تمام کفر کی دنیا کھڑی ہے اک جانب ۔۔۔ سعد اللہ شاہ

الف نظامی

لائبریرین
تمام کفر کی دنیا کھڑی ہے اک جانب
تُو ایک عافیہ تنہا کھڑی ہے اک جانب

میں کیا کہوں تجھے اے عافیہ! تُو ناداں ہے
یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تُو مسلماں ہے

ترا یہ جرم کہ تو اس قدر ذہین ہے کیوں
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں نشین ہے کیوں

تری یہ جراتِ اظہار تیری دشمن ہے
بھلا تُو کس لیے امریکیوں سے بدظن ہے

ترے مزاج میں تلخی بھری بغاوت ہے
ترے عمل سے ہویدا تری شجاعت ہے

تجھے یہ عدل ملا ہے نہ یہ عدالت ہے
یہ اہلِ حق سے فقط کفر کی عداوت ہے

سو ظلم و جبر کی طاقت تجھے جھکا نہ سکی
صراطِ حق سے ذرا سا تجھے ہٹا نہ سکی

پہاڑ ظلم کے تجھ پر جو آہ ٹوٹے ہیں
ہر ایک آنکھ سے رہ رہ کے اشک پھوٹے ہیں

گلہ میں کیسے کروں اپنے حکمرانوں سے
نہیں ہے اٹھنے کا یہ بوجھ ان کے شانوں سے

یہ بے بصر ہیں‘ انہیں کچھ نظر نہیں آتا
جو راہبر ہے‘ وہی راہ پر نہیں آتا

نہ اشک آنکھ میں باقی‘ نہ دل ہے سینے میں
ہے فرق کیا مرے مرنے میں اور جینے میں

یہ چند لفظ ہیں تیرے لیے مری بہنا!
مجھے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہنا

یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے
سعداللہ شاہ
 
Top