تمام دن جسے فرصت نہیں لطیفوں سے
وہ لو لگائے ہوئے بیٹھا ہے ادیبوں سے
حقیر جاننا اپنے سوا ہر اک کو ہے روگ
کہ جا کے ملیے گا حضرت کبھی طبیبوں سے
تمہاری شان کو روندیں گے اپنے پاؤں تلے
الجھنا پھر نہ کبھی تم یہ کم نصیبوں سے
نہ باز آئیں گے حق گوئی سے کبھی عاشق
جو باندھے جائیں یہ صحراؤں میں صلیبوں سے
کتابیں اپنی چھپا رکھ اگر ہے علم کا شوق
تو آ کے سیکھ لے جاہل کچھ اِن غریبوں سے
مجھے نہیں ہے کہ غصے میں ہی رہوں ہر وقت
کہ تنگ آیا ہوا ہوں میں تم حریفوں سے
ادب تو اب بھی یہی میں کہوں گا، ہے اسلام
سمجھ میں آئے نہ ٹھٹھوں سے یا لطیفوں سے
آخری تدوین: