با ادب
محفلین
تمنائی
میم !
میں نے اس التجائیہ پکار کو سنی ان سنی کر دیا ۔
میم! دوبارہ منمنانے کی آواز آئی ۔
فائلوں کے ڈھیر پہ سر جھکائے میں نے تنبیہی لہجہ اختیاد کیا ۔
اگر چھٹی لینے آئی ہیں تو کوئی فائدہ نہیں منمنانے کا ۔ چھٹی نہیں مل سکتی ۔
میم آپکو مدینہ بہت پسند ہے نا؟ ؟
بچی نے کاری وار کیا تھا ۔ اس نے فقط رکتے ہاتھ دیکھے ساکت ہوتا دل نہیں دیکھا تھا ۔
کیا کہنا ہے؟ ؟ ہمت مجتمع کر کے بچی کو توجہ دی
میں عمرے کے لیے جا رہی ہوں میم ۔ لیکن آپکو مدینہ پسند ہے نا میں وہاں سے آپکو ویڈیو کال کرونگی آپ کو ہر جگہ دکھاؤنگی ۔
بچی کی سادگی اور معصومیت پہ میں مسکرا دینے کے سوا کیا کر سکتی تھی ۔
میں جانتی تھی میں مدینہ نہیں دیکھ سکتی ۔ وہاں کا تصور نہیں کر سکتی ۔ ابھی وہ سب بھولا تو نہیں تھا ۔ جب دل کی دھڑکن رک گئی تھی اور دم گھٹتا تھا ۔
تب بھی ایسی ہی ایک پیاری بچی نے مجھ سے کہا تھا ۔ آپکے لیے وہاں جا کے کیا مانگوں؟ ؟
کچھ مت مانگنا بیٹا بس ایک عرض گزار دینا ۔
انکے روضے پہ جاؤ تو میرا نام لے کے سلام کہہ دینا فقط ۔ کہنا مجھے انکی بہت یاد آتی ہے ۔
" بچپن میں میں نے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سن تھا ۔ ایک وقعہ وہ تھا جب کسی سلمان رشدی کے ذکر پہ ابا دکھ اور تکلیف میں ہوتے اور کبھی گھر میں ذکر ہوتا کہ ختم نبوت کانفرنس ہے آج ابا وہاں گئے ہیں ۔
یہ باتیں کبھی سمجھ نہیں آئیں ۔ بس ہم سرسری سا سن لیا کرتے تھے ۔
اماں سبق کچھ یوں یاد کرواتیں کہ پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ہمارے آخری نبی کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
پہلا واقعہ کتابوں میں پڑھا ۔ کہ ایک عورت کوڑا کرکٹ کا ٹوکرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ روز پھینکا کرتی ۔ اور ایک دن جب وہ موجود نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی عیادت کے لیے گئے ۔
دوسرا واقعہ میرے ذہن میں اسلامیات کی کتاب میں پڑھا جانے والا وہ واقعہ ہے جب آپ صلعم ایک شخص سے وعدہ کرتے ہیں اور تین دن اسکے آنے کے انتظار میں وہیں اسی جگہ پہ کھڑے رہتے ہیں ۔
پھر سراقہ بن جعشم کا واقعہ مجھے مسحور کرتا ۔ ویسے ہی جیسے کوئی دیو مالائی کہانیاں بچوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ۔ کہ کیسے سراقہ بن جعشم کے گھوڑے کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے ۔
اور بد کا واقعہ جب بدو تلوار سونت کے پوچھتا ہے کہ بتا آج تجھے کون بچائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں ۔
اللہ
تو ہیبت سے بدو کے ہاتھ سے تلوار گرجاتی ہے اس لمحے کی گرفت مجھے جکڑ لیا کرتی تھی ۔ مجھے لگتا سپر ہیرو ایسے ہی ہوتے ہیں اعلیٰ اخلاق والے جری دلیر باکردار ۔
عہد جوانی میں واقعہ افک پڑھتے ہوئے مجھے حضرت عائشہ کے دلبرانہ انداز نے اپنا اسیر کیے رکھا جب اللہ انکی برأت نازل فرماتے ہیں اور انکے والدین انھیں اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر ادا کرنے کا کہتے ہیں تو انکا ڈھکا چھپا شکوہ مجھے محبت کی ترجمانی لگتی ہے کہ میں تو فقط اللہ کا شکر ادا کرونگی ۔
محبوب شوہر کی ظاہری بے گانگی نے دل کو دکھی کیا تھا ۔
یہ سب کہانیاں مجھے پسند تھیں ۔ لیکن میں نے انھیں ہمیشہ کہانیاں سمجھا تھا ۔ مجھے لگتا یہ ویسی ہی کہانیاں ہیں جیسی ہم ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع کر کے پڑھتے ہیں ۔
لیکن ایک دن سب بدل گیا ۔ اچانک دل.کی اندھیر نگری میں جیسے کوئی چراغ سا روشن ہوگیا ۔ اس دن مجھے یہ سب کردار جیتے جاگتے حقیقی انسان لگے ۔ اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے میرے دل کو جکڑ لیا ۔
یونیورسٹی جاتے ہوئے راستے میں ایک مسجد آتی تھی ۔ وہاں سے روز گزر ہوتا ۔ اُس دن مولوی صاحب نہایت دل گرفتہ ہو کے ڈنمارک کے مسموم عزائم کو بیان کر رہےتھے ۔
انھوں نے نعوذ باللہ نعوذ باللہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائے ۔
میرے قدم رک گئے تھے ۔ آنکھوں سے سیل رواں جاری تھا ۔ دل عجیب درد میں مبتلا ہو گیا تھا ۔
میرا جی چاہتا میں مولوی صاحب سے کہوں خدارا ایسی بات مت کیجیے آپ خاموش ہو جائیے ۔
دنیا کا کوئی شخص کچھ بھی کر لے آپکی شان میں کبھی کمی نہیں آسکتی ۔
خدارامت کہیے کہ دنیا میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شفیق ہستی سے محبت کے سوا بھی کوئی جذبہ پال سکتا ہے
اس دن طبیعت بے حد مکدر رہی ۔ دل دردمیں مبتلا رہا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت شدید تر ہوگئی
۔ کبھی میں جنت کی آرزومند ہوا کرتی تھی ۔ پھر زندگی میں فقط ایک آرزو رہ گئی ۔ کہیں سے آپ مل جائیں اور میں آپکے سینے سے لگ کے بے تحاشا رو لوں ۔
آپکو بتاؤں میرے آقا میرے محبوب سیدی میری جان آپ پہ قربان میرے والدین آپکے نثار جائیں مجھے آپ سے کس قدر محبت ہے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ۔
پھر زندگی کا مقصد یہی رہ گیا کہ جب بھی زندگی کا خاتمہ ہو تو اللہ تبارک و تعالی مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروا دیں ۔
دنیا میں کوئی تکلیف ملتی عزیز از جان شوہر شفیق والد سے ناراضی ہوتی میں ان سے ناراضی صرف اس بات پہ ختم کرتی میں آپکی شکایت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے لگاؤنگی ۔
اور پھر رمضان کے آخری عشرے میں اس بچی نے مجھ سے کہا ۔ میں اللہ لے گھر میں آپکے لیے کیا مانگوں ۔
نہیں مانگنا نہیں ہے ۔ بس میرا نام لے کہ سلام کہنا ہے ۔
جس دن وہ روضہ رسول پہ گئی اس دن اسلام آباد کی فضا میں میرا دم گھٹتا تھا ۔ آنسو خود بخود بہتے تھے ۔ میں نے کہا تھا میرا سلام کہو تو مجھے بتا دینا ۔
لیکن کوئی فون کوئی پیغام نہیں آیا ۔
دل کا عالم یہ تھا کہ آنسو بہتے جاتے اور کسی طور خشک ہونے میں نہیں آتے تھے ۔ حالانکہ عام طور پہ مجھے رونا بہت مشکل سے آتا ہے بہت جد وجہد سے بھی آنکھوں میں آنسو نہیں آ پاتے ۔
لیکن اس دن آنکھوں کے آنسو خشک ہونے میں نہیں آتے تھے۔
آدھی رات ایک وائس میسج آتا ہے ۔ ہچکیوں آنسوؤں سے بھرا ۔
میم آپ نے ظلم کر دیا مجھ پہ اور خود پہ ۔ آپکا نام لے کے سلام کہا ہے اور اسکے بعد میں اتنا روئی کہ مجھے لگتا میرا دل پھٹ جائے گا ۔ میرا وجود بے دم ہے ۔ بیس گھنٹے گزر چکے ۔ میں اب تک کانپ رہی ہوں ۔
میری کیفیت کیا ہے بتانا ممکن نہیں ۔
لیکن میں اس کیفیت کو جانتی تھی ۔ وہ محبت کی شدت تھی یا دوری اور جدائی کا غم ۔ تفریق کرنا ممکن نہیں تھا ۔
اور اب ایک اور بچی میرے سامنے کھڑی مجھ سے پوچھتی ہے آپکو مدینہ بہت پسند ہے نا ۔
میں وہاں آپکے لیے کیا کہوں؟ ؟
لیکن لب خاموش ہیں اور آنکھوں سے سیل رواں بہتا ہے ۔
مدینہ والوں سے مزید جدائی اب برداشت نہیں ہوتی ۔ فقط یہی کہہ دینا ۔
اے کاش یہ دوری ختم ہو ۔
سمیرا امام
میم !
میں نے اس التجائیہ پکار کو سنی ان سنی کر دیا ۔
میم! دوبارہ منمنانے کی آواز آئی ۔
فائلوں کے ڈھیر پہ سر جھکائے میں نے تنبیہی لہجہ اختیاد کیا ۔
اگر چھٹی لینے آئی ہیں تو کوئی فائدہ نہیں منمنانے کا ۔ چھٹی نہیں مل سکتی ۔
میم آپکو مدینہ بہت پسند ہے نا؟ ؟
بچی نے کاری وار کیا تھا ۔ اس نے فقط رکتے ہاتھ دیکھے ساکت ہوتا دل نہیں دیکھا تھا ۔
کیا کہنا ہے؟ ؟ ہمت مجتمع کر کے بچی کو توجہ دی
میں عمرے کے لیے جا رہی ہوں میم ۔ لیکن آپکو مدینہ پسند ہے نا میں وہاں سے آپکو ویڈیو کال کرونگی آپ کو ہر جگہ دکھاؤنگی ۔
بچی کی سادگی اور معصومیت پہ میں مسکرا دینے کے سوا کیا کر سکتی تھی ۔
میں جانتی تھی میں مدینہ نہیں دیکھ سکتی ۔ وہاں کا تصور نہیں کر سکتی ۔ ابھی وہ سب بھولا تو نہیں تھا ۔ جب دل کی دھڑکن رک گئی تھی اور دم گھٹتا تھا ۔
تب بھی ایسی ہی ایک پیاری بچی نے مجھ سے کہا تھا ۔ آپکے لیے وہاں جا کے کیا مانگوں؟ ؟
کچھ مت مانگنا بیٹا بس ایک عرض گزار دینا ۔
انکے روضے پہ جاؤ تو میرا نام لے کے سلام کہہ دینا فقط ۔ کہنا مجھے انکی بہت یاد آتی ہے ۔
" بچپن میں میں نے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سن تھا ۔ ایک وقعہ وہ تھا جب کسی سلمان رشدی کے ذکر پہ ابا دکھ اور تکلیف میں ہوتے اور کبھی گھر میں ذکر ہوتا کہ ختم نبوت کانفرنس ہے آج ابا وہاں گئے ہیں ۔
یہ باتیں کبھی سمجھ نہیں آئیں ۔ بس ہم سرسری سا سن لیا کرتے تھے ۔
اماں سبق کچھ یوں یاد کرواتیں کہ پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور ہمارے آخری نبی کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
پہلا واقعہ کتابوں میں پڑھا ۔ کہ ایک عورت کوڑا کرکٹ کا ٹوکرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ روز پھینکا کرتی ۔ اور ایک دن جب وہ موجود نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی عیادت کے لیے گئے ۔
دوسرا واقعہ میرے ذہن میں اسلامیات کی کتاب میں پڑھا جانے والا وہ واقعہ ہے جب آپ صلعم ایک شخص سے وعدہ کرتے ہیں اور تین دن اسکے آنے کے انتظار میں وہیں اسی جگہ پہ کھڑے رہتے ہیں ۔
پھر سراقہ بن جعشم کا واقعہ مجھے مسحور کرتا ۔ ویسے ہی جیسے کوئی دیو مالائی کہانیاں بچوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ۔ کہ کیسے سراقہ بن جعشم کے گھوڑے کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے ۔
اور بد کا واقعہ جب بدو تلوار سونت کے پوچھتا ہے کہ بتا آج تجھے کون بچائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں ۔
اللہ
تو ہیبت سے بدو کے ہاتھ سے تلوار گرجاتی ہے اس لمحے کی گرفت مجھے جکڑ لیا کرتی تھی ۔ مجھے لگتا سپر ہیرو ایسے ہی ہوتے ہیں اعلیٰ اخلاق والے جری دلیر باکردار ۔
عہد جوانی میں واقعہ افک پڑھتے ہوئے مجھے حضرت عائشہ کے دلبرانہ انداز نے اپنا اسیر کیے رکھا جب اللہ انکی برأت نازل فرماتے ہیں اور انکے والدین انھیں اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر ادا کرنے کا کہتے ہیں تو انکا ڈھکا چھپا شکوہ مجھے محبت کی ترجمانی لگتی ہے کہ میں تو فقط اللہ کا شکر ادا کرونگی ۔
محبوب شوہر کی ظاہری بے گانگی نے دل کو دکھی کیا تھا ۔
یہ سب کہانیاں مجھے پسند تھیں ۔ لیکن میں نے انھیں ہمیشہ کہانیاں سمجھا تھا ۔ مجھے لگتا یہ ویسی ہی کہانیاں ہیں جیسی ہم ایک دفعہ کا ذکر ہے سے شروع کر کے پڑھتے ہیں ۔
لیکن ایک دن سب بدل گیا ۔ اچانک دل.کی اندھیر نگری میں جیسے کوئی چراغ سا روشن ہوگیا ۔ اس دن مجھے یہ سب کردار جیتے جاگتے حقیقی انسان لگے ۔ اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے میرے دل کو جکڑ لیا ۔
یونیورسٹی جاتے ہوئے راستے میں ایک مسجد آتی تھی ۔ وہاں سے روز گزر ہوتا ۔ اُس دن مولوی صاحب نہایت دل گرفتہ ہو کے ڈنمارک کے مسموم عزائم کو بیان کر رہےتھے ۔
انھوں نے نعوذ باللہ نعوذ باللہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائے ۔
میرے قدم رک گئے تھے ۔ آنکھوں سے سیل رواں جاری تھا ۔ دل عجیب درد میں مبتلا ہو گیا تھا ۔
میرا جی چاہتا میں مولوی صاحب سے کہوں خدارا ایسی بات مت کیجیے آپ خاموش ہو جائیے ۔
دنیا کا کوئی شخص کچھ بھی کر لے آپکی شان میں کبھی کمی نہیں آسکتی ۔
خدارامت کہیے کہ دنیا میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شفیق ہستی سے محبت کے سوا بھی کوئی جذبہ پال سکتا ہے
اس دن طبیعت بے حد مکدر رہی ۔ دل دردمیں مبتلا رہا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت شدید تر ہوگئی
۔ کبھی میں جنت کی آرزومند ہوا کرتی تھی ۔ پھر زندگی میں فقط ایک آرزو رہ گئی ۔ کہیں سے آپ مل جائیں اور میں آپکے سینے سے لگ کے بے تحاشا رو لوں ۔
آپکو بتاؤں میرے آقا میرے محبوب سیدی میری جان آپ پہ قربان میرے والدین آپکے نثار جائیں مجھے آپ سے کس قدر محبت ہے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ۔
پھر زندگی کا مقصد یہی رہ گیا کہ جب بھی زندگی کا خاتمہ ہو تو اللہ تبارک و تعالی مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروا دیں ۔
دنیا میں کوئی تکلیف ملتی عزیز از جان شوہر شفیق والد سے ناراضی ہوتی میں ان سے ناراضی صرف اس بات پہ ختم کرتی میں آپکی شکایت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے لگاؤنگی ۔
اور پھر رمضان کے آخری عشرے میں اس بچی نے مجھ سے کہا ۔ میں اللہ لے گھر میں آپکے لیے کیا مانگوں ۔
نہیں مانگنا نہیں ہے ۔ بس میرا نام لے کہ سلام کہنا ہے ۔
جس دن وہ روضہ رسول پہ گئی اس دن اسلام آباد کی فضا میں میرا دم گھٹتا تھا ۔ آنسو خود بخود بہتے تھے ۔ میں نے کہا تھا میرا سلام کہو تو مجھے بتا دینا ۔
لیکن کوئی فون کوئی پیغام نہیں آیا ۔
دل کا عالم یہ تھا کہ آنسو بہتے جاتے اور کسی طور خشک ہونے میں نہیں آتے تھے ۔ حالانکہ عام طور پہ مجھے رونا بہت مشکل سے آتا ہے بہت جد وجہد سے بھی آنکھوں میں آنسو نہیں آ پاتے ۔
لیکن اس دن آنکھوں کے آنسو خشک ہونے میں نہیں آتے تھے۔
آدھی رات ایک وائس میسج آتا ہے ۔ ہچکیوں آنسوؤں سے بھرا ۔
میم آپ نے ظلم کر دیا مجھ پہ اور خود پہ ۔ آپکا نام لے کے سلام کہا ہے اور اسکے بعد میں اتنا روئی کہ مجھے لگتا میرا دل پھٹ جائے گا ۔ میرا وجود بے دم ہے ۔ بیس گھنٹے گزر چکے ۔ میں اب تک کانپ رہی ہوں ۔
میری کیفیت کیا ہے بتانا ممکن نہیں ۔
لیکن میں اس کیفیت کو جانتی تھی ۔ وہ محبت کی شدت تھی یا دوری اور جدائی کا غم ۔ تفریق کرنا ممکن نہیں تھا ۔
اور اب ایک اور بچی میرے سامنے کھڑی مجھ سے پوچھتی ہے آپکو مدینہ بہت پسند ہے نا ۔
میں وہاں آپکے لیے کیا کہوں؟ ؟
لیکن لب خاموش ہیں اور آنکھوں سے سیل رواں بہتا ہے ۔
مدینہ والوں سے مزید جدائی اب برداشت نہیں ہوتی ۔ فقط یہی کہہ دینا ۔
اے کاش یہ دوری ختم ہو ۔
سمیرا امام