صلاح الدین خان گورچانی
محفلین
عرب کے ریگزاروں کو موتیوں کی چمک خون شہیداں کی بدولت ملی تھی ۔شعلوں اور شراروں پر تو کبھی تلواروں کی دھاروں پر کبھی دھکتے انگاروں پر کبھی سر بازار تو کبھی تختہ دار پر سر فروش و سر بکف ہر سمت ہر طرف میرے آباء کی جوانیوں کی داستانیں آج بھی یورپ کے کلیساء اور ہند کے سومنات سناتے ہیں مگر
خون دل دے کہ اسلام کے گلشن کی آبیاری کرنے والی غیور قوم کے بیٹے بے حس و ناتواں بے ہمت و بے چارہ کیوں۔
اصل بات یہ ہے کہ میرے نوجوان آج بھی کفار کا سینہ چاک کرنے والے بازو رکھتے ہیں ۔آج بھی نوجوان اگر غیور ہوجائیں تو دنیا کی طاقتیں انکے سامنے ہیچ ہیں
لیکن اب شاید ہی کوئی بطل جلیل آئے جو میرے برباد نوجوانوں کو آہ سحر دے ۔جو میرے جوانوں کی رگوں میں وہ جذبہ پیدا کرے کہ وہ اسلام کی خاطر اپنی جوانیاں نثار کر ڈالیں ۔جو دشت و جبل کو اپنا آشیانہ جانیں جو صحراؤں کو اپنا تابع کر دیں جو پہاڑوں پر حکومت کریں جو سمندروں کی شہسواری کریں
کیونکہ مغرب نے میرے نوجوانوں کے پاؤں میں ایسی حسین زنجیریں ڈال دی ہیں کہ دشمنوں کو تہ تیغ کرنے والے اور باطل عزائم کو پارہ پارہ کرنے والے
اپنے نفس کہ غلام ہوگئے اور بے حیائی اور فحاشی کی زنجیروں میں اس قدر جکڑے گئے کہ شاید اب بہت دیر تک خواب غفلت میں سوئے ہوئے اس طلسماتی مگر غیر حقیقی سوشل میڈیا کی دنیا میں اسیر رہیں گے ۔
خون دل دے کہ اسلام کے گلشن کی آبیاری کرنے والی غیور قوم کے بیٹے بے حس و ناتواں بے ہمت و بے چارہ کیوں۔
اصل بات یہ ہے کہ میرے نوجوان آج بھی کفار کا سینہ چاک کرنے والے بازو رکھتے ہیں ۔آج بھی نوجوان اگر غیور ہوجائیں تو دنیا کی طاقتیں انکے سامنے ہیچ ہیں
لیکن اب شاید ہی کوئی بطل جلیل آئے جو میرے برباد نوجوانوں کو آہ سحر دے ۔جو میرے جوانوں کی رگوں میں وہ جذبہ پیدا کرے کہ وہ اسلام کی خاطر اپنی جوانیاں نثار کر ڈالیں ۔جو دشت و جبل کو اپنا آشیانہ جانیں جو صحراؤں کو اپنا تابع کر دیں جو پہاڑوں پر حکومت کریں جو سمندروں کی شہسواری کریں
کیونکہ مغرب نے میرے نوجوانوں کے پاؤں میں ایسی حسین زنجیریں ڈال دی ہیں کہ دشمنوں کو تہ تیغ کرنے والے اور باطل عزائم کو پارہ پارہ کرنے والے
اپنے نفس کہ غلام ہوگئے اور بے حیائی اور فحاشی کی زنجیروں میں اس قدر جکڑے گئے کہ شاید اب بہت دیر تک خواب غفلت میں سوئے ہوئے اس طلسماتی مگر غیر حقیقی سوشل میڈیا کی دنیا میں اسیر رہیں گے ۔