''تلاشِ خوشی۔۔''
ایک حساب کرتا ہے انسان اور خسارہ کرتا ہے ، وقت سے تتلیوں کی قید مانگتا ہے مگر اس سمے جگنوؤں کو آزاد کرتا ہے ۔پہاڑ پر چڑھ کر کہتا ہے دنیا فتح کر لی مگر نیچے اس سے دیکھا نہیں جاتا کہیں گر نہ جائے، آشیانوں کو تباہ کرکے جنت بناتا ہے سوچتا تک نہیں جو تباہ کرتا ہے اس عمارت کی خاکستر راکھ ساتھ لے آیا ۔ خوشیوں کے پیچھے بھاگتا ہے الم و درد کے گرداب میں پھنس جاتا ہے ۔ اپنی حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے ۔ زندگی دائروں میں رواں دواں ہے انسان ایک دائرہ چھوڑ کر اوپر والے دائرے میں جاتا ہے اوپر جانا ایک دھوکہ ہوتا ہے
زندگی میں رشتوں کی کامیابی کا انحصار کسی چیز یا مقصد کے حصول سے نہیں ہوتا یا اپنی تعین کردہ منزل تک پہنچ جانے پر ہوتا ہے ۔بلکہ زندگی کے سمندر میں اچانک آجانے والے طوفان یا صحرا میں آنے والے بگولوں میں زندگی کو اس طرح محسوس کرنا جس طرح آپ اپنا مقصد پا کر کرتی ہے ۔ بلکہ یہ خوشی حاصل کردہ مقصد سے کہیں گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ جب آپ کسی چیز سے پیار کرتے ہیں اس کی محبت میں سب کچھ بھول جاتے اس کی برائیاں اور اکثر اوقات تو برائیاں بھی اچھائیاں لگتی ہیں ۔ اسطرح جب زندگی سے پیار کرتے ہیں اس کی ناکامی میں جینا سیکھ جاتے ہیں ۔ جب سیکھ جاتے ہیں تو زندگی سہل لگنے لگتی ہے ۔بعض اوقات ہم زندگی کو مشکل خود بنا لیتے ہیں ۔خوشیوں اور خواہشوں کی تقسیم کرکے کرتے ہیں ۔اس عمل میں میں زندگی ہمیں تقسیم کرتی ہیں اور آخر میں خسارہ ہمارے مقدر بن جاتا ہے
٭٭٭٭٭
''حقیقت تلخ نہیں ہوتی جتنا ہم اس کو سمجھنے لگتے ہیں ۔ یہ ایک نقاب ہوتا ہے جو آگہی اور شعور دیتا ہے ۔“پرابلم یہ ہے کہ ہم انجان اور معصوم بن کر خود کو غلط فہمی کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں ۔ بعد میں سچائی کا تلخ سورج ہمیں تپتے صحرا میں لا کھڑا کرتا ہے۔''
حسان لندن میں سمندرکے کنارے کھڑا سوچ رہا تھا ان لہروں کے پاس وہ کافی عرصے بعد آیا تھا وہ اس کو بھاتی تھی شاید سمندر کی لہروں میں اس کو اپنا عکس نظر آتا تھا۔ وہ کافی عرصے بعد ساحل کے کنارے آیا تھا ۔۔ کچھ دنوں سے بہت پریشان تھا ۔شاید اس کو زندگی سے اکتاہٹ ہونے لگے تھی ۔۔۔۔! پھر سوچ میں پڑ گیا۔۔!
''اگر میں نے خود کو خدا نہ سمجھا ہوتا اور اپنی حدود تجاور نہ کر گیا ہوتا تو میں بھی آج سمندر کی کنارے کے بجائے ایک خوش باش ہنستے ہوئے گھرانے میں ہوتا۔مگر مجھے تو اپنی بڑائی پر بہت مان تھا کہ میں خدا ہوں پر یہ بت اب پاش پاش ہوگیا۔۔۔میں نے آج تک خوشیاں خریدی ہیں اور نہ جانے کتنوں کی خوشیاں بیچ کر اپنی لیں مگر اس قرض کا احساس مجھے بہت دیر سے ہوا ہے ۔شاید اس بوجھ کا احساس کبھی ہوتا بھی نہیں جب تک میں بھی یہ نہ جان پایا کہ میری خوشی بھی کوئی خرید سکتا ہے ۔میں خود کو لبرل کہتا تھا مگر آج احساس ہو رہا ہے ہم چاہے لبرل ہو یا کنزروتو چاہے اپر کلاس ہو یا لوئیر کلاس ہم سب پر وقت آتا ہے اور وقت بہت ظالم ہوتا ہے ۔ بڑے بڑے مطلق العنان آئے اور اس کی لہروں میں غرقاب ہو گئے۔''
''مجھے آنے والے وقت کا گمان ہو رہا ہے ۔میرا دل ڈر رہا ہے ، میں تو کامیاب رہا ہوں ہر مقصد میں ،مجھے خدشے کیوں کھا رہے ہیں ۔۔؟ ''
''میں شاید اپنے اکیلے پن سے تنگ آگیا ہوں ۔۔ یا مجھے عابدہ کا سرد رویہ کھٹک رہا ہے یا میری جان سے پیاری ننھی گڑیا جو اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہے واہموں میں مبتلا کر رہی ہے کچھ تو ایسا ہے جو دل میں کھٹک رہا ہے ''
حسان خود سے محوِ کلام تھا عمر کے اس حصے میں آکر وہ اکثر خود سے ہی باتیں کیا کرتا تھا ۔۔ اور اس کی خود کلامی کا سلسلہ اکثر طویل ہونے لگا ۔۔!
'ہاں،'' سنو لہروں۔۔۔!!!
میرے اندر کا شور تم تو سن لو۔۔۔۔!! پاش پاش خدائی کے بت کو اپنی لہروں میں لے جاؤ ۔۔ ارے سن لو ۔۔ تم اتنی تیز مت بنو ۔ کیوں آ جارہی ہو ۔ مجھے تمہارے شور سے ڈر نہیں لگ رہا ۔ذرا اپنے شور کا میرے اندر کے شور سے مقابلہ کرو ۔ ۔۔ ''
پھر حسان کی پاؤں کی رفتار بھی نرم نرم ساحلی مٹی پر تیز ہوگئی بالکل لہروں کی رفتار جیسی ۔۔ شاید ایک بارپھر انجانے میں مول لگا رہا تھا ۔۔ یا جانچ پرکھ میں تھا۔۔ ساتھ مڑ کر دیکھتا اپنے پاؤں کے نشانوں کو۔۔جیسے کے وہ لہروں کی سازش دیکھنا چاہتا ہو مگر وہ اسکے دیکھنے سے پہلے ہی اوجھل ہو جاتیں ۔ اس کے پاؤں کے نشان کہیں نہیں تھے۔ وہ ڈورنے لگا یہ دیکھنے کے لیے کہ اُس کےپاؤں کے نشان کہاں کہاں ہیں۔۔ پھر دوڑتے دوڑتے تھک گیا اور صرف چند ہی نشان ڈھونڈ پایا۔۔اور وہ چند نشان جو بننے کے بعد مٹنے لگتے اُس پُر سکون کر گئے۔۔آخر وہ ان کو نظر بھر کو ہی دیکھ تو سکتا ہے ۔ وقت کی طرح یہ بھی ماضی کےنقش مٹا دیتے ہیں یا پھر اسکی ہیئت بدل دیتے ہیں۔۔
٭٭٭٭٭٭
وہ رات کو خواب دیکھ رہا تھایا جاگتے میں سب اس پر وارد ہو رہا تھا وہ اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔ حسان کو لگا وہ جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہے ۔۔ خواب بڑا حسین تھا ۔۔بڑے طویل عرصے بعد اسکے بابا اسکے خواب میں آئے تھے ۔ مگر وہ اُداس تھا کہ اُن کی وفات پر تو وہ نہیں جا سکا ۔ خواب کیا تھا ۔۔ ایک عالیشان منظر تھا یا بچپن کی مقید یاد جو اب ہولے ہولے اس کو عیاں کر رہی تھی وہ کیا سے کیا ہوا اور واپسی کا سفر کتنا دشوار ہوتا ہے ۔۔اذیت ہی اذیت۔۔۔خواب یادوں کا مرقع تھا حسین بھی تھا اس لیے خوشی ہوئی مگر یاد اپنے ساتھ درد کو ساتھی بنا کر لائی اور درد نے رنج بھی دیا۔
حسان نے خود کو ہجوم میں پایا ۔۔ کوئی عالمی ہجوم تھا۔۔ ایسا مجمع جس میں بھگ ڈر بھی بڑی منظم سی تھی۔۔شور میں سکون تھا ۔۔یا شاید شور نہیں تھا موسیقیت تھی ۔۔ ایسی موسیقی کہ دل میں جمع کدورتوں کو دھو ڈالے۔۔ایک ہی فریکوئینسی میں سب کلمہ پڑھ رہے تھے ۔ اور کلمہ کا تاثر اس کو دل پر محسوس ہورہا تھا ۔ جیسا کہ کوئی اسکو جھنجھوڑ رہا ہے ۔۔۔
''میں کس سمت جارہا ہو ۔۔ میں طواف کررہا ہوں ۔۔؟؛''
'' لوگ گول چکر لگا رہے ہیں ۔۔۔ وہ کیوں دائروں میں گھوم رہے ہیں ۔۔''
پھر اسکو ایک اور اآواز سنائی دی جو اسکے لئے اجنبی نہ تھی بلکہ بہت زیادہ دل کے قریب وہ اسکے بابا جان کی آواز تھی ۔۔۔۔
'' لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَشَرِيْكَ لَكَ۔۔!!!''
یہ آواز تو بابا کی تھی اور جو اسکو اکثر بچپن میں سننے کو ملتی ایسا لگتا جیسا اسکے بابا کو اللہ تعالیٰ کا گھر دیکھنے کی شدید خواہش تھی ۔۔ پر وہ یہ خواہش پوری نہ کرواسکے حسرت دل میں لیے اس دنیا اسے چلے گئے ۔
خواب کی فریکوئینسی بار بار بدل رہی تھی جیسا کہ مختلف جگہیں آپس میں تصادم ہوں ۔ حسان کے بابا بہت جوان لگ رہے تھے وہ خود ایک چھوٹا سا بچہ ۔۔بڑی معصومیت سے پوچھ رہا تھا ۔۔
''بابا لبیک کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ با با۔۔!! مجھے بتاؤ نہ ۔۔۔ ''
''بابا کی ننھی جان ۔۔۔!! اس کو تلبیح کہتے ہیں ۔۔'' اور میرا پیارا سا حسان مجھے حج کرائے گا۔۔ کیوں کرائے گا نہ ۔۔؟ ''
منظر بدل گیا ۔۔ اس نے خود کو بالکل حجر اسود کے سامنے کھڑا پایا۔۔اسکو چوما اور دعا مانگی ۔۔۔
''اے اللہ مجھے کوئی تحفہ اپنی طرف سے نواز کہ اب میں زندگی کی دو غلیت سے تنگ آگیا ہے ۔۔ پروردگار میرے گناہوں پہ پردہ ڈال دے مجھے اپنی جناب میں لے لے ۔۔۔''
ابھی وہ سامنے ہی کھڑا تھا اسکو غشی آگئی ۔ وہ وہاں پر سو گیا۔ اور اس نے بہت عجب سماع میں خود کو پایا ۔۔
'' سب کچھ دھندلا سا تھا ۔۔ خواب میں ایک اور خواب ۔۔ سب کچھ سفید تھا ۔۔ روشن سفید ۔۔نور سے بھرپور ۔۔ اس نے دیکھا کوئی طواف کر رہا ہے ۔۔کسی نورانی ہالے کے گرد ۔۔ اور اس طواف کی اپنی موسیقیت ۔۔ طواف میں ردھم اس کو مانوس سی لگی ۔ اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔۔ بھاگنے کی ناکام کوشش وہ اس کو پکڑ نہ سکا۔مگر اس چہرے کی اک جھلک دیکھ پایا تھا وہ انعم کا چہرا تھا۔۔۔
'' پھر غیب سے اک آواز آئی ہم نے تجھے حسان اک تحفہ سے نوازا ہے ۔۔ تو نے مانگا تجھے مل گیا ۔۔اب اسکی حفاظت کرنا ،، ورنہ بڑا نقصان اٹھائے گا۔۔۔''
تصاویر کا تصادم ہو رہا تھا ۔۔۔ بابا نظر آرہے تھے وہ دوحہ سے ملنے آیا تھا۔۔ بابا میں انعم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔ بابا۔۔ آواز میں ارتعاش۔۔ میں مر جاؤں گا ۔۔ کچھ کرو۔۔
''حسان ۔۔!!! میرا پیارا بیٹا وہ کیوں مرے گا۔۔میرا بیٹا۔۔بابا کی جان۔۔ کہوں تو آج ہی شادی کرادوں ۔۔۔ تم سے بڑھ کر عزیز کیا مجھے ۔۔۔!!!
'' بابا۔۔۔بابا ۔۔۔!! مجھے تھام لو میں اپنی حالت بیان نہیں کر سکتا ، مجھ پر جو کشف ہوا اس کو کلام میں لا نہیں سکتا ۔۔ بابا میرے پاس کہنے کے لیے جو تھا وہ کہ دیا ۔۔۔''
وہ گرنے لگا پر اسکو تھام لیا نرمی سے مگر مضبوط پناہ نے ۔۔ اسکے بابا نے جوان و توانا حسان کو اپنی گود میں لے لیا۔۔
ایک زور دار دھماکہ ہو اتھا ۔۔جیسے کسی نے فوٹان میں ڈھلے حسان کو کسی اور وادی میں لا پھینکا ہو ۔۔ اس کا سر درد کر رہا تھا۔۔ شور ۔۔ دھول کی تھاپ ۔۔ ناچ گانا۔۔ بس ۔۔ اسکو مانگا ہوا تحفہ مل گیا۔۔۔ وہ اتنا خوش تھا کہ اس نے خود ناچ شروع کر دیا۔۔۔ وہ اس کی شادی کا دن تھا ۔اس بے چین جی کو آج قرار آیا تھا ۔
''حسان۔۔میرے بیٹے آج تم نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے مجھے بھائی کے آگے سرخرو کردیا ہے ۔۔اس دنیا سے جاتے وقت کہ گئے تھے میری انعم تمہارے حوالے ۔۔ میں نے آج تک تمہیں یہ بات نہیں کہی کیونکہ مجھے تم بہت عزیز تھے ۔۔میرا بیٹا ۔۔۔ میری دعا تمہارے ساتھ ۔۔''
منظر پھر بدل رہا تھا پھر الیکڑانک امیجنگ ٹرانسفر ہورہی تھی مگر ایسا لگ رہا تھا حسان خود وہاں ہے ۔۔ وہ کوئی ایئر پورٹ لگ رہا تھا۔۔ بابا کی آنکھوں میں انسو تھے ۔۔ شکوہ تھا۔۔ ان کا بیٹا سب کچھ چھوڑ کر اپنے بیٹے ننھے سے بیٹے اور ان کے پوتے کو چھوڑ کر جارہا تھا۔۔۔انعم ۔۔ وہ خاموش ہمیشہ کی طرح جو بات دکھ دیتی تھی کبھی ظاہر نہیں کرتی تھی ۔۔ اسکا چھوٹا بھائی ۔۔ منان ۔۔اس سے لپٹ گیا۔۔
'' بھیا۔۔!! بھیا۔۔۔!! مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔ میں اداس ہو جاؤں گا۔۔۔ مجھے آپ یاد آؤں گے بہت ۔۔''
جانے والے نے مڑ کر نہ دیکھا ۔۔ آگے بڑھنے کے لیے پیچھے نہ دیکھنا ملزوم ہے اور ترقی پسند اس بات کو جانتے ہیں۔
ابھی لاشعور کے در کچھ اور وا ہونے باقی تھے ۔۔ حسان کا تنفس بند ہو رہا تھا۔۔ وہ اس طرح اٹھا جس طرح کوئی مردہ کو کہا جاتا ہے ''قم بااذن اللہ'' اور وہ اٹھ جاتا ہے بالکل اسی طرح وہ بھی اٹھ بیٹھا۔۔۔ جیسا کہ موت کے بعد سے اٹھا ہو ۔۔ اور اسکا پورا جسم کانپ رہا تھا ۔۔سردی لگ رہی تھی کہ برف خانے سے جیسے اسکو نعش کو واپس بھیج دیا گیا ہو ۔۔
وہ اٹھا اور لان میں چہل قدمی کرنے لگا۔۔ ساتھ لیٹی ہوئی اسکی بیوی مدہوش سوئی ہوئی تھی اسکو خبر ہی نہ تھی کہ کیا ہوا۔۔ حسان سوچ رہا تھا اچھا ہوا ہے وہ نہیں اٹھی ورنہ اسکو بہت وضاحتیں دینا پڑتی ۔۔لان میں مٹی پر بیٹھ گیا لا شعوری طور پر کبھی آسمان کو دیکھتا اور کبھی مٹی کو اور رحم کی اپیل مانگنے لگا۔۔ اسے انجانا سا خوف محسوس ہورہا تھا ۔۔پھر اسکو لگا اُوپر والا شاید اب اسکی نہیں سنے گی ۔۔جو اللہ کی عطا کو ٹھکرا دیتے ہیں وہ اس کے رحم کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔۔اس نے زندگی میں پہلی دفعہ رونا شروع کیا ۔۔ اور روتا چلا گیا۔۔۔ اتنا کہ آواز اس کی رندھ گئی ۔۔اور وہیں ویسے کا ویسے پڑا رہ گیا ۔۔ ۔!!
٭٭٭٭٭٭
صبح اسکی آنکھ کھلی توسب سے پہلے منہم کا خیال آیا ۔۔ اسکی بیٹی ۔۔ ننھا سا پھول ۔۔ جو ابھی ہائی سکول میں تھی ۔۔ اسکے کمرے میں بھاگا ۔۔۔۔ منہم سوئی تھی ،۔۔ وہ اسکو اس طرح آوازیں دینے لگا جس طرح وہ مر گئی ہو ۔۔
''منہم ۔۔۔۔۔ منہہم ۔۔۔ منہم۔۔۔۔۔۔۔'' اور منہم آنکھ نہیں کھول رہی تھی
شاید اس نے ڈرنک کیا ہوا تھا مغرب میں رہ کر معیوب کام بھی انسپائرنگ لگتے ہیں اس لئے حسان کو کبھی برا نہ لگا، اور وہ جانتا تھا کہ وہ ڈرنک کرتی پر اسکو برا نہیں لگتا تھا ۔۔آج ایک انجانا سا خوف محسوس ہوا۔۔ وہ منہم کو جھنجھوڑنے لگا ۔۔ اور اسکو اتنا ہلایا کہ بالاآخر وہ ہڑبڑا کر اٹھی ۔۔
بابا'' آپ ' کیا ہوا۔۔۔۔ آپ ڈرے ہوئے کیوں ہیں ۔۔۔''
''میرا بیٹا منہم ۔۔۔ اٹھو ساماں باندھو ۔۔پاکستان چلتے ہیں ۔۔ بیٹا میں ہاتھ جوڑتا ہوں چلو میرے ساتھ ۔۔ مجھے آنے والا وقت عفریت کی طرح ڈرا رہا ہے ''
حسان نے اپنے ہاتھ اسکے آگے بڑھا دیے ۔۔ ابھی ایسا ہوتا وہ منہم کے پاؤں میں گرتا اس نے حسان کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔۔
''بابا' کیا کر رہے ہیں ۔۔ آپ بس روئیں نہیں آپ جیسا کہیں گے میں ویسا کروں گی ۔۔ مجھے ایک دن تو دیں نہ میں اپنے سب دوستوں کو بتادوں۔۔''
حسان نے ہاں میں سرہلا کر منہم کو ساتھ لگا لیا۔۔اور وہ رو رہا تھا ۔۔ اتنا کہ اُس کے آنسو منہم کے کپڑے بھگو رہے تھے
اب حسان سوچ رہا تھا وہ اپنے بھائی منان سے کس طرح سامنا کرے گا۔۔ اور بھابھی ۔۔ نہیں اسکی سابقہ بیوی ۔۔انعم سے کس طرح سامنا کرے گا ۔۔کس طرح کی صفائی دے گا وہ بابا کی وفات پر نہیں آیا جب اسے بتایا گیا تھا وہ آخری لمحات میں کس طرح اس کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔ اور وہ تو اپنے بیٹے کا نام تک نہیں جانتا کس طرح اس کا سامنا کرے گا اب تو وہ جوان ہو گیا ہوگا۔۔ مگر وہ منہم کے لئے سب کچھ سامنا کرنے کے لئے تیار تھا۔۔ انجانے اندیشے اسکو تڑپا رہے تھے
''عابدہ۔۔۔!
''سنو عابدہ میری بات غور سے سنو ۔۔۔!!''
'' ہم پاکستان جا رہے ہیں تم بھی چلو گی نا ۔۔۔تمہیں پتا ہے میں نے ہمیشہ عقل سے کام لیا ہے آج بھی ایسا ہی ہے ۔۔یہ فیصلہ اچانک نہیں ۔۔ اکژ سمندر کا شور مجھے یہ کہتا ہے اب تمہارا بوجھ کوئی نہیں اٹھائے گا اپنا کیا بھگتو گے تم ۔۔ میں ساحلوں سے مل کر آتا ہوں پانیوں سے باتیں کرتا ہے ۔۔پانی اس دفعہ مجھے ڈبونا چاہتا ہے ۔۔''
''اتنی اچانک ۔۔۔کیا ہوگیا ہے حسان یہ اچانک کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔۔سب کچھ تو یہاں پر سیٹ ہے اور آپ کہ رہے ہیں پاکستان جانے کا ۔۔میں اتنی اچانک کیسے جاسکتی ہوں ۔۔ میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتی مجھے تو آپ کا جانا بھی بچکانہ لگ رہا ہے ۔۔ پاکستان سے نفرت تھی آپ کو ۔۔پھر اچانک کیوں پیار جوش مار رہا۔۔''
عابدہ ،،سنو ،میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا ۔۔۔ خدا را میری بات سن لو۔۔۔ ''
اس کی حالت دیدنی تھی جیسے ابھی موت آکر اسکا دروازہ کھٹکھٹانے والی ہے ۔ وہ ہوش و خرد سے بے پرواہ التجائیں کر رہا تھا ۔ مگر مقابل بیٹھی عابدہ پر اس کا اثر نہیں ہو رہا تھا ۔۔ ! اور ایک دم اسے طیش آیا اور واک آؤٹ کر گئی۔
''مسٹر حسان ۔۔۔۔۔۔!!!'' یو آر ناٹ ان یور سنسز، بہت ہو چکا یہ ڈرامہ میں پاکستان ہر گز نہیں جا سکتی مجھے سمندروں اور ساحلوں کی کہانی مت سناؤ ۔۔ وقت کا راگ مت الاپو ۔۔۔ اگر جانا ہے تو تم جاؤ مگر مجھے اس جھنجھٹ میں مت دھکیلو ۔۔۔اٹس مائی فائنل ڈیسژن۔۔''
حسان کو وہیں چپ لگ گئی اور وہ اپنے اور منہم کے بیگ پیک کرنے لگ گیا۔۔پرسوں اس کو پاکستان کے لیے روانہ ہونا تھا ۔۔لاچار وہاں سے اٹھا اور فیصلہ کر لیا کہ وہ اور منہم پاکستان جائیں گے ۔۔۔
٭٭٭٭٭٭
منہم صبح بابا کو بتا کر گئی کہ وہ دوستوں کو بتادے آج کہ وہ پاکستان جارہی ہو ۔ اسکو اصل میں فکر تھی کہ وہ روحان کو بتادے وہ اسکا بچپن کا دوست تو نہیں تھا مگر دو سال ہو گئے تھے دوستی کو ۔۔۔ اس نے روحان ، سارہ اور ارجن کو فون کرکے رات بتا دیا تھا اس کا مقصد تھا پاکستان جانے سے پہلے گیٹ تو گیدر ہو جائے ۔حسان کو وہ بتا کر گئی تھی ۔۔
آج وہ آفس نہیں گیا تھا جانتا عابدہ کام کو ہینڈل کرلے گی ۔ خود لائیبریری میں گھس گیا۔۔۔ کتابوں پر مٹی اور دھول اٹی تھی جو بتارہی تھی اسکو شوق دھول دھول ہوگیا ۔۔آج وہ اس دھول میں سے کیا لینے آیا ۔یہ بات حسان کو بھی نہیں پتا تھی ۔مگر وہ کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا ڈھونڈرہا ہے ۔ ماضی ڈھونڈ رہا تھا وہ ماضی جو دھول اور خاک ہوچکا تھا جس کے خال و خد مٹ چکے تھے اور جاتے نشان ترستی نگاہ کے متحمل نہ تھے پر آج کوئی ان پر ترستی نگاہ ڈالنے آگیا تھا ۔اس کی نظر ایک ڈائری پر پڑی شاید وہ اسکو ڈھونڈ رہا تھا۔ اس پر اٹی خاک کو اس نے صاف کیا۔ اس کو پڑھنا شروع کیا پر اس سے پہلے اسکو بوسہ دیا جو شاید وقت پر نہ ہو جانے کی وجہ سے لاچاری کی تصویر تھی ۔ یہ پاکستان سے جاتے ہوئے انعم نے اسکو تھما دی تھی ۔۔۔ اس نے اسکو کھولنے کی زحمت تک نہ کی ۔پھر اس میں لکھی شاعری پڑھنے لگا ۔۔ اس کا دل رو رہا تھا اور آنکھ نم تھی ۔۔۔ اور ان کو ساتھ ساتھ بولنے لگا۔۔
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
تمہاری پوروں کا لمس اب تک
مری کفِ دست پر ہے
اور میں سوچتا ہوں
وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے
وہ کہہ گئے تھے
کہ اب کے جو ہاتھ تیرے ہاتھوں کو چھو گئے ہیں
تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہیں
وہ کہہ گئے تھے
تمہاری پوریں
جو میرے ہاتھوں کو چھو رہی تھیں
وہی تو قسمت تراش ہیں
اور اپنی قسمت کو
سارے لوگوں کی قسمتوں سے بلند جانو
ہماری مانو
تو اب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
میں اُس سمے سے
تمام ہاتھوں
وہ ہاتھ بھی
جن میں پھول شاخوں سے بڑھ کے لطف نمو اٹھائیں
وہ ہاتھ بھی جو سدا کے محروم تھے
اور ان کی ہتھیلیاں زخم زخم تھیں
اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جیسے تھے
اور رستے میں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑھے تھے۔
وہ ہاتھ بھی جن کے ناخنوں کے نشان
معصوم گردنوں پر مثال طوق ستم پڑے تھے
تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے
دست کش یوں رہا ہوں جیسے
یہ مٹھیاں میں نے کھول دیں تو
وہ ساری سچائیوں کے موتی
مسرتوں کے تمام جگنو
جو بے یقینی کے جنگلوں میں
یقین کا راستہ بناتے ہیں
روشنی کی لکیر کا قافلہ بناتے ہیں
میرے ہاتھوں سے روٹھ جائیں گے
پھر نہ تازہ ہوا چلے گی
نہ کوئی شمع صدا جلے گی
میں ضبط اور انتظار کے
اس حصار میں مدتوں رہا ہوں
مگر جب اک شام
اور وہ پت جھڑ کی آخری شام تھی
ہوا اپنا آخری گیت گا رہی تھی
مرے بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھیاں میں نے کھول دیں
اور میں نے دیکھا
کہ میرے ہاتھوں میں
کوئی جگنو
نہ کوئی موتی
ہتھیلیوں پر فقط مری
نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں
اور ان میں
قسمت کی سب لکیریں مٹی ہوئی تھیں۔
حسان اس کو پڑھتا جا رہا تھا اور شدت سے روتا جارہا تھا ۔وہ آج تک نہیں رویا تھا مگر جب رویا تھا دریا اور ندی کا شور مات کھا گیا ۔۔ سمندر کی خاموشی کو پیچھے چھوڑ گیا۔۔ اس نے ڈائیری کو چومنا شروع کر دیا جیسا کہ یہ عقیدت کی چیز ہے ۔۔پھر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھنے لگا۔ خود کو اپنے عکس کو بار بار پانی کے چھینٹے مارتا شاید اس کا عکس بدل جائے پر وہ اور زیادہ ہیبت ناک ہوتا جا رہا تھا۔ وہ وہاں سے بھاگا جیسے کے کوئی آسیب ہو۔۔شاید آسیب بہت اصلی اور حقیقت کے قریب تھا۔ حسان نے خدا کی محبت کو ٹھکرا دیا تھا ۔۔ اس نے محبت میں تحفہ دیا اس کو ٹھکرا دیا تھا۔۔ پھر اپنے پیدا کرنے والے شفیق اور نرم باپ کی محبت کو ٹھکرا دیا اس کے بعد انعم کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ اپنے بیٹے کو محبت کا سایہ دینے سے ٹھکرا دیا ۔ اس نے لات مار دی محبتوں پر ان کی توہین کی ۔ محبت نے اسکو وقت دیا۔محبت طوفان کی طرح ہوتی توہین برداشت نہیں کرتی جو اس کی تو ہین کرتا وہ اس کا انجام کبھی کبھی نہ پاتاہے ۔محبت اپنی کی گئی توہین کا انتقام کبھی نہیں بھولتی ۔ اس نے اتنی محبتوں کو ٹھکرایا تھا کیا وہ اپنی محبت کو بچا پائے گا۔۔۔ اس کا فشار خون بلند ہونے لگا ۔۔حسان نے پاکٹ سے گولیاں نکالیں اور دوائی کھائی ۔۔ مگر بعض اوقات دوایاں بھی افاقہ کرنا چھوڑ دیتی ہیں ۔۔
اصل مرہم وقت ہے افسوس اصل زخم بھی وقت ہے ۔ وقت بھی پانی کی طرح کبھی بارش بن جاتا ہے اور کبھی طوفان ۔۔ وقت کا زخم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرہم بن جاتا ہے ۔ اور اگر وقت کو داؤ دے جاؤ تو یہ تمہیں اس وقت دغا دیتا ہے جب آپ کی فرار کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ۔۔اور خنجر ہاتھ میں لیے سامنا آتا ہے مجرم جب خونی قاتل کا دیکھتا ہے تو بھاگتا ہے ۔۔ اس سے بھاگنا بے معانی سا ہوجاتا ہے کیونکہ فرار مجرم کی جائے مقام نہیں ۔۔
٭٭٭٭٭٭
حسان نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا وہ چاہ رہا تھا آج منہم جلد گھر اجائے کل انہوں نے جانا ۔۔ اس نے عابدہ کو فون کرکے سب کچھ بتا دیا تھا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان جارہا ہے منہم کے ساتھ جب اس کا دل سنبھل جائے گا واپس آجائے گا ۔ اس کے بعد اس نے منہم کو فون کیا ۔۔ اس کو جلد گھر آنے کا کہا خود اسی نیم تاریک کمرے میں بیٹھ گیا۔
منہم اداس تھی بہت کہ وہ پتا نہیں کب روحان سے ملے گی ۔ منہم نے پورا لندن دوستوں کے ساتھ پھر سے گھوما جیسے اس کی ہر جگہ کو دل میں بٹھا لینا چاہتی ہو ۔۔ سارا دن کھاتے پیتے ہنستے کھیلتے گزرا ۔۔ پھر روحان کے ساتھ اسکے گھر آگئی۔ روحان کا کہنا تھا وہ اپنے پیرنٹس سے اس کا تعارف کروانا چاہتا ہے ۔مستقبل میں اس سے شادی کرے گا۔ اس کے پیرنٹس برمنگھم میں رہتے تھے ۔۔روحان یہاں اپنے گھر رہتا تھا ۔ آج اس کے پیرنٹس اس کے پاس تھے ۔۔ منہم بہت خوشی خوشی روحان کے گھر داخل ہوئی اس کا دل خوش ہو گیا جو اس کے دل میں تھا وہ روحان خود زبان پر لے آیا۔ اور گھر میں جب داخل ہوئی تو شور تھا بہت سی ملی جلی آوازیں ۔۔انگریزی ،ہندی اور اردو کی کوڈ سوئچنگ سے آپس میں تبادلہ خیال ہورہا تھا۔۔ مردانہ آوازیں تھیں کسی عورت کی آواز نہیں آرہی تھی جب وہ سامنے گئی تو سب روحان کے دوست تھے ۔۔ اس دوپہر وہ ان سب کے لیے تحفہ بن گئی ۔ ننھی سی پری ان سنگ دلوں کے ہاتھوں کھلونہ بن گئی ۔ سب نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اور بعد میں اس کو گھر کے قریب پھینک دیا گیا۔وہ سولہ سال کی پری حوث کی نظر ہو گئی۔
٭٭٭٭٭٭
حسان بہت بے چین تھا اس نے منہم کو فون کیا ۔۔اس کا دل ہول رہا تھا ۔۔ وہ لان میں آکر ٹہلنے لگا۔ مگر اس کو دھوپ محسوس نہ ہورہی تھی ۔۔ وقت کی دھوپ بڑی تیز تھی ۔۔ اس گھر میں گھٹن محسوس ہوئی وہ گھر سے باہر نکل پڑا۔۔ مگر گھر سے باہر نکلا تو لگا قیامت آگئی۔منہم اس کے سامنے تھی ۔۔ مگر جس حالت میں تھی اس کا تو تصور بھی اس نے نہیں کیا تھا ۔وہ اس کو بھاگم بھاگ ہسپتال لے کر گیا ۔۔مگر وہ فرشتہ صفت سانس اس دنیا کے ختم کر چکی تھی ۔۔قدرت نے اسکی اتنی ہی سانسیں لکھی تھیں۔۔
اکثر سنا تھا ماں باپ کا کیا اولاد جھیلتی ہے ۔۔اچھا کیا تو اچھا ملتا ہے برا کیا ہو تو برا ملتا ہے ۔۔ سزا حسان کو ملی تھی شکار منہم ہوگئی۔ اس کو جنت میں جگہ مل گئی پر حسان کی زندگی وہ دوذخ بنا گئی۔۔کس منہ سے وہ اپنا سامنا کرتا۔۔۔ منہم کو وہ یہاں دفن نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے اسکو لے کر اسنے پاکستان روانگی کی ٹھانی ۔۔اس کے پاس وقت نہیں تھا کہ وہ بے گور نعش چھوڑ کر سراغ لگانے جائے ۔۔پولیس نے کاراوائی کر دی تھی ۔۔ اس میں سے روحان تو اسی جگہ ہلاک ہو گیا۔۔ باقی زخمی پکڑے گئے۔ ۔
پاکستان واپس جا کر اس نے منہم کو اپنے بھائی کے حوالے کیا۔ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ ہر کوئی تعزیت کے لیے آرہا تھا مگر حسان کے لب ہل نہیں رہے تھے اسکو فالج ہوگیا۔ وہ اس قابل نہ رہا کہ ہل سکا اور محتاج ہوگیا ان کا جن کو چھوڑ کر گیا تھا۔ قسمت نے پہیہ گھمایا اور وہیں پہ لاپٹخا جہاں پر وہ تھا۔ محبت نے اس سے ایسا انتقام لیا کہ وہ منان سے معافی کو ہاتھ نہیں بڑھا سکتا تھا یہاں تک کے ''غوں غاں'' کرنا بھی اس کی بے بسی کی تصویر تھا کون جانے وہ کیا کہ رہا ہے ۔ اے محبت بڑا ظالم احتساب کیا انعم کی آنکھوں میں کچھ نہیں تھا پر اب وہ تحریر پڑھ سکتا جو اس کے لئے تھی ۔۔ وہ نامراد تھا ۔۔ نا چاہ کر بھی وہ دکھی تھی ۔۔وہ بار بار ان لائن کو دھراتا رہتا جیسا یہ اسکو سکون دے پائیں گی۔
اور وہ پت جھڑ کی آخری شام تھی
ہوا اپنا آخری گیت گا رہی تھی
مرے بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو مٹھیاں میں نے کھول دیں
اور میں نے دیکھا
کہ میرے ہاتھوں میں
کوئی جگنو
نہ کوئی موتی
ہتھیلیوں پر فقط مری
نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں