طارق شاہ
محفلین
غزل
تلوک چند محروم
رہی فراق میں بھی شکل رُو برُو تیری
شبہیہ کھینچی تصوّر نے ہُو بہُو تیری
معاف رکھ جو ہے گُل ہائے ترسے پیارمجھے
کہ اِن میں رنگ تِرا کُچھ ہے، کُچھ ہے بُو تیری
نسیمِ صبح کا جھونکا نفس نفس تیرا
رہے گی سوختہ جانوں کو آرزو تیری
یہ فخر کم نہیں، ہم لائقِ خِطاب تو ہیں
عزیز اور کے القاب سے، ہے تُو تیری
دہانِ غنچۂ تر سے، زبانِ سوسِن سے
چمن چمن میں سُنی میں نے گفتگو تیری
دل و جگر پُھکے جاتے ہیں سوزِ ہجراں سے
لگن عذاب ہوئی ، مجھ کو شمع رُو تیری
کہاں کہاں تِرے محرُوم کو بقولِ سُرُور !
کشاں کشاں لئے پھرتی ہے جستجو تیری
تلوک چند محرُوم