تلواروں کی دھاروں کو زنگ کیسے لگ گیا۔۔

عرب کے ریگزاروں کو موتیوں کی چمک خون شہیداں کی بدولت ملی تھی ۔شعلوں اور شراروں پر تو کبھی تلواروں کی دھاروں پر کبھی دھکتے انگاروں پر کبھی سر بازار تو کبھی تختہ دار پر سر فروش و سر بکف ہر سمت ہر طرف میرے آباء کی جوانیوں کی داستانیں آج بھی یورپ کے کلیساء اور ہند کے سومنات سناتے ہیں مگر
خون دل دے کہ اسلام کے گلشن کی آبیاری کرنے والی غیور قوم کے بیٹے بے حس و ناتواں بے ہمت و بے چارہ کیوں۔
اصل بات یہ ہے کہ میرے نوجوان آج بھی کفار کا سینہ چاک کرنے والے بازو رکھتے ہیں ۔آج بھی نوجوان اگر غیور ہوجائیں تو دنیا کی طاقتیں انکے سامنے ہیچ ہیں
لیکن اب شاید ہی کوئی بطل جلیل آئے جو میرے برباد نوجوانوں کو آہ سحر دے ۔جو میرے جوانوں کی رگوں میں وہ جذبہ پیدا کرے کہ وہ اسلام کی خاطر اپنی جوانیاں نثار کر ڈالیں ۔جو دشت و جبل کو اپنا آشیانہ جانیں جو صحراؤں کو اپنا تابع کر دیں جو پہاڑوں پر حکومت کریں جو سمندروں کی شہسواری کریں
کیونکہ مغرب نے میرے نوجوانوں کے پاؤں میں ایسی حسین زنجیریں ڈال دی ہیں کہ دشمنوں کو تہ تیغ کرنے والے اور باطل عزائم کو پارہ پارہ کرنے والے
اپنے نفس کہ غلام ہوگئے اور بے حیائی اور فحاشی کی زنجیروں میں اس قدر جکڑے گئے کہ شاید اب بہت دیر تک خواب غفلت میں سوئے ہوئے اس طلسماتی مگر غیر حقیقی سوشل میڈیا کی دنیا میں اسیر رہیں گے ۔
 

وجی

لائبریرین
پہلی بات میرے خیال میں غلط ہے کہ موتیوں کی چمک خون کے بدولت ملی حالانکہ یہ چمک اخلاق ، اخلاص ، اخوت اور سب سے بڑھ کر رحم سے ملی جو کہ رحمت العالمین کی بدولت عمل میں نظر آئی
اور یہی بات ہے کہ مسلمان کے دل میں رحم ہوگا تو وہ عدل و انصاف سے کام کرےگا اور جب عدل و انصاف سے کام کرے گا تو اس کو وہ امن و سلامتی ملے گی جس کی وہ خواہش سب سے پہلے رکھتا ہے۔
 

دوست

محفلین
انٹر سکول یا کالج کے تقریری مقابلے سے اٹھایا اقتباس لگتا ہے۔ بظاہر پُرجوش اور معانی سے بھرپور الفاظ، جو خون کو گرما ڈالیں۔ لیکن تسلی سے بیٹھ کر تجزیہ کیا جائے تو باہم متصادم معانی اور ایسے مفروضوں پر مبنی جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔
 
Top