صرف علی
محفلین
تقویٰ اور دھوکہ دہی
خالد ظہیر تاریخ اشاعت 01 مئ, 2014
شیئر کریں
ای میل
1 تبصرے
پرنٹ کریں
div.slideshow__item">
السٹریشن: فراز عامر خان۔۔۔
Ads by PassShowAd Options
جہاں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے وہیں سنگین مضمرات کی حامل ایک رپورٹ نے ملک میں بہت سوں کے ایمان کو جھنجھوڑا ہے-
کچھ عرصہ پہلے ڈان میں علماء مذہب اور کم از کم چالیس اماموں کے ایک گروپ کے ایک بہت بڑے فراڈ کی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کئی لوگوں کو، جن میں کئی یتیم اور بیوائیں بھی شامل تھیں، ایک مبینہ مضاربہ اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے گمراہ کیا- اس سے یہ متضاد رجحان سامنے آتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ، پرہیزگاری اور مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں وہی اکثر جھوٹ اور دھوکہ دہی سب سے زیادہ کرتے ہیں-
ان نام نہاد ایمان والوں کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسے مناسک کو انجام دینے سے وہ اپنے تمام گناہوں سے بری ہو جاتے ہیں- قرآن واضح کہتا ہے کہ خدا اپنے فیصلے ارادے اور نیت کی بنیاد پر کئے جانے والے اعمال کی بنیاد پر کرے گا نا کہ کسی فرد کے ظاہری اعمال پر- لہٰذا خود عمل نہیں، بلکہ اس کے کرنے والے کا مقصد اور عمل کا معیار ہی فیصلے کے نتائج پر اثر انداز ہوں گے-
اگر کوئی شخص مذہبی عمل اس لئے کرتا ہے تا کہ وہ کسی دوسرے انسان کے ساتھ کو اپنے ہاتھوں پہنچے نقصان کی تلافی کر سکے یا پھر دکھاوے کیلئے ایسا عمل کرتا ہے تو خدا کی نظروں میں ایسے عمل کی کوئی قدروقیمت نہیں-
دوسرے، جو لوگ مذہب کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ امید بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم (ص) کی شفاعت نصیب ہو گی جو کہ یقینا قبول بھی کر لی جائے گی- اس قسم کی شفاعت کی تردید سورة بقرہ میں تین جگہ کی گئی ہے- بروز قیامت، کوئی بھی کسی کی مدد کو نہیں آئے گا، کوئی بھی دوستی کام نہ آئے گی، کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی بھی قسم کی بیرونی مدد کام آئے گی (2:48; 2:123; 2:254)-
تاہم اس موقع پر صرف ایک خاص گروپ کے لوگوں کو رعایت ہو گی- یہ گروپ ان لوگوں کا ہو گا جن کے دنیا میں کئے گئے اعمال واضح نہیں ہوں گے لہٰذا انہیں جنت میں داخل کرنے کیلئے چند صورتوں میں کچھ غیر معمولی افراد کو ان کے لئے سفارش کرنے کی اجازت دے دی جائے گی- لیکن یہ صورتحال ان لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی جو ایسے گناہ کرتے ہیں جنہیں خدا نے کھلے اور واضح انداز میں حرام قرار دے دیا ہے، جیسے کہ بیواؤں اور یتیموں کے حقوق غصب کرنا-
یقینا اسے ہمیں مطمئن ہونے ہو کر دھوکہ دہی کرنے کا موقع نہیں سمجھنا چاہئے یا یہ امید رکھیں کہ کوئی آخرت میں ہمارے لئے سفارش کرے گا-
مذہبی ہونے کا دعوی کرنے والوں میں دھوکہ دہی کے وسیع پیمانے پر رجحان کی تیسری رائج وجہ خود ان کا دعویٰ ہے- وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں لہٰذا وہ کوئی بھی گناہ کر لیں لیکن دوزخ میں نہیں جائیں گے جبکہ دوسرے جنہیں وہ کافر سمجھتے ہیں، سزا ملے گی-
بدقسمتی سے یہی وہ سوچ ہے جو کہ بنی اسرائیل میں مقبول تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ ہیں لہٰذا ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور اگر آ بھی گیا تو وہ تھوڑے عرصے کے لئے ہو گا-
انسان کمزور ہے اور شیطان کے بھی بہکاوے میں آ جاتا ہے لہٰذا اس سے غلطیاں ہوتی ہیں- لیکن خدا، جو نہایت مہربان ہے، صرف اسی صورت میں معاف کرے گا اگر انسان اپنی غلطی پر نادم ہو کر خدا سے معافی طلب کرے- اسلام میں نادم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو فوری طور اپنی غلطی کا احساس ہو، وہ معافی طلب کرے، اس بات کا عزم کرے کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا اور اس غلطی کو دوبارہ نہ کرنے کی بھرپور کوشش کرے-
بدقسمتی سے جھوٹ کے حوالے سے چند لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ چند پیغمبروں نے بھی جھوٹ بولا تھا-
اس حوالے سے وہ حضرت ابراہیم (ع) کی مثال دیتے ہیں کہ جب انہوں نے تمام بتوں کو توڑا اور لوگوں سے کہا کہ تمام بتوں کو اس بت نے توڑا ہے جسے انہوں نے چھوڑ دیا تھا اور حضرت یوسف کی مثال کہ جب ان کے بھائیوں میں سے ایک کے تھیلے سے مشتبہ شاہی برتن کے بجائے عام برتن برآمد ہوا-
یہ وہ کہانیاں ہیں قرآن کو صحیح معنوں میں سمجھے بغیر صرف اس لئے توڑا مروڑا گیا ہے تا کہ لوگوں کے جھوٹ کی تائید ہو سکے- جہاں پہلے معاملے ضدی لوگوں کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ ان کا نقطہ نظر کتنا بیوقوفانہ ہے جبکہ دوسرے معاملے میں حضرت یوسف کو اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لئے خدا کی بے مثال مدد حاصل تھی- ان دونوں معاملوں میں غیر اخلاقی کچھ بھی نہیں تھا-
اگر لوگ قرآن کو کھلے ذہنوں کے ساتھ پڑھیں، دوسروں کے خیالات کو دھیان سے سنیں اور روادار رہیں، بنا اس بات پر دھیان دئے کہ دوسرے مذہب کے بارے میں کیا کہتے ہیں، ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر کہیں زیادہ بہتر انداز میں پرفارم کر سکتا ہے-
خالد ظہیر تاریخ اشاعت 01 مئ, 2014
شیئر کریں
ای میل
1 تبصرے
پرنٹ کریں
div.slideshow__item">
السٹریشن: فراز عامر خان۔۔۔
Ads by PassShowAd Options
جہاں مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے وہیں سنگین مضمرات کی حامل ایک رپورٹ نے ملک میں بہت سوں کے ایمان کو جھنجھوڑا ہے-
کچھ عرصہ پہلے ڈان میں علماء مذہب اور کم از کم چالیس اماموں کے ایک گروپ کے ایک بہت بڑے فراڈ کی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر کئی لوگوں کو، جن میں کئی یتیم اور بیوائیں بھی شامل تھیں، ایک مبینہ مضاربہ اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے گمراہ کیا- اس سے یہ متضاد رجحان سامنے آتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ، پرہیزگاری اور مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں وہی اکثر جھوٹ اور دھوکہ دہی سب سے زیادہ کرتے ہیں-
ان نام نہاد ایمان والوں کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسے مناسک کو انجام دینے سے وہ اپنے تمام گناہوں سے بری ہو جاتے ہیں- قرآن واضح کہتا ہے کہ خدا اپنے فیصلے ارادے اور نیت کی بنیاد پر کئے جانے والے اعمال کی بنیاد پر کرے گا نا کہ کسی فرد کے ظاہری اعمال پر- لہٰذا خود عمل نہیں، بلکہ اس کے کرنے والے کا مقصد اور عمل کا معیار ہی فیصلے کے نتائج پر اثر انداز ہوں گے-
اگر کوئی شخص مذہبی عمل اس لئے کرتا ہے تا کہ وہ کسی دوسرے انسان کے ساتھ کو اپنے ہاتھوں پہنچے نقصان کی تلافی کر سکے یا پھر دکھاوے کیلئے ایسا عمل کرتا ہے تو خدا کی نظروں میں ایسے عمل کی کوئی قدروقیمت نہیں-
دوسرے، جو لوگ مذہب کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں یہ امید بھی کرتے ہیں کہ نبی کریم (ص) کی شفاعت نصیب ہو گی جو کہ یقینا قبول بھی کر لی جائے گی- اس قسم کی شفاعت کی تردید سورة بقرہ میں تین جگہ کی گئی ہے- بروز قیامت، کوئی بھی کسی کی مدد کو نہیں آئے گا، کوئی بھی دوستی کام نہ آئے گی، کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی بھی قسم کی بیرونی مدد کام آئے گی (2:48; 2:123; 2:254)-
تاہم اس موقع پر صرف ایک خاص گروپ کے لوگوں کو رعایت ہو گی- یہ گروپ ان لوگوں کا ہو گا جن کے دنیا میں کئے گئے اعمال واضح نہیں ہوں گے لہٰذا انہیں جنت میں داخل کرنے کیلئے چند صورتوں میں کچھ غیر معمولی افراد کو ان کے لئے سفارش کرنے کی اجازت دے دی جائے گی- لیکن یہ صورتحال ان لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی جو ایسے گناہ کرتے ہیں جنہیں خدا نے کھلے اور واضح انداز میں حرام قرار دے دیا ہے، جیسے کہ بیواؤں اور یتیموں کے حقوق غصب کرنا-
یقینا اسے ہمیں مطمئن ہونے ہو کر دھوکہ دہی کرنے کا موقع نہیں سمجھنا چاہئے یا یہ امید رکھیں کہ کوئی آخرت میں ہمارے لئے سفارش کرے گا-
مذہبی ہونے کا دعوی کرنے والوں میں دھوکہ دہی کے وسیع پیمانے پر رجحان کی تیسری رائج وجہ خود ان کا دعویٰ ہے- وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں لہٰذا وہ کوئی بھی گناہ کر لیں لیکن دوزخ میں نہیں جائیں گے جبکہ دوسرے جنہیں وہ کافر سمجھتے ہیں، سزا ملے گی-
بدقسمتی سے یہی وہ سوچ ہے جو کہ بنی اسرائیل میں مقبول تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ ہیں لہٰذا ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور اگر آ بھی گیا تو وہ تھوڑے عرصے کے لئے ہو گا-
انسان کمزور ہے اور شیطان کے بھی بہکاوے میں آ جاتا ہے لہٰذا اس سے غلطیاں ہوتی ہیں- لیکن خدا، جو نہایت مہربان ہے، صرف اسی صورت میں معاف کرے گا اگر انسان اپنی غلطی پر نادم ہو کر خدا سے معافی طلب کرے- اسلام میں نادم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو فوری طور اپنی غلطی کا احساس ہو، وہ معافی طلب کرے، اس بات کا عزم کرے کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا اور اس غلطی کو دوبارہ نہ کرنے کی بھرپور کوشش کرے-
بدقسمتی سے جھوٹ کے حوالے سے چند لوگ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ چند پیغمبروں نے بھی جھوٹ بولا تھا-
اس حوالے سے وہ حضرت ابراہیم (ع) کی مثال دیتے ہیں کہ جب انہوں نے تمام بتوں کو توڑا اور لوگوں سے کہا کہ تمام بتوں کو اس بت نے توڑا ہے جسے انہوں نے چھوڑ دیا تھا اور حضرت یوسف کی مثال کہ جب ان کے بھائیوں میں سے ایک کے تھیلے سے مشتبہ شاہی برتن کے بجائے عام برتن برآمد ہوا-
یہ وہ کہانیاں ہیں قرآن کو صحیح معنوں میں سمجھے بغیر صرف اس لئے توڑا مروڑا گیا ہے تا کہ لوگوں کے جھوٹ کی تائید ہو سکے- جہاں پہلے معاملے ضدی لوگوں کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ ان کا نقطہ نظر کتنا بیوقوفانہ ہے جبکہ دوسرے معاملے میں حضرت یوسف کو اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لئے خدا کی بے مثال مدد حاصل تھی- ان دونوں معاملوں میں غیر اخلاقی کچھ بھی نہیں تھا-
اگر لوگ قرآن کو کھلے ذہنوں کے ساتھ پڑھیں، دوسروں کے خیالات کو دھیان سے سنیں اور روادار رہیں، بنا اس بات پر دھیان دئے کہ دوسرے مذہب کے بارے میں کیا کہتے ہیں، ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر کہیں زیادہ بہتر انداز میں پرفارم کر سکتا ہے-