در اصل الفاظ کے اسقاط کا مسئلہ
یہ معاملہ میں زیادہ تر شاعر کی صوابدید پر چھوڑ دینے کا قائل ہوں۔ میرے نزدیک اولٰی یہ ہے کہ اسے یک حرفی ہی رکھا جائے۔ بعض اوقات برا نہیں لگتا تو باندھنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔
اس معاملے میں بھی کسی ایک رائے پر توقف درست نہیں۔
پہ کو اگر دو حرفی ہی باندھنا ہے تو ”پر“ کیوں نہ باندھا جائے؟ پہ کو پے کرنے کی ضرورت ہی نہیں اس لئے اسے ایسے باندھنے سے مکمل احتراز ضروری ہے۔
واقعی اہم سوال ہے! ایک بات یہ ضرور یاد رکھ لیں کہ شاعری صرف عروض کا نام نہیں ہے۔ عجمی عروض اور تقطیع کا عمل صوتیات پر مبنی ہے، اس لئے شاعر کو ضرور ہے کہ وہ اپنی زبان کے استاد شعرا کا کلام قرات کرے اور سمجھے کہ کس لفظ کو کہاں کس طرح باندھا گیا ہے۔ اب دیکھیں ہمارے یہاں ہائے مختفی کا بطورِ حرف کوئی وجود نہیں (بحوالہ بابائے اردو مولوی عبد الحق) بلکہ اس کا کام اپنے سے پہلے حرف کو مفتوح کرنا یا بتانا ہے۔ اب بعض شعرا اس پر سختی سے قائم ہیں کہ ہائے مختفی کو الف بنانا جائز نہیں۔ لیکن بوقت ضرورت اساتذہ نے بنایا بھی ہے۔ کچھ شعرا نے چند الفاظ جیسے نہ، کہ وغیرہ میں یہ قید لگائی ہے اور باقی الفاظ کو اس قید سے آزاد کردیا (مجھے یہ بات کچھ منطقی نہیں لگتی) تو آپ کو جیسے آسانی لگے اسی راہ کو اختیار کریں۔ بس صوتی طور پر لفظ برا محسوس ہو تو اس سے بچنا ضروری ہے۔
اوپر
محمد اظہر نذیر صاحب نے ماسٹر حمید اللہ ہاشمی صاحب کے حوالے سے جو بات لکھی اسے تھوڑی تصحیح کی ضرورت ہے۔ تفصیل یوں ہے کہ تقطیع میں صرف ان حروف کو گرایا جاتا ہے جو ملفوظی بھی ہوں اور مکتوبی بھی۔ جو حروف غیر ملفوظی ہیں انہیں گرانے کا کوئی سبب ہی نہیں کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً بالکل میں ”الف“ کا کوئی وزن نہیں کہ یہ غیر ملفوظی ہے اور گرانے کے لئے اس حرف کا وزن ہونا ضروری ہے یعنی اس حرف کا کم از کم ملفوظی ہونا ضروری ہے۔ یہی معاملہ دو چشم والی ھ کا ہے کہ اس کا سرے سے وزن موجود ہی نہیں اس لئے ہم اسے کبھی شمار ہی نہیں کرتے کہ گرانے کی نوبت آئے۔
لفظ کے آخر سے الف، واؤ اور ی کو عام طور پر گرانے کا اصول یہ ہے کہ اگر یہ حروف لفظ میں زائد ہیں تو انہیں گرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر اصلی ہیں تو انہیں شمار کرنا چاہئے۔
مثلاً عام ہندی برج بھاشا یا سنسکرت کے الفاظ میں جو الف ہے وہ گرانا مکروہ ہے۔ جیسے گھوڑا، بکرا، چھوٹا، لمبا وعلیٰ ہذٰاالقیاس۔ مگر اب اتنی محنت کون کرے کہ اصلی اور زائد حروف میں تمیز ہو سکے؟ اس کے لئے بہتر راستہ یا حیلہ کہیں کہ معتبر اور مستند شعرا کا کلام زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔
مزید کچھ کہنے سے گریز کروں گا کہ ابھی استاد محترم
محمد یعقوب آسی بھی آتے ہونگے۔
والسلام۔