مبارکباد تما اہلیانِ وطن کو یومِ پاکستان 2010 مبارک ہو۔

ایم اے راجا

محفلین
تمام اہلیانِ وطن کو یومِ پاکستان 2010 کی پیشگی مبارکباد قبول ہو۔
آئیں اس موقع پر ملکر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کے وہ وطنِ پاک کو نظرِ بد سے محفوظ رکھے اور اسے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
 

یونس عارف

محفلین

میری اور ایرانیوں کی جانب سے بھی یومِ پاکستان تمام پاکستانی بہن بھائیوں کو مبارک ہو
اللہ تعالیٰ وطنِ پاک کو نظرِ بد سے محفوظ رکھے اور اسے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
 

کاشفی

محفلین
اہلِ کراچی کی طرف سے تمام اہل وطن کو یومِ پاکستان مبارک ہو
PAKISTAN-KHI-01.jpg

Khi-01.jpg
 

فرذوق احمد

محفلین
چاہے حکمران جیسے بھئ ہیں ،، مگر پاکستان تو پھر بھی ہمارا ہی ہے ،، اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان کے مسائل حل ہو۔ اور کوئی اچھا سچا حکمران پاکستان کو نصیب ہو۔۔جو کم ازکم بجلی کا مسئلہ تو حل کر دیں ۔۔۔۔

سب کو یومِ پاکستان مبارک ہو
 
23_march_mubarak.jpg


مجھ کو اسے دیکھنا بہت ہے
پرچم مرا خوش نما بہت ہے
سورج سے بڑی ہے اس کی چھاؤں
یہ ایک شجر گھنا بہت ہے
بہتا ہے جو زندگی کی خاطر
وہ خون پکارتا بہت ہے
لب رکھ لئے میں نے اس پہ جھک کر
اس خاک کو چومنا بہت ہے
سمجھے نہ کوئی کہ حبس میں ہیں
اس گھر میں ابھی ہوا بہت ہے
توڑے نہ کوئی مرا گھروندا
بس ایک یہی دعا بہت ہے
سب عیب مرے ہنر کئے ہیں
اس دھرتی میں مامتا بہت ہے
میں گود میں تیری چھپ گئی ہوں
آغوش میں تیری کشا بہت ہے
لے لے مجھے اپنی اوڑھنی میں
اک ماں کی یہی ادا بہت ہے
********************************
(شاہدہ حسن)
 

کاشفی

محفلین
یومِ پاکستان

بے وطن بے آسرا محصورینِ مشرقی پاکستان کی طرف سے تمام پاکستانیوں کو یومِ پاکستان مبارک ہو
2-26.jpg

12-5.jpg

13-4.jpg

1-27.png

2-28.jpg
 

میر انیس

لائبریرین
پانی بند ہو یا بجلی جائے پاکستان میں ہی رہنا ہے
گھر کی خاطر سو دُکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے۔
یا اللہ میرے پیارے اور بہت ہی پیارے وطن کی حفاظت کر چاہے ہم رہیں یا نہ رہیں یہ ہمیشہ سر سبز و شاداب رہے۔ آمین میری طرف سے بھی سب اہلِ وطن کو یومِ پاکستان مبارک ہو۔
 

دوست

محفلین
کسی کو یاد ہے یہ دن پاکستان کا پہلا آئین منظور ہونے کی خوشی میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جانا تھا لیکن ایوب خاں نے اسے بڑی چابکدستی سے یوم جمہوریہ سے یوم پاکستان میں بدل ڈالا۔ آخر ایک آمر جمہوریت کو کیسے برداشت کرسکتا تھا خود تو وہ جمہوریت پر شب خون مار کر آیا تھا۔
 

خاورچودھری

محفلین
راجا صاحب‘ آپ کو بھی یہ دن مبارک ہو۔ یہاں یہ دعا بھی ضروری ہے کہ اللہ اس ملک کو فتنہ کاروں کے غضب سے بچائے اور انسان کو احسن تقویم کی منزل سے آشنا کرے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
میری طرف سے بھی اہلِ وطن کو یومِ پاکستان مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا پاکستان کو منافقوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔ آمین

پاکستان کو کسی" فرد واحد نام نہاد مسیحا "کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اگر ضرورت ہے تو اہل وطن کے ہر شخص کو اس احساس کی کہ
اگرکوئی پاکستان کو کامیابی وکامرانی کے راستے پر ڈا ل سکتا ہے
تو وہ اس کا عام شہری ہے
جس کو اب "کالےانگریز" عوام کے نام سے بلاتے ہیں
جس دن یہ احساس اجاگر ہوا وہ دن "کالے انگریزوں" سے غلامی کے نجات کا دن ہوگا۔ انشاءاللہ

یہاں میں ایک کہانی آپ دوستوں‌کے ساتھ شریک محفل کرنا چاہتا ہوں جو میں نے بہت عرصہ پہلے ایک کتاب "سفید جزیرہ'' میں پڑھی تھی ، اس کہانی کو میں نے پہلے اپنے بلاگ پر بھی تحریر کیا ہے۔۔۔۔یہ کہانی پاکستانی قوم کے حالات سے مکمل مناسبت رکھتی ہے

ایک درویش اور اس کا کمسن چیلا شہر سے دور کسی جنگل میں رہتے تھے۔ درویش عام طورپر یادِخدامیں مصروف رہتا تھا اور چیلا آس پاس کی بستیوں سے بھیک مانگ کر اس کی خدمت کیا کرتا تھا۔

درویش کا دل انسانیّت کے درد سے لبریزتھا اور وہ صبح شام انتہائی سوزوگداز کے ساتھ یہ دعا کیا کرتا تھا “میرے پروردگار! میں ایک بے بس اور بے وسیلہ انسان ہوں اور تیرے بندوں کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا،
لیکن اگر تو مجھے بادشاہ بنا دے تو میری زندگی کا ہر سانس بھوکے اور ننگے انسانوں کی خدمت کے لیے وقف ہوگا۔ میں یتیموں، بیواؤں اور نادار لوگوں کی سرپرستی کروں گا۔ میں محتاجوں کے لیے لنگر خانے کھولوں گا۔
میں عدل و انصاف کا بول بالا کروں گا۔ رشوت خور اور بددیانت اہلکاروں کو عبرت ناک سزائیں دوں گا۔ مظلوم مجھے اپنی ڈھال سمجھیں گے اور ظالم میرے نام سے کانپیں گے۔ میں نیکی اور بھلائی کو پروان چڑھائوں گا۔

کمسن چیلے کو یہ یقین تھا کہ کسی دن مرشد کی دعا ضرور سنی جائے گی اورانکےدن پھر جائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا گیا۔ چیلا جوان ہوگیااورنیک دل درویش میں بڑھاپے کے آثارظاہر ہونے لگے۔
رفتہ رفتہ چیلے کے اعتقادمیں فرق آنےلگا، یہاں تک کہ جب درویش دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ اس کے قریب بیٹھنے کی بجائے چند قدم دور بیٹھتا اور دبی زبان سے یہ دعا شروع کر دیتا۔

“میرے پروردگار! اب میرا مرشد بوڑھاہوچکا ہے۔ اسکے بال سفید ہوچکے ہیں۔ دانت جھڑ چکے ہیں اور بینائی جواب دے چکی ہے۔ اب وہ مجھے تخت کی بجائے قبر سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے۔
اگر تجھے ایک نیک دل آدمی کا بادشاہ بننا پسند نہیں تو مجھے بادشاہ بنا دے۔ میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میرا ہر کام اپنے مرشد کی خواہشات کے الٹ ہوگا۔
میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں ناداروں کو زیادہ نادار اور بے بسوں کو زیادہ بے بس اور مظلوموں کو زیادہ مظلوم بنانےکی کوشش کروں گا۔
میں چوروں اور ڈاکوؤں کی سرپرستی کروں گا۔ میں شرفاء کو ذلیل کروں گا۔ اور ذلیلوں کو عزت کی کرسیوں پر بیٹھاؤں گا۔ میں راشی اور بد دیانت اہلکاروں کی سرپرستی کروں گا۔

ابتداءمیں یہ ہوشیار چیلا چُھپ چُھپ کر دعائیں کیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسکا حوصلہ بڑھتا گیا اور کچھ مدت بعد اس کی حالت تھی کہ جب مرشد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بھی اس کے قریب بیٹھ کرہی بلند آواز میں اپنی دعا دہرانی شروع کردیتا۔
درویش اپنی آنکھوں مین آنسو بھر کر یہ کہتا کہ اگر بادشاہ بن جاؤں تو عدل و انصاف نیکی اور سچائی کا بول بالا کروں اور چیلا قہقہ لگا کر یہ کہتا کہ اگر میں بادشاہ بن جاؤں تو ظلم اور بدی کا جھنڈا بلند کروں۔
درویش کہتا کہ میرے خزانے سے معذور اور نادار لوگوں کو وظائف ملیں گے اور چیلا یہ کہتا کہ میں ان پر سخت جرمانے عائد کروں گا۔ درویش اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتا اور بسا اوقات ڈنڈا اٹھا کر پیٹنا شروع کردیتا، لیکن چیلا اپنی روایتی نیازمندی کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔

پھر وہی ہوا جو پرانے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی ملک کا بادشاہ چل بسا اور تخت کے کئی دعویدار ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں آگئے۔
دور اندیش وزیر نے راتوں رات تمام دعوے داروں کو جمع کرکے یہ تجویز پیش کی کہ اب ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ شہر کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں اور علی الصباح باہر سے جو آدمی سب سے پہلے مشرقی دروازے پر دستک دے، اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جائے۔

یہ تجویز بااتفاق رائے منظور کی گئی۔ پھر یہ ہوا کہ نیک دل درویش کا چیلا بھیک مانگنے کے لیے کسی چھوٹی موٹی بستی کا رخ کرنے کے بجائے ملک کے دارالحکومت کی طرف جا نکلا۔
پو پھٹتے ہی اس نے شہر کے مشرقی دروازے پر دستک دی، پہریداروں نے دروازہ کھول کر اسےسلامی دی اور امراءاسے ایک جلوس کی شکل میں شاہی محل کی طرف لے گئے۔

نئے بادشاہ نے تخت پر رونق افروز ہوتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ میری سلطنت میں جتنے درویش، فقیر اور سادھو ہیں، انھیں کسی تاخیر کے بغیر گرفتار کرلیا جائے۔
اس حکم کی تعمیل کی گئی، لیکن خوش قسمتی سے نئے بادشاہ کے مرشد کو کسی طرح یہ پتہ چل گیا کہ اس کا ہوشیار چیلےکی دعا قبول ہوگئی ہے اور وہ سرحد عبور کرکے کسی دوسرے ملک میں چلا گیا۔

اسکے بعد جو ہوا، وہ کسی تشریح یا تبصرے کا محتاج نہیں۔ نئے بادشاہ نے پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے تمام وعدے پورے کیے۔ نہروں کا پانی بند کردیاگیا۔
کنوئیں اور تالاب غلاظت سے بھر دیے گئے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں سے نکال کر حکومت کا کاروبار سونپ دیاگیا۔ نیک خداپرست انسانوں پر ظلم کی انتہا کردیگئ۔

غرض ان داشمندوں کو سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی، جنہوں نے ملک کی بھلائی کے لیے ایک گداگر کو تخت پر بیٹھا دیا تھا۔ جب نئے بادشاہ کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو عوام کے لیڈروں نے اسکا حسب ونسب معلوم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔
سابق وزیراعظم کی قیادت میں ایک وفد تلاشِ بسیار کے بعد بادشاہ کے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے فریاد کی کہ خدا کے لیے ہمیں اس بلائے ناگہانی سے نجات دلائیے۔

عمررسیدہ درویش اپنے چیلے کے سامنے جانے سے گھبراتا تھا۔ لیکن ارکانِ وفدکی گریہ وزاری سے متاثر وہ یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوگیا۔
جب وہ دربار میں حاضرہواتوبادشاہ سلامت کواپنے پیرومرشدکی طرف دیکھتے ہی اپنا ماضی یاد آگیااوراس نے مرعوبیت کے احساس سے مرغوب ہوکرکہا۔ “پیرومرشد! فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

”درویش نے جواب دیا۔ “میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ میں صرف تمہاری رعایا کے لیے رحم کی اپیل کرنے آیا ہوں۔ تم اقتدار کے نشے میں وہ زمانہ بھول گئےہو، جب بھیک مانگا کرتے تھے۔ خدا سے ڈرو۔ یہ سب فانی ہے۔ اگر ہوسکے تو موت سے پہلے کوئی نیک کام کرلو۔”

بادشاہ نے تلخ ہوکر جواب دیا۔ “دیکھیئےقبلہ! آپ میری قوّتِ برداشت کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں۔
یہ آپکی خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے مرشد ہیں اور میں آپ پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ آپ مجھے جی بھر کر گالیاں دے سکتے ہیں، لیکن خدا کے لیے ان لوگوں کے ساتھ کسی نیکی کا مشورہ نہ دیں۔
آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ہی وقت میں دعا مانگا کرتے تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپکی دعا قبول نہ ہوئی اورقدرت نے مجھے بادشاہ بنا دیا؟ اگر ان لوگوں کے اعمال ٹھیک ہوتے اور قدرت کو ان کی بھلائی مقصود ہوتی تو آپ ان کے بادشاہ بنتے۔
لیکن یہ بد بخت تھے۔ انہیں اچھے برے کی تمیز نہ تھی اور قدرت انکی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے مجھے بادشاہ بنا دیا۔ اب میں مرتے دم تک اپنا پروگرام پورا کرتا رہوں گا۔ اگر قدرت کو انکی گریہ وزاری پر رحم آجائے اور میری زندگی کے دن پورے ہوجائیں تو اور بات ہے، ورنہ میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی”۔

نیک دل درویش نے جواب دیا۔”برخوردارتم بلکل ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ قدرت کی طرف سے کسی انعام یا بہتر سلوک کے مستحق ہوتے میری عمر بھر کی دعائیں رائیگاں نہ جاتیں۔
یہ لوگ جنہوں نے میرے بجائے تمہارے سرپر تاج رکھ دیا ہے، اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر رحم کیا جائے۔ تم شوق سے اپنا کام جاری رکھو”۔۔!!
 
Top