آپ کا نکتہ نہایت معنیٰ خیز ہے، عرفان بھائی۔ مزا آ گیا واللہ اس سوال کا۔
لفظ ہوئے کا معیاری وزن فَعَل یعنی ایک وتدِ مجوع ہے۔ یہ وزن دو طرح سے حاصل ہو سکتا ہے۔
- واؤ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ املا میں ہُئِے کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
- ہمزہ کو ساقط کر دیا جائے جس کا نتیجہ ہُوِے کی شکل میں لکھا جا سکتا ہے۔
پہلی صورت اس تلفظ کی ہے جو کم از کم پاکستان میں فصحا روا رکھتے ہیں۔ شاید ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہو۔ اس صورت میں واؤ کی آواز کالعدم ہے، ہائے ہوز مضموم ہے، ہمزہ الف کے قائم مقام کے طور پر متحرک ہے اور یائے مجہول ساکن ہے۔
دوسری صورت میں تلفظ وہ ہے جو ہم نے سن تو رکھا ہے مگر اسے معیاری کہنے میں تامل ہے۔ یعنی ہائے ہوز مضموم، واؤ مکسور اور یائے مجہول ساکن۔
قدیم املا کے معیارات کو دیکھیں تو اردو شاعری کے پرانے نسخوں میں جہاں یہ لفظ وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے وہاں اکثر اسے "ہوئے" ہی لکھا گیا ہے۔ مثلاً:
خوار و زار و ذلیل و بے رویت
عاشق اس کے ہوئے سو کیا نہ ہوئے
(میرؔ)
فاعلاتن مفاعلن فعلن یا فَعَلُن
مصرعِ ثانی کو دیکھیے تو دونوں بار ہوئے پورا وتدِ مجموع کے وزن پر آیا ہے۔ایسی صورت میں اسے ہمزہ کے ساتھ لکھا جاتا تھا۔ مگر جہاں اس کی یائے مجہول کو بھی ساقط کیا گیا ہے وہاں ہمزہ نہیں لکھا گیا۔ مثلاً:
ہوے سرمست ہو تماشائی
حکم کش ہے سپہرِ مینائی
(میرؔ)
اس شعر کے پہلے مصرع کا وزن اسی بحر میں فَعَلاتُن مفاعلن فعلن ہے۔ "ہوے سرمس" کو فَعِلاتُن کے وزن پر باندھا گیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پرانے اہلِ زبان کے ہاں دراصل ہمزہ کا گرنا راجح تھا۔ اور وہ غالباً پاکستان کے معاصر اردو گویوں کے برعکس واؤ کے اعلان کے ساتھ اس لفظ کو ادا کیا کرتے تھے۔ موجودہ صورتِ حال پر البتہ جناب
الف عین بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔
بہرحال، ہر دو صورت میں ہوئے اور اس کے متعلقات یعنی ہوئی، ہوئیں اور ہوا کا وزن وتدِ مجموع ہی کا ہے۔ میں جس لہجے کو پاکستان کے لیے معیاری سمجھتا ہوں اس میں واؤ ساقط ہوتی ہے جبکہ اہلِ ہندوستان کے ہاں غالباً ہمزہ اڑا دیا جاتا ہے اور واؤ کا تلفظ برقرار رکھا جاتا ہے۔