تقطیع میں حروف کے اسقاط کا مسئلہ

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تقطیع میں کون سے حروف ساقط ہوتے ہیں اور کون سے نہیں، اس کے بارے میں خصوصا کچھ الفاظ کے حوالے سے میری رائے قائم ہوچکی ہے جس پر میں بڑی سختی سے کاربند ہوں۔۔ مثلا

1۔ لفظ "کہ" کو یک حرفی رکھا جائے نہ کہ دو حرفی۔
2۔ "یا" کا الف نہیں گرا سکتے۔۔
3۔ پہ کی مثال بھی کہ کی طرح ہے، یعنی پے نہیں کرسکتے، یک حرفی ہونا ضروری ہے۔۔

میرا سوال یہاں یہ ہے کہ درج بالا باتیں عروض کی کون سی کتاب میں لکھی ہیں اور اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح کی جائے ۔۔


محترم محمد یعقوب آسی صاحب۔۔۔
محترم الف عین صاحب۔۔۔
عزیز بھائی مزمل شیخ بسمل
برادر فاتح ۔۔۔
محمد اسامہ سَرسَری
محمد بلال اعظم
محمد اظہر نذیر
 

دوست

محفلین
یعقوب آسی صاحب کی کتاب میں بہ تفصیل ذکر ہے عروض کا۔
ہمارا تو سادہ طریقہ ہے الفاظ بول بو ل کر لمبے چھوٹے مصوتے کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ جہاں چھوٹا مصوتہ (شارٹ واؤل) وہاں الف، ہ، یا کچھ بھی اس کو تحریر میں ظاہر کرنے والا حرف ہو وہ "گر" جائے گا۔
 
بڑی نوازش کہ آپ نے اس قابل سمجھا، کتاب کا حوالہ شائد نہ دے سکوں مگر پروفیسرحمید اللہ شاہ ہاشمی صاحب کی کتاب تھی
فارسی اور اُردو میں جو حروف گرائے جا سکتے ہیں اُن کے مجموئے کو آسانی کے لئے '' ہو نیا '' کہہ لیجئے یعنی ہ، و، ن، ی اور ا
عربی میں ایک حرف کا اضافہ ہو جاتا ہے '' ل'' یہ مکتوبی غیر ملفوضی جو ی اور ا کے بعد آتا ہےمگر بولنے میں نہیں آتا، گویا اب '' ہو لینا'' ہ، و، ل، ی، ن، ا
مثال یوں دیکھ لیجئے کہ
اناالحق اس میں تقطیع میں انلحق وزن شمار ہو گا
اور لام کا گرانا دیکھئے
بالضرور جب وزن ہو گا تو بضضرور
باقی اساتذہ کا انظار کرتے ہیں :angel: چھوٹا منہ بڑی بات ہو گی
 
کچھ حروف ایسے ہیں جن کا گرانا یا نا گرانا شاعر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے
میں یہ سمجھا ہوں کہ شعری ضرورت کے تحت جو بھی صوتی تاثر اُبھر رہا ہو اُسی کو مد نظر رکھتے ہوئے استعمال کر لینا چاہئے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ حروف ایسے ہیں جن کا گرانا یا نا گرانا شاعر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے
میں یہ سمجھا ہوں کہ شعری ضرورت کے تحت جو بھی صوتی تاثر اُبھر رہا ہو اُسی کو مد نظر رکھتے ہوئے استعمال کر لینا چاہئے
گویا "کہ" کو "کے" کرنا بعض اوقات جائز بھی ہوتا ہے۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس سلسلے میں استادِ محترم آسی صاحب، فاتح بھائی اور مزمل بھائی بہت بہتر بتا سکتے ہیں۔۔ انہی کا انتظار کرتے ہیں۔
 
در اصل الفاظ کے اسقاط کا مسئلہ
تقطیع میں کون سے حروف ساقط ہوتے ہیں اور کون سے نہیں، اس کے بارے میں خصوصا کچھ الفاظ کے حوالے سے میری رائے قائم ہوچکی ہے جس پر میں بڑی سختی سے کاربند ہوں۔۔ مثلا

1۔ لفظ "کہ" کو یک حرفی رکھا جائے نہ کہ دو حرفی۔

یہ معاملہ میں زیادہ تر شاعر کی صوابدید پر چھوڑ دینے کا قائل ہوں۔ میرے نزدیک اولٰی یہ ہے کہ اسے یک حرفی ہی رکھا جائے۔ بعض اوقات برا نہیں لگتا تو باندھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔

2۔ "یا" کا الف نہیں گرا سکتے۔۔
اس معاملے میں بھی کسی ایک رائے پر توقف درست نہیں۔

3۔ پہ کی مثال بھی کہ کی طرح ہے، یعنی پے نہیں کرسکتے، یک حرفی ہونا ضروری ہے۔۔
پہ کو اگر دو حرفی ہی باندھنا ہے تو ”پر“ کیوں نہ باندھا جائے؟ پہ کو پے کرنے کی ضرورت ہی نہیں اس لئے اسے ایسے باندھنے سے مکمل احتراز ضروری ہے۔

میرا سوال یہاں یہ ہے کہ درج بالا باتیں عروض کی کون سی کتاب میں لکھی ہیں اور اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح کی جائے ۔۔

واقعی اہم سوال ہے! ایک بات یہ ضرور یاد رکھ لیں کہ شاعری صرف عروض کا نام نہیں ہے۔ عجمی عروض اور تقطیع کا عمل صوتیات پر مبنی ہے، اس لئے شاعر کو ضرور ہے کہ وہ اپنی زبان کے استاد شعرا کا کلام قرات کرے اور سمجھے کہ کس لفظ کو کہاں کس طرح باندھا گیا ہے۔ اب دیکھیں ہمارے یہاں ہائے مختفی کا بطورِ حرف کوئی وجود نہیں (بحوالہ بابائے اردو مولوی عبد الحق) بلکہ اس کا کام اپنے سے پہلے حرف کو مفتوح کرنا یا بتانا ہے۔ اب بعض شعرا اس پر سختی سے قائم ہیں کہ ہائے مختفی کو الف بنانا جائز نہیں۔ لیکن بوقت ضرورت اساتذہ نے بنایا بھی ہے۔ کچھ شعرا نے چند الفاظ جیسے نہ، کہ وغیرہ میں یہ قید لگائی ہے اور باقی الفاظ کو اس قید سے آزاد کردیا (مجھے یہ بات کچھ منطقی نہیں لگتی) تو آپ کو جیسے آسانی لگے اسی راہ کو اختیار کریں۔ بس صوتی طور پر لفظ برا محسوس ہو تو اس سے بچنا ضروری ہے۔

اوپر محمد اظہر نذیر صاحب نے ماسٹر حمید اللہ ہاشمی صاحب کے حوالے سے جو بات لکھی اسے تھوڑی تصحیح کی ضرورت ہے۔ تفصیل یوں ہے کہ تقطیع میں صرف ان حروف کو گرایا جاتا ہے جو ملفوظی بھی ہوں اور مکتوبی بھی۔ جو حروف غیر ملفوظی ہیں انہیں گرانے کا کوئی سبب ہی نہیں کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً بالکل میں ”الف“ کا کوئی وزن نہیں کہ یہ غیر ملفوظی ہے اور گرانے کے لئے اس حرف کا وزن ہونا ضروری ہے یعنی اس حرف کا کم از کم ملفوظی ہونا ضروری ہے۔ یہی معاملہ دو چشم والی ھ کا ہے کہ اس کا سرے سے وزن موجود ہی نہیں اس لئے ہم اسے کبھی شمار ہی نہیں کرتے کہ گرانے کی نوبت آئے۔
لفظ کے آخر سے الف، واؤ اور ی کو عام طور پر گرانے کا اصول یہ ہے کہ اگر یہ حروف لفظ میں زائد ہیں تو انہیں گرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر اصلی ہیں تو انہیں شمار کرنا چاہئے۔ مثلاً عام ہندی برج بھاشا یا سنسکرت کے الفاظ میں جو الف ہے وہ گرانا مکروہ ہے۔ جیسے گھوڑا، بکرا، چھوٹا، لمبا وعلیٰ ہذٰاالقیاس۔ مگر اب اتنی محنت کون کرے کہ اصلی اور زائد حروف میں تمیز ہو سکے؟ اس کے لئے بہتر راستہ یا حیلہ کہیں کہ معتبر اور مستند شعرا کا کلام زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔
مزید کچھ کہنے سے گریز کروں گا کہ ابھی استاد محترم محمد یعقوب آسی بھی آتے ہونگے۔
والسلام۔
 
مزید کچھ کہنے سے گریز کروں گا کہ ابھی استاد محترم محمد یعقوب آسی بھی آتے ہونگے۔

مزید کچھ کہنے کو رہا بھی تو نہیں، جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔ ہاں عنوان میں ’’الفاظ‘‘ کے اسقاط پر میں ضرور چونکا تھا۔ پڑھا تو جانا کہ بات ’’حروف‘‘ کی ہو رہی ہے۔
آپ کے کہے کو صاد کرتا ہوں۔ لازمی نہیں کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے مطبوعہ حوالہ موجود ہو، یہ جو کچھ ہم یہاں لکھ رہے ہیں یہ بھی تو طباعت ہی کی ایک صورت ہے۔ اب تو انٹرنیٹ پر ہونے والی اشاعتوں کے حقوق کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔
 
وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں شعری اصناف میں نئی چیزیں آتی گئیں، علم عروض بھی وسیع اور متنوع ہوتا گیا۔
عربی فارسی عروض میں ہم مربع، مسدس اور مثمن کے علاوہ کوئی بحر نہیں دیکھتے۔ پھر بات معشر (دس رکنی) پر پہنچی، اور بارہ رکنی، سولہ رکنی اب مانوس ہیں۔
سوالات تو مزید بھی ہیں: معرٰی نظم میں ایک مصرعے کا وزن ہوتا ہے بیت (دو مصرعے، یا، جوڑا جوڑا) ضروری نہیں۔ آزاد نظم میں وہ ایک مصرع بھی ٹوٹ جاتا ہے، کچھ حصہ ایک سطر میں توباقی اگلی سطر میں۔ ان کے لئے کوئی حتمی اصول ابھی تک تو وضع (یعنی باضابطہ طور پر اشاعت پذیر) نہیں ہوا ، یا کم از کم میرے علم میں نہیں۔ یہاں کتابی حوالے کہاں سے لائیں گے؟
بات وہی ہے جو مزمل شیخ بسمل صاحب! آپ نے کی کہ جمالیات کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا، صواب دید تو شاعر کی ہے قاری اور ناقد بھی بحث سے کلی طور پر خارج نہیں۔آپ کی ’’نہ‘‘، ’’کہ‘‘، ’’پہ‘‘ والی باتیں بہت مناسب ہیں۔ خاص طور پر یہ بات کہ اگر ’’پہ‘‘ کو دو حرفی پڑھنا ٹھہرا تو پھر سیدھا سیدھا ’’پر‘‘ لکھئے اور پڑھئے۔ ’’ہ‘‘ کے چکر میں کیا پڑنا!۔
دعاؤں کا طالب ہوں۔
 
آخری تدوین:
ایک بات اسی تناظر میں پہلے کہیں ہوئی تھی، ذہن میں تازہ ہو گئی، آپ کو بھی شریک کر لوں۔
فارسی میں کچھ اسماء کی املاء دو، دو طرح درست مانی جاتی ہے: کاہ، کَہ؛ گاہ، گَہ؛ راہ، رَہ؛ کوہ، کُہ؛ ذرا واضح کر دوں: گاہے، گہے؛ کوہسار، کہسار؛ شاہانہ، شہانہ؛ راہ بر، رہبر؛ وغیرہ
سوال یہ تھا کہ ’’گاہے‘‘ کی الف کو اور ’’کوہسار‘‘ کی واو کوگرایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ صاحب! اس کو لکھ کر گرانا کیا ضروری ہے؟ سیدھا سیدھا ’’گہے‘‘ لکھئے، اور ’’گہے‘‘ پڑھئے، کوہسار لکھ کر واو گرانے کی بجائے ’’کہسار‘‘ لکھئے۔

برائے توجہ جناب مزمل شیخ بسمل صاحب
 
وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں شعری اصناف میں نئی چیزیں آتی گئیں، علم عروض بھی وسیع اور متنوع ہوتا گیا۔
عربی فارسی عروض میں ہم مربع، مسدس اور مثمن کے علاوہ کوئی بحر نہیں دیکھتے۔ پھر بات معشر (دس رکنی) پر پہنچی، اور بارہ رکنی، سولہ رکنی اب مانوس ہیں۔
سوالات تو مزید بھی ہیں: معرٰی نظم میں ایک مصرعے کا وزن ہوتا ہے بیت (دو مصرعے، یا، جوڑا جوڑا) ضروری نہیں۔ آزاد نظم میں وہ ایک مصرع بھی ٹوٹ جاتا ہے، کچھ حصہ ایک سطر میں توباقی اگلی سطر میں۔ ان کے لئے کوئی حتمی اصول ابھی تک تو وضع (یعنی باضابطہ طور پر اشاعت پذیر) نہیں ہوا ، یا کم از کم میرے علم میں نہیں۔ یہاں کتابی حوالے کہاں سے لائیں گے؟
بات وہی ہے جو مزمل شیخ بسمل صاحب! آپ نے کی کہ جمالیات کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا، صواب دید تو شاعر کی ہے قاری اور ناقد بھی بحث سے کلی طور پر خارج نہیں۔آپ کی ’’نہ‘‘، ’’کہ‘‘، ’’پہ‘‘ والی باتیں بہت مناسب ہیں۔ خاص طور پر یہ بات کہ اگر ’’پہ‘‘ کو دو حرفی پڑھنا ٹھہرا تو پھر سیدھا سیدھا ’’پر‘‘ لکھئے اور پڑھئے۔ ’’ہ‘‘ کے چکر میں کیا پڑنا!۔
دعاؤں کا طالب ہوں۔

بہت آداب استاد محترم!
 
ایک بات اسی تناظر میں پہلے کہیں ہوئی تھی، ذہن میں تازہ ہو گئی، آپ کو بھی شریک کر لوں۔
فارسی میں کچھ اسماء کی املاء دو، دو طرح درست مانی جاتی ہے: کاہ، کَہ؛ گاہ، گَہ؛ راہ، رَہ؛ کوہ، کُہ؛ ذرا واضح کر دوں: گاہے، گہے؛ کوہسار، کہسار؛ شاہانہ، شہانہ؛ راہ بر، رہبر؛ وغیرہ
سوال یہ تھا کہ ’’گاہے‘‘ کی الف کو اور ’’کوہسار‘‘ کی واو کوگرایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ صاحب! اس کو لکھ کر گرانا کیا ضروری ہے؟ سیدھا سیدھا ’’گہے‘‘ لکھئے، اور ’’گہے‘‘ پڑھئے، کوہسار لکھ کر واو گرانے کی بجائے ’’کہسار‘‘ لکھئے۔

برائے توجہ جناب مزمل شیخ بسمل صاحب

آپ نے درست فرمایا۔ در اصل میں ان دونوں صورتوں کو دو مختلف لفظ سمجھتا ہوں۔ جیسے ماہ اور مہ، شاہ اور شہ، تیرا اور ترا، میرا اور مرا وغیرھم۔ اگر آپ نے لفظ تیرا لکھا ہے اور محل ترا کا تھا تو در حقیقت آپ کا شعر وزن سے خارج ہے۔
 
آپ نے درست فرمایا۔ در اصل میں ان دونوں صورتوں کو دو مختلف لفظ سمجھتا ہوں۔ جیسے ماہ اور مہ، شاہ اور شہ، تیرا اور ترا، میرا اور مرا وغیرھم۔ اگر آپ نے لفظ تیرا لکھا ہے اور محل ترا کا تھا تو در حقیقت آپ کا شعر وزن سے خارج ہے۔
لفظی سطح پر تو ظاہر ہے یہ مختلف ہیں۔ اس لئے جب ان کی دو، دو صورتیں موجود ہیں تو وہی لکھئے جو عروضی تقاضے کو نبھائے۔ متفق ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
در اصل الفاظ کے اسقاط کا مسئلہ
یہ معاملہ میں زیادہ تر شاعر کی صوابدید پر چھوڑ دینے کا قائل ہوں۔ میرے نزدیک اولٰی یہ ہے کہ اسے یک حرفی ہی رکھا جائے۔ بعض اوقات برا نہیں لگتا تو باندھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔
اس معاملے میں بھی کسی ایک رائے پر توقف درست نہیں۔
پہ کو اگر دو حرفی ہی باندھنا ہے تو ”پر“ کیوں نہ باندھا جائے؟ پہ کو پے کرنے کی ضرورت ہی نہیں اس لئے اسے ایسے باندھنے سے مکمل احتراز ضروری ہے۔
واقعی اہم سوال ہے! ایک بات یہ ضرور یاد رکھ لیں کہ شاعری صرف عروض کا نام نہیں ہے۔ عجمی عروض اور تقطیع کا عمل صوتیات پر مبنی ہے، اس لئے شاعر کو ضرور ہے کہ وہ اپنی زبان کے استاد شعرا کا کلام قرات کرے اور سمجھے کہ کس لفظ کو کہاں کس طرح باندھا گیا ہے۔ اب دیکھیں ہمارے یہاں ہائے مختفی کا بطورِ حرف کوئی وجود نہیں (بحوالہ بابائے اردو مولوی عبد الحق) بلکہ اس کا کام اپنے سے پہلے حرف کو مفتوح کرنا یا بتانا ہے۔ اب بعض شعرا اس پر سختی سے قائم ہیں کہ ہائے مختفی کو الف بنانا جائز نہیں۔ لیکن بوقت ضرورت اساتذہ نے بنایا بھی ہے۔ کچھ شعرا نے چند الفاظ جیسے نہ، کہ وغیرہ میں یہ قید لگائی ہے اور باقی الفاظ کو اس قید سے آزاد کردیا (مجھے یہ بات کچھ منطقی نہیں لگتی) تو آپ کو جیسے آسانی لگے اسی راہ کو اختیار کریں۔ بس صوتی طور پر لفظ برا محسوس ہو تو اس سے بچنا ضروری ہے۔
اوپر محمد اظہر نذیر صاحب نے ماسٹر حمید اللہ ہاشمی صاحب کے حوالے سے جو بات لکھی اسے تھوڑی تصحیح کی ضرورت ہے۔ تفصیل یوں ہے کہ تقطیع میں صرف ان حروف کو گرایا جاتا ہے جو ملفوظی بھی ہوں اور مکتوبی بھی۔ جو حروف غیر ملفوظی ہیں انہیں گرانے کا کوئی سبب ہی نہیں کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً بالکل میں ”الف“ کا کوئی وزن نہیں کہ یہ غیر ملفوظی ہے اور گرانے کے لئے اس حرف کا وزن ہونا ضروری ہے یعنی اس حرف کا کم از کم ملفوظی ہونا ضروری ہے۔ یہی معاملہ دو چشم والی ھ کا ہے کہ اس کا سرے سے وزن موجود ہی نہیں اس لئے ہم اسے کبھی شمار ہی نہیں کرتے کہ گرانے کی نوبت آئے۔
لفظ کے آخر سے الف، واؤ اور ی کو عام طور پر گرانے کا اصول یہ ہے کہ اگر یہ حروف لفظ میں زائد ہیں تو انہیں گرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر اصلی ہیں تو انہیں شمار کرنا چاہئے۔ مثلاً عام ہندی برج بھاشا یا سنسکرت کے الفاظ میں جو الف ہے وہ گرانا مکروہ ہے۔ جیسے گھوڑا، بکرا، چھوٹا، لمبا وعلیٰ ہذٰاالقیاس۔ مگر اب اتنی محنت کون کرے کہ اصلی اور زائد حروف میں تمیز ہو سکے؟ اس کے لئے بہتر راستہ یا حیلہ کہیں کہ معتبر اور مستند شعرا کا کلام زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔
مزید کچھ کہنے سے گریز کروں گا کہ ابھی استاد محترم محمد یعقوب آسی بھی آتے ہونگے۔
والسلام۔
بہت اچھا تجزیہ ہے ۔۔۔ ایک نکتے کی جانب اشارہ کیا جانا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔امید ہے دخل در معقولات نہ سمجھا جاءے گا۔وہ یہ کہ معتل حروف کے اسقاط کے اصول و قواعد کو بغیر مثال کے بیان کرنا واقعی بہت مشکل اور واضح کرنا ناممکن ہو گا ۔اور الفاظ و محاورات کے برتاؤکی مناسبت کے بغیر کسی مشورے یا قاعدے کی جامد تعمیم اکثر اوقات مفید نہیں ہوگی ۔۔۔ مثلاً بال جبریل میں ڈاکٹر اقبال کی ذیل کی تکرار صورت میں ایک ے کو دوسری ے سے متفاوت کیا گیا ہے باندھا گیا ہے اسے اگر تسلیم کیا جاءے تو یہی شکل الف پر لاگو کی جاسکتی ہے ۔۔۔
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
معذرت خواہ ہوں کہ سوال تو میں نے درست ہی کیا ہے ، عنوان میں "تقطیع میں حروف" کی بجائے الفاظ ہوگیا ہے۔۔۔

آپ کی قیمتی آراء سے بہت کچھ جاننے کو ملا۔۔۔

بے حد شکریہ۔۔۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
کیا" گلی " میں یا کا اسقاط جائز ہے ؟ یا یہ بھی سنسکرت، برج بھاشا یا ہندی کے ان الفاظ میں سے ہے جس کی یا اصلی ہے ؟
 
میں طالب علم ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ لفظ ماجرا کے آخر میں جو الف ہے کیا اسے گرایا جا سکتا ہے یا نہیں کوئی بھائی رہنمائی فرمائے، شکریہ
 
Top