تماشائے اہل سیاست!...نقش خیال…عرفان صدیقی

بلوچستان میں گورنر راج لگ چکا۔ سندھ آتش زیرپا ہے اور کراچی بدستور لہو میں نہا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزراء محفوظ ہیں نہ ہمارے فوجی، پورا ملک بے چینی کی لپیٹ میں ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پیپلزپارٹی اور اس کا دسترخوانی قبیلہ حالات کی نزاکت کا شعور کرتے ہوئے اپوزیشن کی مشاورت سے آئندہ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیتا۔ کم از کم بے یقینی میں کچھ تو کمی آتی لیکن پیپلزپارٹی آئینی میعاد کے آخری لمحے تک اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتی ہے اور جمہوریت کا قافلہ منزل کے نہایت قریب آ کر بے سمت سا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کیا پیپلز پارٹی اپنی یقینی شکست کے خوف میں مبتلا ہے اور کسی بہانے انتخابات کا طویل التوا چاہتی ہے؟ کیا وہ سیدھی سادی کہانی میں خود الجھاؤ پیدا کر کے ایسا ماحول بنا رہی ہے کہ فوج کود پڑے یا ایک طویل نگران بندوبست قبضہ جما لے؟ ان خدشات کو اب تقویت مل رہی ہے۔ لوگ تو یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کی رگوں میں دوڑتے لہو میں بھی زرداری صاحب کی مخصوص کرشماتی سیاست کے اجزاء موجود ہیں۔
اور ”لانگ مارچ“ کے نام پر ایک بے ہنگم تماشا جی ٹی روڈ پر جاری ہے۔ اشتہاری اعلانات کے مطابق سفر انقلاب کا آغاز صبح نو بجے ہونا تھا۔ نسبتاً روشن اور تابناک دن کے باوجود حضرت کی بارگاہ عالی اور لانگ مارچ کی اولین خیمہ گاہ دیر تک سونی رہی۔ پانچ گھنٹے بعد حضرت جلوہ افروزہوئے۔تخت لاہور کی کارروائیوں کو ”یزیدیت“ سے کئی گنا سنگین قرار دیا۔ ان کا لہجہ ہارے ہوئے لشکر کے سالار کی چغلی کھا رہا تھا۔ ان کی بدن بولی، ان کے اعصاب کی شکستگی کا نوحہ پڑھ رہی تھی۔ ان کی ہیجانی بلکہ ہذیانی کیفیت ان کی شدید مایوسی کا آئینہ دار تھی۔ حضرت کا دعویٰ تھا کہ وہ چار لاکھ افراد کو ہمراہ لے کر نکلیں گے، تمام قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مطابق مرحلہٴ اول کے شرکاء کی تعداد پانچ سے سات ہزار تھی۔ آج (14جنوری) کی صبح جب جیو تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کا حوالہ دے کر بتا رہا تھا کہ کھاریاں تک پہنچنے کے بعد شرکاء کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ ہے، حضرت بصد یقین و اعتماد صحافیوں کو باور کرا رہے تھے کہ لانگ مارچ میں اس وقت تک دس لاکھ افراد شامل ہو چکے ہیں۔ ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ اگر آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور خطہٴ پوٹھوہار سے قافلے امڈ امڈ آئے تو شرکاء کی تعداد پچیس ہزار کو چھو سکتی ہے لیکن جیسا کہ میں ایک کالم میں کہہ چکا ہوں، جب حضرت اس مجمعے کو چالیس لاکھ کا بے کراں سمندر قرار دیں گے تو کون انہیں جھٹلا سکے گا؟
اپنے انداز کا یہ منفرد لانگ مارچ اس اعتبار سے “گنیز بک آف ریکارڈز“ کا حصہ بننے کا استحقاق رکھتا ہے کہ ابھی تک اس کے اہداف و مقاصد واضح نہیں۔ ”سیاست نہیں، ریاست“ کے نام سے شروع ہونے والی یہ بے چہرہ سی مہم اب سیاست میں اس قدر لت پت ہو چکی ہے کہ اس سے تعفن اٹھنے لگا ہے۔ شیخ الاسلام نے واضح مطالبات اور متعین ایجنڈا دیئے بغیر پہلے تو ایک جلسہ کیا اور پھر”10جنوری تک کا الٹی میٹم دے ڈالا۔ جب ہاہا کار مچی کہ حضرت آپ چاہتے کیا ہیں تو لانگ مارچ کے آغاز سے ایک دن قبل ”سات نکاتی“ ایجنڈے کا اعلان فرما دیا۔ ارشاد ہوا کہ چار نکات تو اسلام آباد جا کر بتاؤں گا البتہ تین نکات یہ ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان فی الفور ختم کر دیا جائے، آئین کے آرٹیکلز62 اور 63 کی پاسداری کا اہتمام کیا جائے اور شریف النفس نگران حکومت قائم کی جائے۔ حضرت نے زور دے کر کہا کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جون2012ء کے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے۔ شاید حضرت کو علم نہیں کہ یہ ہماری قومی تاریخ کا پہلا الیکشن کمیشن ہے جس پر نہ صرف پارلیمینٹ کے اندر بلکہ پارلیمینٹ کے باہر بھی بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ایک ایسی معتبر قومی شخصیت کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔ حضرت شیخ الاسلام عدالت عظمیٰ کے جس فیصلے کی کاپیاں لہرا لہرا کر دہائی دے رہے ہیں۔ اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے اس کمیشن کی ستائش کی ہے۔ عدالت نے ماضی کے شرمناک انتخابی تجربات کا حوالہ دے کر بتایا ہے کہ بیسویں آئینی ترمیم نے کمیشن کو طاقتور اور موثر بنا دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے الفاظ ہیں۔
"In light of the powers and independence that the election commission enjoyes today, such as unfortunate abuse of power and disregard of the constitutional dictate to establish and preserve democracy, seems impossible".
(ان اختیارات اور اس آزادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو آج کے الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، یہ ممکن نہیں رہا کہ طاقت کا افسوسناک غلط استعمال کیا جا سکے یا جمہوریت کی بقا و تحفظ کے بارے میں آئینی تقاضوں کی بے توقیری ہو سکے)۔
موجودہ حالات میں یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک بے اعتبار اور جانبدار نگراں حکومت بن سکے۔ سینیٹر اسحاق ڈار اور سینیٹر رضا ربانی کے ناموں کا ذکر محض تمسخر ہے۔ آرٹیکلز 62 اور 63 پہلے ہی بروئے کار ہیں۔ کوئی شخص کسی کے خلاف ان آرٹیکلز کے نفاذ کیلئے عدالتوں میں جا سکتا ہے، تو پھر حضرت کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ انہیں فکر کھائے جا رہی ہے کہ امیدوار روپے پیسے کا بے تحاشہ استعمال کریں گے۔ کوئی پوچھے کہ ان کے جلسہٴ عام اور اس بے سروپا مارچ پر اٹھنے والے اربوں روپے کس آسمان سے برسے ہیں۔ کیا عقیدت مندان منہاج القرآن نے اپنے زیورات اور اثاثے اس ناٹک کیلئے حضرت کی نذر کئے تھے؟
افسوس کہ پانچ سالہ شطرنجی سیاست کے بعد آج بھی پیپلز پارٹی کرتبوں اور چالوں میں الجھی ہوئی ہے۔ وہ حضرت کے لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی اصولی اور نظریاتی موقف اختیار نہیں کر سکی۔ لازم تھا کہ کینیڈا کے شیخ الاسلام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا۔ ملاقاتوں اور مذاکرات کے ذریعے ایک بے اعتبار سے ڈرامے کو معتبر بنانے کی کوشش کی گئی۔ کسی نے نہ سوچا کہ اگر ایک غیر ملکی شہری کو اس طرح بلیک میلنگ کی اجازت دے دی گئی تو سیلِ بلا کہاں جا کر تھمے گا؟
اسلام آباد میں بلیو ایریا کا ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ ”مک مکا“ ہے یا کچھ اور لیکن سعودی پاک ٹاور کے قریب سرکاری اہلکار سی ڈی اے کے لوگ اور منہاج القرآن کے کارکن مشترکہ طور پر اسٹیج اور جلسہ گاہ تیار کر رہے ہیں۔ شہر افواہوں کی زد میں ہے،کہا جا رہا ہے کہ اس ناکام اور بے ذوق ڈرامے کے اسکرپٹ رائٹرز، ہدایت کار اور اصل کردار، پردے سے بہت دور بیٹھے ہیں۔ وہی افتخار عارف کی بات کہ #
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
آج مجھے اپنے آپ سے بھی گھن آئی۔ ہزارہ قبائل پر ٹوٹتے مظالم نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے اور ہم پیشہ ور مداریوں کی بازاری تماشا گری کے سرکسوں میں مگن بھول گئے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کن پستیوں میں لڑھک رہا ہے۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
کالم کا لنک
 
کیا بھائی جی لفافہ کالم نگار کے کالم شیئر کر رہے ہیں:cool:
بھائی!آپ نے شاید وہ نہیں پڑھا
"ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں"
کالم شیئر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس سے مکمل اتفاق بھی کرتا ہوں
ہر سائیڈ کی رائے جاننا میری عادت ہے
 
Top