سیما علی
لائبریرین
تقوی کی حقیقت
تقوی کی تشریح کرتے ہوئے ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ۔ بعض طبیعتیں محتاط ہوتی ہیں ،بعض بے پرواہ ہوتی ہیں ۔ جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے ۔ وہ ہر بات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں ،اچھے برے ،نفع ونقصان ،نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں ۔ جس بات میں برائی پاتے ہیں ،چھوڑ دیتے ہیں ۔ جس میں اچھائی دیکھتے ہیں ،اختیار کر لیتے ہیں ۔ برخلاف اس کے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں ۔ ان کی طبیعتیں بے لگام اور چھوٹ ہوتی ہیں ۔ جو راہ دکھائی دے گی ۔ چل پڑیں گے ۔ جس کام کا خیال آگیا کر بیٹھیں گے ۔ جو غذا سامنے آگئی کھا لیں گے ۔ جس بات پر اڑنا چاہیں گے ،اڑبیٹھیں گے ۔ اچھائی برائی ،نفع ونقصان ،دلیل اور توجہ کسی کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی
جن حالات کو ہم نے یہاں احتیاط۔ ؛ سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقوی سے تعبیر کرتا ہے ۔ متقی یعنی ایسا آدمی جو اپنے فکر و عمل میں بے پرواہ نہیں ہوتا ۔ ہر بات کو درستگی کے ساتھ سمجھنے اور کرنے کی کھٹک رکھتا ہے ۔ برائی اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے ۔ اچھائی اور فائدہ کی جستجو رکھتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ۔ ایسے ہی لوگ تعلیم حق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اور کامیاب ہوسکتے ہیں
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ تقوی کی حقیقت کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ،کیا تم کبھی ایسے راستےمیں نہیں چلے جس میں کانٹے ہوں ۔ فرمایا ،ہاں !۔ کہا اس حالت میں تم نے کیا کیا ۔ فرمایا،میں نے کوشش کی، کانٹون سے بچ کر نکل جاوں ۔ کہا ،یہی تقوی کی حقیقت ہے ۔
ترجمان القرآن از ابوالکلام آزاد
تقوی کی تشریح کرتے ہوئے ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ۔ بعض طبیعتیں محتاط ہوتی ہیں ،بعض بے پرواہ ہوتی ہیں ۔ جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے ۔ وہ ہر بات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں ،اچھے برے ،نفع ونقصان ،نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں ۔ جس بات میں برائی پاتے ہیں ،چھوڑ دیتے ہیں ۔ جس میں اچھائی دیکھتے ہیں ،اختیار کر لیتے ہیں ۔ برخلاف اس کے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں ۔ ان کی طبیعتیں بے لگام اور چھوٹ ہوتی ہیں ۔ جو راہ دکھائی دے گی ۔ چل پڑیں گے ۔ جس کام کا خیال آگیا کر بیٹھیں گے ۔ جو غذا سامنے آگئی کھا لیں گے ۔ جس بات پر اڑنا چاہیں گے ،اڑبیٹھیں گے ۔ اچھائی برائی ،نفع ونقصان ،دلیل اور توجہ کسی کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی
جن حالات کو ہم نے یہاں احتیاط۔ ؛ سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقوی سے تعبیر کرتا ہے ۔ متقی یعنی ایسا آدمی جو اپنے فکر و عمل میں بے پرواہ نہیں ہوتا ۔ ہر بات کو درستگی کے ساتھ سمجھنے اور کرنے کی کھٹک رکھتا ہے ۔ برائی اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے ۔ اچھائی اور فائدہ کی جستجو رکھتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ۔ ایسے ہی لوگ تعلیم حق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اور کامیاب ہوسکتے ہیں
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ تقوی کی حقیقت کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ،کیا تم کبھی ایسے راستےمیں نہیں چلے جس میں کانٹے ہوں ۔ فرمایا ،ہاں !۔ کہا اس حالت میں تم نے کیا کیا ۔ فرمایا،میں نے کوشش کی، کانٹون سے بچ کر نکل جاوں ۔ کہا ،یہی تقوی کی حقیقت ہے ۔
ترجمان القرآن از ابوالکلام آزاد