محمد عمر بن عبد العزیز
محفلین
میں محبت کرنا چاہ رہا ہوں، مگر کر نہیں پا رہا۔ اور محبت بھی ان سے کرنا چاہتاہوں جو مجھ سے محبت بھی کرتے ہیں، آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے میرے ساتھ محبت کر رہے ہیں جبکہ مجھے کوئی جانتا تک نہ تھا۔ اور اِس وقت بھی وہ مجھ سے محبت کر تے ہیں جب کوئی بھی مجھ سے محبت نہیں کرتا، بلکہ کرنا ہی نہیں چاہتا، حتی کہ وہ اس وقت بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں جب خود میں بھی اپنے آپ سے محبت نہیں کرتا۔ میں پھر بھی چاہنے کے با وجود اس سے محبت نہ کر سکا، آخر کیوں…؟
…کیا اس لیے کہ ان سے محبت کرنے میں کوئی نقصان ہے؟
… یا اس لیے کہ وہ میرے ساتھ کسی اپنی غرض کی وجہ سے محبت کرتے ہیں؟
… یا اس لیے کہ وہ میری محبت کو سمجھ نہیں سکتے؟
… یا اس لیے کہ وہ مجھ سے اتنے دور ہیں کہ مجھے دیکھ نہیں سکتے؟
… یا میری آواز کو سن نہیں سکتے؟
… یا اس لیے کہ ان سے محبت کرنا کوئی مشکل کام ہے؟
… یا اس لیے کہ ان میں غصہ زیادہ ہے؟
جس کی وجہ سے میں ان سے محبت نہیں کر پارہا…؟؟؟
٭…نہیں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے، کیونکہ اس محبت میں نقصان کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے، بلکہ ان سے محبت نہ کرنے میں نقصان ہے۔
٭… اور وہ مجھ سے جو محبت کرتےہیں وہ بھی میرے ہی فائدے کے لیے کرتے ہیں،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((کُلٌّ یُّحِبُّکَ لِنَفْسِہٖ وَاَنَا اُحِبُّکَ لَکَ))
’’اے انسان! ہر کوئی تجھ سے اپنی ذات کے لیے محبت کرتا ہے جبکہ میں تیرے ساتھ تیرے لیے ہی محبت کرتا ہوں۔‘‘
٭… مجھے کیا وہ تو ہر چیز کو دیکھتے ہیں اور اس کے جذبات کو سمجھتے ہیں،ارشاد فرمایا:
’’سیاہ رات ہو سیاہ پہاڑ ہو اس پر سیاہ رنگ کی چیونٹی ہو اس کو بھی دیکھتے ہیں۔‘‘
٭… میری پکار بلکہ سرگوشی بھی سنتے ہیں، خود فرمایا:
﴿فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ [البقرۃ:۱۸۶]
’’میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں۔‘‘
٭… اور ان سے محبت کرنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے، بہت زیادہ بلکہ سب سے زیادہ آسان ہے، اتنا آسان کہ ہر بندہ محبت کر سکتا ہے، نہ اس میں مال کی شرط ہے، نہ ہی منال کی شرط ہے، بلکہ غریب تو بہت زیادہ محبت کرسکتے ہیں، اسی لیے مسکنت کی دعائیں مانگی گئی ہیں،نبیb دعا مانگا کرتے تھے:
((اللَّهُمَّ أَحْيِنِى مِسْكِينًا وَأَمِتْنِى مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِى فِى زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) [سنن الترمذي،حدیث:۲۳۵۲]
’’اے اللہ مجھے مسکینی کی زندگی عطا فرما، اور مسکینی کی حالت میں موت عطا فرما، اور قیامت کے دن مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما۔‘‘
ان سے ملنے کی ہے فقط یہی اک راہ
ملنے والوں سے راہ پیدا کر
دوری کی وجہ بھی اس محبت میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیونکہ وہ تو میرے اتنا قریب ہے کہ اتنا میں خود بھی اپنے قریب نہیں ہوں۔
﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۱۶﴾ [ق:۱۶]
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
اور رحمت کے تو کہنے ہی کیا ہیں۔
﴿وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ﴾
’’اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔
تو معلوم ہوگیا کہ اس محبت میں رکاوٹ اُس طرف سے نہیں بلکہ میری طرف سے ہی ہے، جو بھی کمی ہے میری طرف سے ہے۔ لہٰذا مجھے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ چاہت کے ہوتے ہوئے بھی آخر میں ان سے محبت کیوں نہیں کر پارہا…؟؟؟
اصل بات تو یہ کہ اس کی بات ماننے میں کمی کوتاہی کرتا ہوں، مثلا:
انہوں نے نماز کا حکم دیا، میں نماز میں سستی کرجاتا ہوں۔ جوکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے۔ روزے کا حکم دیا، میں کمی، کوتاہی کرجاتا ہوں، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور میں یہود و نصاری کی نقالی کو پسند کرتا ہوں۔ مجھے نہیں احساس کہ لباس کون سا اور کیسے پہننا چاہیے، کھانا کونسا اور کیسے کھانا چاہیے، میں کھڑے ہوکر کھانے میں فخر محسوس کرتا ہوں اور اسی کو ترقی سمجھتا ہوں، ماں باپ کے ادب اور خدمت کا حکم دیا، میں گستاخیاں کرتا پھرتا ہوں، قرآن کی تلاوت کا حکم دیا، میرے گھر میں قرآن پر گرد و غبار چڑھی ہوئی ہے، اٹھاکر پڑھنا نصیب نہیں ہوتا، انہوں نے حلال کھانے کا حکم دیا، جبکہ حلال سے میرا پیٹ نا آشنا ہوچکا ہے، سچ بولنے کا حکم دیا، اور سچ سے میرا کام نہیں چلتا، نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا، جبکہ میں اپنی نگاہوں کو کنٹرول نہیں کرسکتا، غلط اور ہوس بھری نگا ہیں باربار اور ہر طرف ڈال رہا ہوتا ہوں۔
جب یہ سب کچھ ہے تو کیسے میں اس پاکیزہ اور مقدس محبت کو حاصل کرسکتا ہوں لیکن چاہتا بھی ہوں کہ مجھے یہ محبت نصیب ہوجائے۔
مجھےاپنی پستیوں کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کا میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے
اللہ وہ دل دے جو تیرے عشق کا گھر ہو
دائمی رحمت کی تیری اس پہ نظر ہو
دل دے کہ تیرے عشق میں یہ حال ہو اس کا
محشر کا اگر شور ہو تو بھی نہ خبر ہو
آخر کب تک ان اندھیروں مین بھٹکتا پھروں گا کب تک دوری کے صدمے سہتا رہوں گا ایک نہ ایک دن تو ان سے ملنا ہی ہے ناں! اور ملنا بھی ضرور ہی ہے۔
مرا دل مچل رہا ہے تیری یاد میں الہی!
تیرے نام نے تو دل میں اک آگ ہے لگائی
کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ملاقات کسی اور انداز کی ہو کہ مجھے زنجیروں میں باندھ کر ہتھ کڑیاں لگاکر اور بیڑیاں پہناکر ان کے دربار میں پیش کیا جائے پھر غصہ ہو ناراضگی ہو غضب ہو اور بالآخر جہنم کا فیصلہ ہو کیا میں اس کیفیت کو برداشت کر سکوں گا ؟ نہیں ہرگز ہرگز ہرگز نہیں۔
تو کیوں نہ آج ہی ان رکاوٹوں کو دور کردوں جو اس راستے میں حائل ہوجاتی ہیں۔
لہذا اب کسی شیطان کو ہمت نہیں ہونے دوں گا کہ اس راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے اب میں اوامر پر عمل کروں گا اور جواہی سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کروں گا تقوی اختیار کرنے کی پوری کوشش کروں گا صلحاء کی صحبت اختیار کروں گا ان کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ زیادہ سے زیادہ یہ نعمت حاصل کرسکوں۔
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کو مجبور ہوجانا
ہماری بادہ نوشی پر فرشتے رشک کرتے ہیں
کسی کے سنگ در کو چومنا مخمور ہوجانا
قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا
…کیا اس لیے کہ ان سے محبت کرنے میں کوئی نقصان ہے؟
… یا اس لیے کہ وہ میرے ساتھ کسی اپنی غرض کی وجہ سے محبت کرتے ہیں؟
… یا اس لیے کہ وہ میری محبت کو سمجھ نہیں سکتے؟
… یا اس لیے کہ وہ مجھ سے اتنے دور ہیں کہ مجھے دیکھ نہیں سکتے؟
… یا میری آواز کو سن نہیں سکتے؟
… یا اس لیے کہ ان سے محبت کرنا کوئی مشکل کام ہے؟
… یا اس لیے کہ ان میں غصہ زیادہ ہے؟
جس کی وجہ سے میں ان سے محبت نہیں کر پارہا…؟؟؟
٭…نہیں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے، کیونکہ اس محبت میں نقصان کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے، بلکہ ان سے محبت نہ کرنے میں نقصان ہے۔
٭… اور وہ مجھ سے جو محبت کرتےہیں وہ بھی میرے ہی فائدے کے لیے کرتے ہیں،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((کُلٌّ یُّحِبُّکَ لِنَفْسِہٖ وَاَنَا اُحِبُّکَ لَکَ))
’’اے انسان! ہر کوئی تجھ سے اپنی ذات کے لیے محبت کرتا ہے جبکہ میں تیرے ساتھ تیرے لیے ہی محبت کرتا ہوں۔‘‘
٭… مجھے کیا وہ تو ہر چیز کو دیکھتے ہیں اور اس کے جذبات کو سمجھتے ہیں،ارشاد فرمایا:
’’سیاہ رات ہو سیاہ پہاڑ ہو اس پر سیاہ رنگ کی چیونٹی ہو اس کو بھی دیکھتے ہیں۔‘‘
٭… میری پکار بلکہ سرگوشی بھی سنتے ہیں، خود فرمایا:
﴿فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ [البقرۃ:۱۸۶]
’’میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں۔‘‘
٭… اور ان سے محبت کرنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے، بہت زیادہ بلکہ سب سے زیادہ آسان ہے، اتنا آسان کہ ہر بندہ محبت کر سکتا ہے، نہ اس میں مال کی شرط ہے، نہ ہی منال کی شرط ہے، بلکہ غریب تو بہت زیادہ محبت کرسکتے ہیں، اسی لیے مسکنت کی دعائیں مانگی گئی ہیں،نبیb دعا مانگا کرتے تھے:
((اللَّهُمَّ أَحْيِنِى مِسْكِينًا وَأَمِتْنِى مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِى فِى زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) [سنن الترمذي،حدیث:۲۳۵۲]
’’اے اللہ مجھے مسکینی کی زندگی عطا فرما، اور مسکینی کی حالت میں موت عطا فرما، اور قیامت کے دن مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما۔‘‘
ان سے ملنے کی ہے فقط یہی اک راہ
ملنے والوں سے راہ پیدا کر
دوری کی وجہ بھی اس محبت میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیونکہ وہ تو میرے اتنا قریب ہے کہ اتنا میں خود بھی اپنے قریب نہیں ہوں۔
﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۱۶﴾ [ق:۱۶]
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
اور رحمت کے تو کہنے ہی کیا ہیں۔
﴿وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ﴾
’’اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔
تو معلوم ہوگیا کہ اس محبت میں رکاوٹ اُس طرف سے نہیں بلکہ میری طرف سے ہی ہے، جو بھی کمی ہے میری طرف سے ہے۔ لہٰذا مجھے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ چاہت کے ہوتے ہوئے بھی آخر میں ان سے محبت کیوں نہیں کر پارہا…؟؟؟
اصل بات تو یہ کہ اس کی بات ماننے میں کمی کوتاہی کرتا ہوں، مثلا:
انہوں نے نماز کا حکم دیا، میں نماز میں سستی کرجاتا ہوں۔ جوکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے۔ روزے کا حکم دیا، میں کمی، کوتاہی کرجاتا ہوں، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور میں یہود و نصاری کی نقالی کو پسند کرتا ہوں۔ مجھے نہیں احساس کہ لباس کون سا اور کیسے پہننا چاہیے، کھانا کونسا اور کیسے کھانا چاہیے، میں کھڑے ہوکر کھانے میں فخر محسوس کرتا ہوں اور اسی کو ترقی سمجھتا ہوں، ماں باپ کے ادب اور خدمت کا حکم دیا، میں گستاخیاں کرتا پھرتا ہوں، قرآن کی تلاوت کا حکم دیا، میرے گھر میں قرآن پر گرد و غبار چڑھی ہوئی ہے، اٹھاکر پڑھنا نصیب نہیں ہوتا، انہوں نے حلال کھانے کا حکم دیا، جبکہ حلال سے میرا پیٹ نا آشنا ہوچکا ہے، سچ بولنے کا حکم دیا، اور سچ سے میرا کام نہیں چلتا، نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا، جبکہ میں اپنی نگاہوں کو کنٹرول نہیں کرسکتا، غلط اور ہوس بھری نگا ہیں باربار اور ہر طرف ڈال رہا ہوتا ہوں۔
جب یہ سب کچھ ہے تو کیسے میں اس پاکیزہ اور مقدس محبت کو حاصل کرسکتا ہوں لیکن چاہتا بھی ہوں کہ مجھے یہ محبت نصیب ہوجائے۔
مجھےاپنی پستیوں کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کا میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے
اللہ وہ دل دے جو تیرے عشق کا گھر ہو
دائمی رحمت کی تیری اس پہ نظر ہو
دل دے کہ تیرے عشق میں یہ حال ہو اس کا
محشر کا اگر شور ہو تو بھی نہ خبر ہو
آخر کب تک ان اندھیروں مین بھٹکتا پھروں گا کب تک دوری کے صدمے سہتا رہوں گا ایک نہ ایک دن تو ان سے ملنا ہی ہے ناں! اور ملنا بھی ضرور ہی ہے۔
مرا دل مچل رہا ہے تیری یاد میں الہی!
تیرے نام نے تو دل میں اک آگ ہے لگائی
کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ملاقات کسی اور انداز کی ہو کہ مجھے زنجیروں میں باندھ کر ہتھ کڑیاں لگاکر اور بیڑیاں پہناکر ان کے دربار میں پیش کیا جائے پھر غصہ ہو ناراضگی ہو غضب ہو اور بالآخر جہنم کا فیصلہ ہو کیا میں اس کیفیت کو برداشت کر سکوں گا ؟ نہیں ہرگز ہرگز ہرگز نہیں۔
تو کیوں نہ آج ہی ان رکاوٹوں کو دور کردوں جو اس راستے میں حائل ہوجاتی ہیں۔
لہذا اب کسی شیطان کو ہمت نہیں ہونے دوں گا کہ اس راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈال سکے اب میں اوامر پر عمل کروں گا اور جواہی سے مکمل طور پر بچنے کی کوشش کروں گا تقوی اختیار کرنے کی پوری کوشش کروں گا صلحاء کی صحبت اختیار کروں گا ان کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ زیادہ سے زیادہ یہ نعمت حاصل کرسکوں۔
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کو مجبور ہوجانا
ہماری بادہ نوشی پر فرشتے رشک کرتے ہیں
کسی کے سنگ در کو چومنا مخمور ہوجانا
قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا