طارق شاہ
محفلین
پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی !
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ !
ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح
جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے !
ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر طرح
چُھپ، لگ کے بام و دَر سے، گلی کوُچے میں سے، میرؔ
مَیں دیکھ لوُں ہُوں یار کو ، اِک بار ہر طرح
مِیر تقی مِیؔر
مَیں دیکھ لوُں ہُوں یار کو ، اِک بار ہر طرح
مِیر تقی مِیؔر