مگر اس پر مجھے بالفعل استحضار نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
(عروض سے بس واجبی سی شد بد ہے، اہلِ علم سے رہنمائی کی درخواست ہے)
حضرت غالب کے درج ذیل شعر میں، قبلہ نے "کوئی" کو فَعُو کے وزن پر باندھا ہے
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت
سوال یہ ہے: کیا "اور" کے علاوہ بھی کسی لفظ کے درمیان سے "و" کا اسقاط جائز ہے؟
جی ہاں یہ تو قدیم و جدید ، ہردو اسالیب میں مقبول روش ہے۔
سو بار بیاباں میں گیا محمل لیلی
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا
گر کوئی پیرمغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
میکدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
میر
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے۔
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
اقبال
کوئی تو ہے جو نظام ہستی
چلارہا ہے، وہی خدا ہے
مظفر وارثی
 

عرفان سعید

محفلین
مجھے اجازت ہو تو عرض کروں کہ اساتذہ کے ہاں دوئی بمعنیٰ ثنویت، موئی بمعنیٰ فوت شد وغیرہ کی درمیانی واؤ کا اسقاط ملتا ہے۔ معروف الفاظ میں البتہ غالباً یہی دو ہیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ ان کے اسقاط کے متعلق بھی بعض موشگافیاں موجود ہیں۔ مثلاً اور کے معاملے میں اصول یہ ہے:

کوئی کے سلسلے میں بھی ایک آدھ ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے مگر اس پر مجھے بالفعل استحضار نہیں ہے۔
محترم راحیل فاروق صاحب!
فوری اور تفصیلی جواب پر بہت مشکور ہوں- جزاک اللہ!
 

عرفان سعید

محفلین
جی ہاں یہ تو قدیم و جدید ، ہردو اسالیب میں مقبول روش ہے۔
سو بار بیاباں میں گیا محمل لیلی
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا
گر کوئی پیرمغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
میکدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
میر
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے۔
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
اقبال
کوئی تو ہے جو نظام ہستی
چلارہا ہے، وہی خدا ہے
مظفر وارثی

محترمی عاطف صاحب!

ماشاءاللہ! کیا خوب حوالہ جات اس تہی دامن کو مرحمت فرمائے ہیں۔ بہت بہت عنائیت!
 

عرفان سعید

محفلین
مجھے اجازت ہو تو عرض کروں کہ اساتذہ کے ہاں دوئی بمعنیٰ ثنویت، موئی بمعنیٰ فوت شد وغیرہ کی درمیانی واؤ کا اسقاط ملتا ہے۔ معروف الفاظ میں البتہ غالباً یہی دو ہیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ ان کے اسقاط کے متعلق بھی بعض موشگافیاں موجود ہیں۔ مثلاً اور کے معاملے میں اصول یہ ہے:

کوئی کے سلسلے میں بھی ایک آدھ ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے مگر اس پر مجھے بالفعل استحضار نہیں ہے۔

جی ہاں یہ تو قدیم و جدید ، ہردو اسالیب میں مقبول روش ہے۔
سو بار بیاباں میں گیا محمل لیلی
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا
گر کوئی پیرمغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
میکدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
میر
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے۔
وہی آب و گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
اقبال
کوئی تو ہے جو نظام ہستی
چلارہا ہے، وہی خدا ہے
مظفر وارثی

محترم حضرات!
ایک بار پھر آپ کو زحمتِ کلام دے رہا ہوں۔

جنابِ اقبال کے درج ذیل شعر میں "و" کا "ہوئے" سے اسقاط کس ضابطے کے تحت ہوا ہے؟ اپنی کم علمی پر معذرت، لیکن رہنمائی کا طلب گار ہوں۔

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محترم حضرات!
ایک بار پھر آپ کو زحمتِ کلام دے رہا ہوں۔

جنابِ اقبال کے درج ذیل شعر میں "و" کا "ہوئے" سے اسقاط کس ضابطے کے تحت ہوا ہے؟ اپنی کم علمی پر معذرت، لیکن رہنمائی کا طلب گار ہوں۔

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اس ہوئے کاوزن تو ہوتا ہی فعو کے برابر ہے۔ اس میں ہوئے کو فعلن باندھنا درست نہیں ہوگا۔ یہی ہوا اور ہوئی کا معاملہ ہے۔
 
محترم حضرات!
ایک بار پھر آپ کو زحمتِ کلام دے رہا ہوں۔

جنابِ اقبال کے درج ذیل شعر میں "و" کا "ہوئے" سے اسقاط کس ضابطے کے تحت ہوا ہے؟ اپنی کم علمی پر معذرت، لیکن رہنمائی کا طلب گار ہوں۔

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
آپ کا نکتہ نہایت معنیٰ خیز ہے، عرفان بھائی۔ مزا آ گیا واللہ اس سوال کا۔
لفظ ہوئے کا معیاری وزن فَعَل یعنی ایک وتدِ مجوع ہے۔ یہ وزن دو طرح سے حاصل ہو سکتا ہے۔
  1. واؤ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ املا میں ہُئِے کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
  2. ہمزہ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ ہُوِے کی شکل میں لکھا جا سکتا ہے۔
پہلی صورت اس تلفظ کی ہے جو کم از کم پاکستان میں فصحا روا رکھتے ہیں۔ شاید ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ اس صورت میں واؤ کی آواز کالعدم ہے، ہائے ہوز مضموم ہے، ہمزہ الف کے قائم مقام کے طور پر متحرک ہے اور یائے مجہول ساکن ہے۔
دوسری صورت میں تلفظ وہ ہے جو ہم نے سن تو رکھا ہے مگر اسے معیاری کہنے میں تامل ہے۔ یعنی ہائے ہوز مضموم، واؤ مکسور اور یائے مجہول ساکن۔
قدیم املا کے معیارات کو دیکھیں تو اردو شاعری کے پرانے نسخوں میں جہاں یہ لفظ وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے وہاں اکثر اسے "ہوئے" ہی لکھا گیا ہے۔ مثلاً:
خوار و زار و ذلیل و بے رویت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے
(میرؔ)
فاعلاتن مفاعلن فعلن یا فَعَلُن​
مصرعِ ثانی کو دیکھیے تو دونوں بار ہوئے پورا وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے۔ایسی صورت میں اسے ہمزہ کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ مگر جہاں اس کی یائے مجہول کو بھی ساقط کیا گیا ہے وہاں ہمزہ نہیں لکھا گیا۔ مثلاً:
ہوے سرمست ہو تماشائی
حکم کش ہے سپہرِ مینائی
(میرؔ)​
اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن اسی بحر میں فَعَلاتُن مفاعلن فعلن ہے۔ "ہوے سرمس" کو فَعِلاتُن کے وزن پر باندھا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرانے اہلِ زبان کے ہاں دراصل ہمزہ کا گرنا راجح تھا۔ اور وہ غالباً پاکستان کے معاصر اردو گویوں کے برعکس واؤ کے اعلان کے ساتھ اس لفظ کو ادا کیا کرتے تھے۔ موجودہ صورتِ حال پر البتہ جناب الف عین بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
بہرحال، ہر دو صورت میں ہوئے اور اس کے متعلقات یعنی ہوئی، ہوئیں اور ہوا کا وزن وتدِ مجموع ہی کا ہے۔ میں جس لہجے کو پاکستان کے لیے معیاری سمجھتا ہوں اس میں واؤ ساقط ہوتی ہے جبکہ اہلِ ہندوستان کے ہاں غالباً ہمزہ اڑا دیا جاتا ہے اور واؤ کا تلفظ برقرار رکھا جاتا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
آپ کا نکتہ نہایت معنیٰ خیز ہے، عرفان بھائی۔ مزا آ گیا واللہ اس سوال کا۔
لفظ ہوئے کا معیاری وزن فَعَل یعنی ایک وتدِ مجوع ہے۔ یہ وزن دو طرح سے حاصل ہو سکتا ہے۔
  1. واؤ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ املا میں ہُئِے کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
  2. ہمزہ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ ہُوِے کی شکل میں لکھا جا سکتا ہے۔
پہلی صورت اس تلفظ کی ہے جو کم از کم پاکستان میں فصحا روا رکھتے ہیں۔ شاید ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ اس صورت میں واؤ کی آواز کالعدم ہے، ہائے ہوز مضموم ہے، ہمزہ الف کے قائم مقام کے طور پر متحرک ہے اور یائے مجہول ساکن ہے۔
دوسری صورت میں تلفظ وہ ہے جو ہم نے سن تو رکھا ہے مگر اسے معیاری کہنے میں تامل ہے۔ یعنی ہائے ہوز مضموم، واؤ مکسور اور یائے مجہول ساکن۔
قدیم املا کے معیارات کو دیکھیں تو اردو شاعری کے پرانے نسخوں میں جہاں یہ لفظ وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے وہاں اکثر اسے "ہوئے" ہی لکھا گیا ہے۔ مثلاً:
خوار و زار و ذلیل و بے رویت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے
(میرؔ)
فاعلاتن مفاعلن فعلن یا فَعَلُن​
مصرعِ ثانی کو دیکھیے تو دونوں بار ہوئے پورا وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے۔ایسی صورت میں اسے ہمزہ کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ مگر جہاں اس کی یائے مجہول کو بھی ساقط کیا گیا ہے وہاں ہمزہ نہیں لکھا گیا۔ مثلاً:
ہوے سرمست ہو تماشائی
حکم کش ہے سپہرِ مینائی
(میرؔ)​
اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن اسی بحر میں فَعَلاتُن مفاعلن فعلن ہے۔ "ہوے سرمس" کو فَعِلاتُن کے وزن پر باندھا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرانے اہلِ زبان کے ہاں دراصل ہمزہ کا گرنا راجح تھا۔ اور وہ غالباً پاکستان کے معاصر اردو گویوں کے برعکس واؤ کے اعلان کے ساتھ اس لفظ کو ادا کیا کرتے تھے۔ موجودہ صورتِ حال پر البتہ جناب الف عین بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
بہرحال، ہر دو صورت میں ہوئے اور اس کے متعلقات یعنی ہوئی، ہوئیں اور ہوا کا وزن وتدِ مجموع ہی کا ہے۔ میں جس لہجے کو پاکستان کے لیے معیاری سمجھتا ہوں اس میں واؤ ساقط ہوتی ہے جبکہ اہلِ ہندوستان کے ہاں غالباً ہمزہ اڑا دیا جاتا ہے اور واؤ کا تلفظ برقرار رکھا جاتا ہے۔

سبحان اللہ! سبحان اللہ!
لطف آگیا اس قدر محققانہ جواب پڑھ کر!
اللہ تعالیٰ علم میں مزید ترفع عنایت فرمائے، آمین!
 

الف عین

لائبریرین
آپ کا نکتہ نہایت معنیٰ خیز ہے، عرفان بھائی۔ مزا آ گیا واللہ اس سوال کا۔
لفظ ہوئے کا معیاری وزن فَعَل یعنی ایک وتدِ مجوع ہے۔ یہ وزن دو طرح سے حاصل ہو سکتا ہے۔
  1. واؤ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ املا میں ہُئِے کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
  2. ہمزہ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ ہُوِے کی شکل میں لکھا جا سکتا ہے۔
پہلی صورت اس تلفظ کی ہے جو کم از کم پاکستان میں فصحا روا رکھتے ہیں۔ شاید ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ اس صورت میں واؤ کی آواز کالعدم ہے، ہائے ہوز مضموم ہے، ہمزہ الف کے قائم مقام کے طور پر متحرک ہے اور یائے مجہول ساکن ہے۔
دوسری صورت میں تلفظ وہ ہے جو ہم نے سن تو رکھا ہے مگر اسے معیاری کہنے میں تامل ہے۔ یعنی ہائے ہوز مضموم، واؤ مکسور اور یائے مجہول ساکن۔
قدیم املا کے معیارات کو دیکھیں تو اردو شاعری کے پرانے نسخوں میں جہاں یہ لفظ وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے وہاں اکثر اسے "ہوئے" ہی لکھا گیا ہے۔ مثلاً:
خوار و زار و ذلیل و بے رویت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے
(میرؔ)
فاعلاتن مفاعلن فعلن یا فَعَلُن​
مصرعِ ثانی کو دیکھیے تو دونوں بار ہوئے پورا وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے۔ایسی صورت میں اسے ہمزہ کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ مگر جہاں اس کی یائے مجہول کو بھی ساقط کیا گیا ہے وہاں ہمزہ نہیں لکھا گیا۔ مثلاً:
ہوے سرمست ہو تماشائی
حکم کش ہے سپہرِ مینائی
(میرؔ)​
اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن اسی بحر میں فَعَلاتُن مفاعلن فعلن ہے۔ "ہوے سرمس" کو فَعِلاتُن کے وزن پر باندھا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرانے اہلِ زبان کے ہاں دراصل ہمزہ کا گرنا راجح تھا۔ اور وہ غالباً پاکستان کے معاصر اردو گویوں کے برعکس واؤ کے اعلان کے ساتھ اس لفظ کو ادا کیا کرتے تھے۔ موجودہ صورتِ حال پر البتہ جناب الف عین بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
بہرحال، ہر دو صورت میں ہوئے اور اس کے متعلقات یعنی ہوئی، ہوئیں اور ہوا کا وزن وتدِ مجموع ہی کا ہے۔ میں جس لہجے کو پاکستان کے لیے معیاری سمجھتا ہوں اس میں واؤ ساقط ہوتی ہے جبکہ اہلِ ہندوستان کے ہاں غالباً ہمزہ اڑا دیا جاتا ہے اور واؤ کا تلفظ برقرار رکھا جاتا ہے۔
میرے خیال میں ہند و پاک کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ آج کل کے تمام شعرا ہی شاید ’ہوئے‘ بر وزن ’ہُ ئےُ استعمال کرتے ہیں۔ ’ہُ وے‘ شاذ ہی استعمال ہوتا ہے۔
 
Top