نور وجدان
لائبریرین
تلاش کا چَمن اَزل سے مہکتا رَہے گا، زَمن دَر زَمن کا سلسَلہ ہے. جستجو مانندِ گُل ہستی کا نور ہے اور حرفِ جستجو خیالِ پیرِ کامل ہے. حرفِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دل میں نمو پائے تو گویا بندگی کا جوہر نمو پائے. یہ عدم و موجود کے تعلق کا ایسا نقطہ ہے کہ انسان اس بن بہت ادھورا ہے.
قبیلہ ء غفار میں ایک شخص ایسا رہا ہے جس کے دل میں اسکی پیدائش سے ہی الوہی چراغ نے نمو پالی تھی. وہ بت گروں کے قبیلے میں رہنے والا واحد فرد جس نے ہاتھ سے بَنائے ہوئے اصنام کی پرستش کرنے سے انکار کردیا تھا. قبیلہِ غفار اس سردار بچے کی عقل و دانش پر ماتم کُنان اور مشکک کہ وہ کیوں بتخانے نَہیں جاتا. یہ بچہ جوانی کی سرحدیں پار کرتا ہے تو اس کی زبان پر یہی کلمہ ہوتا "فثمہ وجہہ اللہ " دل میں پیر کامل کی آمد نے اخبار نشر کر رکھا تھا اور وہ نوجوان آنے والے تجارتی قافلوں سے پوچھا کرتا تھا کہ منبعِ انوارِ خشیت، مہر رسالت و نبوت کی خبر دو! ایک دن تپش سے بیحال ہوا، اس قدر کہ چاکِ گریبان کیے عازم مکہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بنا لیت و لعل حلقہ بگوش اسلام ہوئے! اس وقت بہ آواز بلند کلمہ پڑھنا جرم تھا اور خون کے پیاسے، مظالم کے بہانے ڈھونڈنے والے بیشمار! جناب بوذر غفاری کو منع کیا گیا باآواز بلند کلمہ پڑھنے کی! وجہِ تسمیہ مظالم سے بچانا تھا، مسلمانوں کی حالت ابتر تھی مگر یہ جوان خانہ کعبہ میں داخل ہوتا ہے اور قریشی حلقوں میں بیٹھے مصروف عبادت، بتوں کی ! ایک آواز ان کے کانوں میں پڑی، یہ بلند آہنگ آواز ایسی کہ سیسہ پلائی دیوار کو چیر دے اور تیقن سے بھرپور کلمہ پڑھنے والے بوذر غفاری گھیر لیے گئے . لاتوں، گھونسوں اور پتھروں کی برسات میں خون سے لت پت وجود نے مصمم آواز میں کلمہ پڑھا اور تواتر سے پڑھا، خون بہتا رہا، زبان، دل بہ آہنگ بلند لا الہ الا اللہ کہتے رہے اور اس تکرار پے کفار کی مار کی تسلسل! بس جان کنی کا عالم اور ایمان مصصم کا عالم کہ زبان سے کلمہ نہ چھوٹا، پیرکامل کی نظر نے دنیوی غم بھلادیے اور جلوہ دے دیا ... پیرِ کامل میل دل کے دھوئے اور یقین کی وہ طاقت دے کہ جس سے سنگلاخ چٹانیں ریزہ ریزہ ہوجائیں.
ملائک سے "سماوات " مخاطب
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا
عرش سے نور فرش تلک چلا
زیست کے سفر میں کفر اضافی
اللہ کے بندے کو اللہ ہے کافی
ان کا سایہ ملے، بدلے گی کایا
اسمِ محمد جہاں پر ہے چھایا
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے
حق نے سج دھج کی مثالِ میم
کائنات مسکرائی مانندِ شمیم
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری
جاری ہے .......
قبیلہ ء غفار میں ایک شخص ایسا رہا ہے جس کے دل میں اسکی پیدائش سے ہی الوہی چراغ نے نمو پالی تھی. وہ بت گروں کے قبیلے میں رہنے والا واحد فرد جس نے ہاتھ سے بَنائے ہوئے اصنام کی پرستش کرنے سے انکار کردیا تھا. قبیلہِ غفار اس سردار بچے کی عقل و دانش پر ماتم کُنان اور مشکک کہ وہ کیوں بتخانے نَہیں جاتا. یہ بچہ جوانی کی سرحدیں پار کرتا ہے تو اس کی زبان پر یہی کلمہ ہوتا "فثمہ وجہہ اللہ " دل میں پیر کامل کی آمد نے اخبار نشر کر رکھا تھا اور وہ نوجوان آنے والے تجارتی قافلوں سے پوچھا کرتا تھا کہ منبعِ انوارِ خشیت، مہر رسالت و نبوت کی خبر دو! ایک دن تپش سے بیحال ہوا، اس قدر کہ چاکِ گریبان کیے عازم مکہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بنا لیت و لعل حلقہ بگوش اسلام ہوئے! اس وقت بہ آواز بلند کلمہ پڑھنا جرم تھا اور خون کے پیاسے، مظالم کے بہانے ڈھونڈنے والے بیشمار! جناب بوذر غفاری کو منع کیا گیا باآواز بلند کلمہ پڑھنے کی! وجہِ تسمیہ مظالم سے بچانا تھا، مسلمانوں کی حالت ابتر تھی مگر یہ جوان خانہ کعبہ میں داخل ہوتا ہے اور قریشی حلقوں میں بیٹھے مصروف عبادت، بتوں کی ! ایک آواز ان کے کانوں میں پڑی، یہ بلند آہنگ آواز ایسی کہ سیسہ پلائی دیوار کو چیر دے اور تیقن سے بھرپور کلمہ پڑھنے والے بوذر غفاری گھیر لیے گئے . لاتوں، گھونسوں اور پتھروں کی برسات میں خون سے لت پت وجود نے مصمم آواز میں کلمہ پڑھا اور تواتر سے پڑھا، خون بہتا رہا، زبان، دل بہ آہنگ بلند لا الہ الا اللہ کہتے رہے اور اس تکرار پے کفار کی مار کی تسلسل! بس جان کنی کا عالم اور ایمان مصصم کا عالم کہ زبان سے کلمہ نہ چھوٹا، پیرکامل کی نظر نے دنیوی غم بھلادیے اور جلوہ دے دیا ... پیرِ کامل میل دل کے دھوئے اور یقین کی وہ طاقت دے کہ جس سے سنگلاخ چٹانیں ریزہ ریزہ ہوجائیں.
ملائک سے "سماوات " مخاطب
مولائے کائنات سے "آپ " مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا
عرش سے نور فرش تلک چلا
زیست کے سفر میں کفر اضافی
اللہ کے بندے کو اللہ ہے کافی
ان کا سایہ ملے، بدلے گی کایا
اسمِ محمد جہاں پر ہے چھایا
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے
حق نے سج دھج کی مثالِ میم
کائنات مسکرائی مانندِ شمیم
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری
نعت لکھنے کو کیفیت سی طاری
جاری ہے .......