محمد بلال افتخار خان
محفلین
(میری یہ آپ بیتی سب سے پہلے میرے بلاگ پر میں نے پبلش کی تھی جسے بعد میں کئی لوگوں نے دوسرے فورمز پر اپنے نام سے شائع کیا۔ آج میں اپ ڈیٹ کرنے کے بعد دوبارہ پبلش کر رہا ہوں۔ )
کچھ روز پہلے ایک قریبی رشتہ دار سے کئی برسوں بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے سوال کیا کہ بھائی اتنے عرصے کہاں غائیب رہے ۔۔دو ہزار سات کے بعد آج دو ہزار بارہ میں ملاقات ہو رہی ہے۔۔
میرا بھائی بولا یار اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ بندہ اپنے رشتہ داروں دوستوں سے ملے۔۔ ویسے بھی آج کل کام آنے والے عزیزون سے ملا جاتا ہے جن سے فائیدا ہو ۔۔ جیسے کہ تمھارے ماموں ماشا ء اللہ ان کا اچھا خاصا بزنس ہے، کیویلری گرونڈ میں دو کنال کا گھر ہے ۔۔۔سیاسی تعلقات ہیں ۔۔۔
جواب سن کر میرا دل کچھ دیر کے لئے لرز گیا ۔۔۔کیا میرے خاندان میں بھی مفاد پرستی آ گئی ہے۔۔ پھر خیال آیا شاید میں بہت پیچھے رہ گیا ہوں ۔۔ مس فٹ ہوں ماڈرن زمانے ۔۔۔اور رکھ رکھاو کے لحاظ سے۔۔۔
دوستو مجھ پر دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک کا وقت بہت سخت گزرا ہے۔۔ والدیں کی اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے من مانی کا شکار رہا۔۔ والد صاحب ،اللہ ان کی عمر دراز کرے اور صحت اور خوشیان دے ۔۔۔ نے بہتر سے بہتر سکولوں میں پڑھایا اور اپنی بساط کے مطابق ہر سہولت دی ۔۔ لیکں میں نے ان کی محبتون کا غلط فائیدا اٹھا یا اور کم ظرفی کا مظاہرا کیا۔۔۔ اسی خود سری کی وجہ سے پہلے میں نے ایف ایس سی میں، کیمسٹری میں سپلی کی وجہ سے سال ذائع کیا۔۔ پھر دو سال۔۔۔ بی ایس سی میں فیل ہو کر ضائع کئے ۔۔ اور اس کے بعد پرائیوٹ بی اے کیا ۔
پھر لاء کالج میں داخلہ لیا والد کے لاکھوں روپے ذائع کروائے ۔۔اور دو بار ایل ایل بی پارٹ ٹو میں فیل ہونے کے بعد ایل ایل بی بھی چھوڑ دی۔۔
میری اپنی خود سری تھی کہ میں ہر مقام پر رسوا ہوا۔۔ اور یقیناً جو اپنے نفس کو اپنا خدا بنا لیتے ہیں ۔۔۔خود سر ہو جاتے ہیں وہ رسوا اور ذلیل ہی ہوتے ہیں۔۔
مجھ پر ایک وقت ایسا آیا کہ میرے والد کو مجھے کہنا پرا ۔۔۔ بیٹا اب میں تم پر ایک پیسہ نہیں خرچ سکتا ۔۔کیونکہ جو کچھ رہ گیا ہے وہ تمھاری بہنوں کا حصہ ہے۔۔۔ تم میرے گھر میں رہو کھاو پیو لیکں یہ امید نہ رکھو کہ میں تمھاری کوئی مدد کرون گا کیونکہ میں ریٹائرڈ بندہ ہوں اور ایک ناکام اور کاہل بیٹے کے لئے کسی کو سفارش کرنا میرے لئے مشکل ہے ۔۔۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ میری جیب خالی ہوتی تھی۔۔ابو کی ٕمحدود تنخواہ اور پینشن سے اچھا گزارہ تو ہو جاتا لیکں بچت نہیں ہو سکتی تھی۔۔میرا جیب خرچ بھی تھوڑا تھا۔۔ سگرٹ پینے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے ۔۔ کوئی دکاں ایسی نہ تھی جہاں ادھار نہ کیا ہو۔۔ ٹوٹے سلیپرز پہنے ادھار کے سگرٹ پی کر زندگی سے بدلہ لینے کو دل کرتا ۔۔ کبھی خودکشی کو دل کرتا لیکں فطری بزدلی ایسا کرنے نہ دیتی۔۔
کسی کو سلام کرتا ۔۔تو کوئی جواب دینا پسند نہ کرتا ۔۔کوئی کیونکر ایک ناکام انسان کو جواب دینے میں کوئی کیونکر وقت ضائع کرے۔۔ حد تو یہ ہو گئی کہ خود اپنا سایہ بھی جواب دینا چھوڑ گیا۔۔۔ بہنیں ماشاء اللہ لائیق تھیں اور میں نالائیق ۔۔ گھر میں میری حالت ایک عزت دار قسم کے ملازم جیسی بن گئی تھی۔۔
ایک روز میں والد صاحب کے دفتر میں تھا کہ کچھ والد صاحب کے دوست آ گئے۔۔۔ بات ان کی اولادوں کی کامیابی کی چلی۔۔۔ اس دن پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ والد صاحب اندر سے کتنا ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ ایک ایسا شخص جس نے زندگی میں صرف عزت کمائی آج کتنا دکھی ہے۔۔۔
خیر جب وہ دوست چلے گئے تو والد صاحب بولے ۔۔ بیٹا دیکھو میں تمھیں کہتا تھا پڑھو ۔۔میں تمھیں کہتا تھا کہ زندگی انسان کی مرضی سے نہیں گزرتی ۔۔لیکں تم نے میری باتوں پرتوجہ نہ دی ۔۔تم نے سوچا کہ میں تمھارا اور تمھاری خوشیوں کا دشمن ہوں۔۔ آج دیکھ لو تم کہان کھڑے ہو۔۔ آج میں بڑے دکھ سے تمھیں کہتا ہوں ۔۔ جس سیکیوڑٹی کمپنی کا میں جنرل مینیجر ہوں۔۔۔ اس میں تم سیکیوڑٹی گارڈ بھرتی ہو جاو ۔۔ پچیس سو محوار زیادہ تنخواہ تو نہیں ۔۔لیکن یہ مصروفیت تمھیں مزید ذلیل ہونے سے تو روک لے گی۔۔
ابو کی یہ بات سن کر مجھے آنسو آ گئے ۔۔ پہلی بار دل نے اعتراف کیا کہ میں غلط تھا ۔۔ غلط سوچون میں تھا۔۔ میں مکمل ٹوٹ گیا کیونکہ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ابو مجھے ایسا کچھ کہیں گے۔۔
جس دن میں ٹوٹا اور پارا پارا ہوا ۔۔ اسی ہفتے مجھ پر اللہ رب ذولجلال ولاکرام کی رحمت ہو گئی ۔۔ شاید ٹوٹنا ، دوبارہ بننے کی پہلی شرط ہے۔۔ ایک دوست گھر آیا اور بولا ۔۔اخبار میں پنجاب یونیوورسٹی میں ایڈمشنز کا اشتہار آیا ہے۔۔۔ سیاسیات کا ڈیپارٹمنٹ، نئی ڈگری شروع کر رہا ہے ۔۔ایم اے ڈپلومیسی ائینڈ سٹریٹیجک سٹڈیڈیز ۔۔ میں نے سوچا تجھے آرمی کاجنوں رہا ہے شاید تجھے اس سبجیکٹ میں دلچسپی ہو۔۔ میں نے بات سنی ، دل میں خیال آیا کہ مجھے یہ ایم اے ضرور کرنا چاہئے ۔۔۔ پھر دل سے ہی آوازآئی کہ کس منہ سے والد سے پیسے مانگوں ۔۔۔
چھوٹی بہن سے بات کی ۔۔ اس نے ابو سے بات کی۔۔ ابو نے مجھے بلایا ۔۔۔ اور پوچھا تم نے مجھ سے کیوں نہیں کہا کہ تم یہ ایم اے کرنا چاہتے ہو۔۔ میں نے سر جھکا لیا۔۔ ابو نے دوبارہ پوچھا ۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ اور بولا ابو کس منہ سے آپ سے بات کرتا ۔۔ ابھی تک جو کچھ کیا ہر چیز میں آپ کی امیدیں توڑیں ۔۔
ابو نے پھر پوچھا تم یہ ایم اے کرنا چاہتے ہو؟
میں نے کہا جی بلکل کرنا چاہتا ہوں۔۔
ابو نے کہا کل جا کر فارم لے آو۔۔
میں نے سر جھکائے کہا ۔ میں ٹیوشنز پڑھا کر فیس کر لوں گا ۔۔ آپ صرف ایڈمیشن فیس ۔۔۔
ابو بولے یار تو نے کیسے سوچ لیا کہ تو کچھ چاہے اور وہ میری پہنچ میں ہو میں تجھے نہ لے کر دوں۔۔ تو میرا بیٹا ہے۔۔جب باپ بنے گا ۔۔تب شاید تجھے ان جزبات کا احساس ہو جو میرے ہیں۔۔ جاو پڑھو جب تک تیرا باپ زندہ ہے تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔
میں دوسرے دن یونیوورسٹی گیا ۔۔ فارم لئے ۔۔ انٹرویو دیا ۔۔اور سلیکشن کے بعد کلاسز شروع کر دیں۔۔ میں نے یہ ایم اے ایسے کیا جیسے یہ ایک مزہبی فریضہ ہے۔۔ بلاخر دو سال بعد وہ فیلیر جو میٹرک کے بعد ہر کلاس میں اڑا ۔۔پوری یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن لے کر نکلا۔۔ بے شک اللہ رب ذولجلال ولااکرام عزت دینے والا ہے۔۔
ایم اے کے دور میں ہی تھرڈ سمیسٹر میں مجھے انسرجنسی ائینڈ کاونٹر انسرجنسی کی میڈم نے لبریشن ٹایگرز آف تامل ایلم پر پروجیکٹ دیا ۔۔الحمدو للہ پوری محنت سے میں نے اس پر کام کیا ۔۔ اور بالآخر میڈم نے میرے پروجیکٹ کو اپنی نئی آنے والی کتاب میں ایک چیپٹر کی شکل میں شامل کیا۔۔
ایم اے کے بعد میری خود اعتمادی کسی حد تک بحال ہوئی ۔۔ گو دو ہزار پانچ سے دو ہزار سات تک مجھے کوئی نوکری نہ ملی لیکن ایک لائین تھی جو مجھے مل گئی ۔۔ ابو بھی سب کے سامنے مجھ پر فخر کرتے اور انھیں فخر کرتا دیکھ کر مجھے ایسا لگتا کہ میرے ابو کی خوشی میرے رب کا مجھ سے راضی ہونے کی دلیل ہے ۔۔
دو ہزار سات میں مجھے رائیل ٹی وی میں سات ہزار پر نوکری ملی ۔ اور صرف ایک سال بعد میں ایک اچھی پوسٹ پر ،پاکستان کے بہترین چینل میں تھا۔۔۔ الحمدو للہ
آج میں۔۔۔۔ جسے اس کا سایہ بھی سلام کا جواب دینا پسند نہ کرتا تھا ۔۔اور جس کا ولد اس کی شکل دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے ۔۔ ایک اچھی نوکری کر رہا ہے۔۔
جسے کم ظرفی نے ذلیل کیا ۔۔ اور مکمل توڑ ڈالا۔۔ اسے ٹوٹنے کے بعد اس کے رب نے اپنی رحمت اور کرم سے دوبارہ بنا دیا۔۔۔ آج وہی ناکام شخص دو بیٹون اور دو نیک بخت بیٹیون کا باپ ہے۔۔
خیر بات ہو رہی تھی میری اپنے ایک بھائی سے ملاقات کی۔۔
میرے بھائی کا جواب میرے لئے تکلیف دہ تو تھا ۔ شاید یہ ہی ماڈرن زمانے کا اصول ہے۔۔ میں مسکرایااور جیب سے اپنا کارڈ نکال کر اسے دے دیا اور بولا بھائی اب رابطے میں رہئے گا۔۔۔ اب میں بھی آپ کا کار آمد رشتے دار بن چکا ہوں۔۔ اللہ کی رحمت ہے اور جن کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ بھی کئی بار میرے سے مدد مانگ چکے ہیں۔۔۔
دوستو انسان واقعتاً کتنا کم ظرف ہے۔۔ طاقت، پیسےاور اقتدار میں کتنی جلدی بھول جاتا ہے کہ یہ تمام چیزین کبھی کسی کی وفادار نہیں رہیں۔۔
مجھےاس کم ظرف اور متکبر شخص پر افسوس اور اس سے ہمدردی ہے ۔۔جو اپنی فطری کمزوریون اور اپنی ذات میں غیر محفوظ ہونے کا اقرار دوسروں سے متکبر بن کر کرتا ہے اور اس مٹکے کی طرح بن جاتا ہے جو خالی ہو اور اسی وجہ سے آواز زیادہ دے۔۔۔
دوستو !کبھی سوچو انسان جو اکڑتا پھرتا ہے اس کی اس دنیا میں کیا حیثیت ہے ۔۔ ہوا میں کچھ ہزار فٹ پر کھڑا بندہ تو اسے پہچان نہیں سکتا۔۔۔ پھر اس زمیں کی کیا حیثیت ہے ۔۔جس پر یہ انسان اکڑتا پھرتا ہے۔۔ یہ زمیں تو خود اپنے نظام شمسی میں ایک چھوٹا سیارہ ہے۔۔ پھر یہ نظام شمسی اس کہکشان میں ایک انتہائی چھوٹا نظام شمسی ہے اور ۔۔یہ کہکشان بھی تو اس کائینات میں کتنی چھوٹی کہکشان ہے۔۔ الغرض انسان اس چیز کا ادراک نہیں کرتا کہ اس کا ہونا اس کائینات میں ایسے ہی ہے جیسے ہمارے جسم میں پلنے والے وہ وائرسسز جنھیں بڑی مشکل سے الیکٹران مایکروسکوپ سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔
جب انسان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تو اس کا تکبر ۔۔۔۔تو ایسا ہی ہوا نا ۔۔جیسے ایک مسخرے کا مزاق جس میں بے عزتی اسی مسخرے کی ہے۔۔
حضور نبی کریم کو اللہ رب ذوالالجلال ولااکرام نے وہ مقام دیا جو کسی اور کو نہ دیا ۔۔آسمانوں پر احمد کہلانے والے جب زمیں پر ظہور پزیر ہوئےتو محمد کہلائے ۔۔ کوئی نبی صفی اللہ ، کوئی نجی اللہ کہلائے تو کوئی خلیل اللہ ۔۔لیکن یہ ہمارے آقا کا ہی اعجاز ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں محمد عبدہ و رسول اللہ کہا اور کہلوایا ۔۔۔
میں چینل فائیو میں تھا جو آج کل نیوز فائیو کہلاتا ہے ۔۔۔ جمعے کی نماز کے لئے دفتر کے سامنے والی مسجد میں گیا۔۔۔ مولوی صاحب معراج کا واقعہ بیان کر رہے تھے ۔۔۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم اللہ کے حضور پہنچے تو اللہ رب ذوالالجلال ولااکرام نے پوچھا ۔۔اے نبی صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم آپ میرے لئے کیا لائے
تو رسول رحمت نے فرمایا ۔۔۔
اے میرے رب میں تیرے دربار میں عاجزی کے ساتھ آیا ہوں۔۔
حضور جو وجہ تخلیق کائینات ہیں ۔۔ جو ایک طرف رحمت عالم ہیں تو دوسری طرف مخلوقات کو خبردار کرنے والے اور خوشخبری دینے والے ہیں ۔۔ ان کی امت پر فرض ہے کہ اپنے آقا سے آداب زندگی سیکھیں۔۔ وہ ہستی جس کی تعریف اور شان اللہ رب ذولجلال ولااکرام اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرون نے بیاں کی ۔۔کس قدر عاجزی، محبت اور رحمت کا پیکر تھی۔۔ سیرت پڑھو تو حیران رہ جاو گے۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم زمیں پر کھجور کی چٹائی پر سوتے، ٹوٹے ہوئے دلون کو جوڑتے ، دشمنون کے حق میں بھی دعا کرتے۔۔ قرض داروں سے نرمی برتتے، غریبون اور مسکینوں کو اپنے ساتھ بیٹھاتے ۔۔
آپ کی حیات طیبہ نے ہمیں سیکھایا کہ انسان اور دیگر مخلوقات کو صرف عاجزی ہی زیب دیتی ہے۔ یہ ہی عاجزی۔۔۔ اللہ کی طرف سے مخلوق پر رحمت کا سبب بنتی ہے ۔۔۔عاجز انسان ہی کو احسن تقویم کا رتبہ ملتا ہے اور اسے خلافت ارضی سے نوازا جاتا ہے۔۔
لیکن جب عاجزی اور اپنی خودی نے نا واقفیت اسے غرور اور کھمنڈ میں غرق کر دیتی ہے تو انسان کو اسفل السٰفلیں بنا دیتی ہے۔۔ ۔
ہم جو مرضی بن جائیں۔۔۔ ہیں مخلوق ہی۔ ۔۔۔
لا الہ الاللہ کا اقرار تب ہی مکمل ہوتا ہے اور سچی توحید تب ہی انسان میں داخل ہوتی ہے جب اسے خود اپنا نفس نہ نظر آئے۔۔نظر آئے تو صرف رب ذولجلال ولا اکرام کی ذات ہی نظر آئے۔۔
توحید جہاں عاجزی سیکھاتی ہے،وہان یہ ہی عاجزی مخلوق کے مقابلے میں حوصلہ اور ہمت دیتی ہے۔ توحید کے اقرار سے حاصل شدہ عاجزی انسان کو صاحب کردار بناتی ہے ۔۔با عمل بناتی ہے۔۔ توحید پرست اللہ رب ذوالالجلال کا فرما بردار ہوتا ہے۔۔ اس سے خیر نکلتی ہے ۔۔ اور یہ ہی خیر اسے دوسروں میں ممتاز کرتی ہے۔۔
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول مبارک ہے
جو اللہ کا فرما بردار نہیں اس سے خیر کی توقع مت رکھو۔۔۔
بے شک اللہ کا فرما بردار وہی بنا جو اپنی اوقات پہچان گیا ۔۔ لیکن اس مسخرے کو کیا کہیں جو خود کو نہ پہچان سکا اور شیطان کے راستے پر چلا۔۔
دوستو اللہ رب ذوالالجلال ولااکرام کی رحمت سے میں مکمل ٹوٹا۔۔ پھر اسی کی رحمت سے دنیا کی نظر میں کچھ بنا۔۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کل جو میرے برے وقت میں میرے دوست تھے میں ان کا مقروض ہوں مگر ۔۔۔جو میرے سلام کا بھی جواب نہ دیتے تھے میں ان کا بھی مقروض ہوں۔۔ ان کی محربانی سے مجھ پر وہ عقدے کھلے جو شاید ان کا ایسا نہ کرنے کی وجہ سے نہ کھلتے۔۔ میں بت پرست تھا ۔جو اللہ کی رحمت سے توحید کے راستے پر آیا ۔۔ گو کہ مجھ میں ابھی بھی کہیں نہ کہیں بت پرستی موجود ہے مگر میں اس کوشش میں ہوں کہ توحید پرست بنوں ۔۔
کوئی پوچھے کہ تمھاری اوقات کیا ہے ؟
تو صرف یہ ہی جواب دینا
کچھ نہیں، میری اوقات کچھ نہیں
میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو توحید پرست بنائے۔۔ عاجزی کی دولت عطا فرمائے اور فرما برداری کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین
کچھ روز پہلے ایک قریبی رشتہ دار سے کئی برسوں بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے سوال کیا کہ بھائی اتنے عرصے کہاں غائیب رہے ۔۔دو ہزار سات کے بعد آج دو ہزار بارہ میں ملاقات ہو رہی ہے۔۔
میرا بھائی بولا یار اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ بندہ اپنے رشتہ داروں دوستوں سے ملے۔۔ ویسے بھی آج کل کام آنے والے عزیزون سے ملا جاتا ہے جن سے فائیدا ہو ۔۔ جیسے کہ تمھارے ماموں ماشا ء اللہ ان کا اچھا خاصا بزنس ہے، کیویلری گرونڈ میں دو کنال کا گھر ہے ۔۔۔سیاسی تعلقات ہیں ۔۔۔
جواب سن کر میرا دل کچھ دیر کے لئے لرز گیا ۔۔۔کیا میرے خاندان میں بھی مفاد پرستی آ گئی ہے۔۔ پھر خیال آیا شاید میں بہت پیچھے رہ گیا ہوں ۔۔ مس فٹ ہوں ماڈرن زمانے ۔۔۔اور رکھ رکھاو کے لحاظ سے۔۔۔
دوستو مجھ پر دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک کا وقت بہت سخت گزرا ہے۔۔ والدیں کی اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے من مانی کا شکار رہا۔۔ والد صاحب ،اللہ ان کی عمر دراز کرے اور صحت اور خوشیان دے ۔۔۔ نے بہتر سے بہتر سکولوں میں پڑھایا اور اپنی بساط کے مطابق ہر سہولت دی ۔۔ لیکں میں نے ان کی محبتون کا غلط فائیدا اٹھا یا اور کم ظرفی کا مظاہرا کیا۔۔۔ اسی خود سری کی وجہ سے پہلے میں نے ایف ایس سی میں، کیمسٹری میں سپلی کی وجہ سے سال ذائع کیا۔۔ پھر دو سال۔۔۔ بی ایس سی میں فیل ہو کر ضائع کئے ۔۔ اور اس کے بعد پرائیوٹ بی اے کیا ۔
پھر لاء کالج میں داخلہ لیا والد کے لاکھوں روپے ذائع کروائے ۔۔اور دو بار ایل ایل بی پارٹ ٹو میں فیل ہونے کے بعد ایل ایل بی بھی چھوڑ دی۔۔
میری اپنی خود سری تھی کہ میں ہر مقام پر رسوا ہوا۔۔ اور یقیناً جو اپنے نفس کو اپنا خدا بنا لیتے ہیں ۔۔۔خود سر ہو جاتے ہیں وہ رسوا اور ذلیل ہی ہوتے ہیں۔۔
مجھ پر ایک وقت ایسا آیا کہ میرے والد کو مجھے کہنا پرا ۔۔۔ بیٹا اب میں تم پر ایک پیسہ نہیں خرچ سکتا ۔۔کیونکہ جو کچھ رہ گیا ہے وہ تمھاری بہنوں کا حصہ ہے۔۔۔ تم میرے گھر میں رہو کھاو پیو لیکں یہ امید نہ رکھو کہ میں تمھاری کوئی مدد کرون گا کیونکہ میں ریٹائرڈ بندہ ہوں اور ایک ناکام اور کاہل بیٹے کے لئے کسی کو سفارش کرنا میرے لئے مشکل ہے ۔۔۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ میری جیب خالی ہوتی تھی۔۔ابو کی ٕمحدود تنخواہ اور پینشن سے اچھا گزارہ تو ہو جاتا لیکں بچت نہیں ہو سکتی تھی۔۔میرا جیب خرچ بھی تھوڑا تھا۔۔ سگرٹ پینے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے ۔۔ کوئی دکاں ایسی نہ تھی جہاں ادھار نہ کیا ہو۔۔ ٹوٹے سلیپرز پہنے ادھار کے سگرٹ پی کر زندگی سے بدلہ لینے کو دل کرتا ۔۔ کبھی خودکشی کو دل کرتا لیکں فطری بزدلی ایسا کرنے نہ دیتی۔۔
کسی کو سلام کرتا ۔۔تو کوئی جواب دینا پسند نہ کرتا ۔۔کوئی کیونکر ایک ناکام انسان کو جواب دینے میں کوئی کیونکر وقت ضائع کرے۔۔ حد تو یہ ہو گئی کہ خود اپنا سایہ بھی جواب دینا چھوڑ گیا۔۔۔ بہنیں ماشاء اللہ لائیق تھیں اور میں نالائیق ۔۔ گھر میں میری حالت ایک عزت دار قسم کے ملازم جیسی بن گئی تھی۔۔
ایک روز میں والد صاحب کے دفتر میں تھا کہ کچھ والد صاحب کے دوست آ گئے۔۔۔ بات ان کی اولادوں کی کامیابی کی چلی۔۔۔ اس دن پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ والد صاحب اندر سے کتنا ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ ایک ایسا شخص جس نے زندگی میں صرف عزت کمائی آج کتنا دکھی ہے۔۔۔
خیر جب وہ دوست چلے گئے تو والد صاحب بولے ۔۔ بیٹا دیکھو میں تمھیں کہتا تھا پڑھو ۔۔میں تمھیں کہتا تھا کہ زندگی انسان کی مرضی سے نہیں گزرتی ۔۔لیکں تم نے میری باتوں پرتوجہ نہ دی ۔۔تم نے سوچا کہ میں تمھارا اور تمھاری خوشیوں کا دشمن ہوں۔۔ آج دیکھ لو تم کہان کھڑے ہو۔۔ آج میں بڑے دکھ سے تمھیں کہتا ہوں ۔۔ جس سیکیوڑٹی کمپنی کا میں جنرل مینیجر ہوں۔۔۔ اس میں تم سیکیوڑٹی گارڈ بھرتی ہو جاو ۔۔ پچیس سو محوار زیادہ تنخواہ تو نہیں ۔۔لیکن یہ مصروفیت تمھیں مزید ذلیل ہونے سے تو روک لے گی۔۔
ابو کی یہ بات سن کر مجھے آنسو آ گئے ۔۔ پہلی بار دل نے اعتراف کیا کہ میں غلط تھا ۔۔ غلط سوچون میں تھا۔۔ میں مکمل ٹوٹ گیا کیونکہ میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ابو مجھے ایسا کچھ کہیں گے۔۔
جس دن میں ٹوٹا اور پارا پارا ہوا ۔۔ اسی ہفتے مجھ پر اللہ رب ذولجلال ولاکرام کی رحمت ہو گئی ۔۔ شاید ٹوٹنا ، دوبارہ بننے کی پہلی شرط ہے۔۔ ایک دوست گھر آیا اور بولا ۔۔اخبار میں پنجاب یونیوورسٹی میں ایڈمشنز کا اشتہار آیا ہے۔۔۔ سیاسیات کا ڈیپارٹمنٹ، نئی ڈگری شروع کر رہا ہے ۔۔ایم اے ڈپلومیسی ائینڈ سٹریٹیجک سٹڈیڈیز ۔۔ میں نے سوچا تجھے آرمی کاجنوں رہا ہے شاید تجھے اس سبجیکٹ میں دلچسپی ہو۔۔ میں نے بات سنی ، دل میں خیال آیا کہ مجھے یہ ایم اے ضرور کرنا چاہئے ۔۔۔ پھر دل سے ہی آوازآئی کہ کس منہ سے والد سے پیسے مانگوں ۔۔۔
چھوٹی بہن سے بات کی ۔۔ اس نے ابو سے بات کی۔۔ ابو نے مجھے بلایا ۔۔۔ اور پوچھا تم نے مجھ سے کیوں نہیں کہا کہ تم یہ ایم اے کرنا چاہتے ہو۔۔ میں نے سر جھکا لیا۔۔ ابو نے دوبارہ پوچھا ۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔ اور بولا ابو کس منہ سے آپ سے بات کرتا ۔۔ ابھی تک جو کچھ کیا ہر چیز میں آپ کی امیدیں توڑیں ۔۔
ابو نے پھر پوچھا تم یہ ایم اے کرنا چاہتے ہو؟
میں نے کہا جی بلکل کرنا چاہتا ہوں۔۔
ابو نے کہا کل جا کر فارم لے آو۔۔
میں نے سر جھکائے کہا ۔ میں ٹیوشنز پڑھا کر فیس کر لوں گا ۔۔ آپ صرف ایڈمیشن فیس ۔۔۔
ابو بولے یار تو نے کیسے سوچ لیا کہ تو کچھ چاہے اور وہ میری پہنچ میں ہو میں تجھے نہ لے کر دوں۔۔ تو میرا بیٹا ہے۔۔جب باپ بنے گا ۔۔تب شاید تجھے ان جزبات کا احساس ہو جو میرے ہیں۔۔ جاو پڑھو جب تک تیرا باپ زندہ ہے تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔
میں دوسرے دن یونیوورسٹی گیا ۔۔ فارم لئے ۔۔ انٹرویو دیا ۔۔اور سلیکشن کے بعد کلاسز شروع کر دیں۔۔ میں نے یہ ایم اے ایسے کیا جیسے یہ ایک مزہبی فریضہ ہے۔۔ بلاخر دو سال بعد وہ فیلیر جو میٹرک کے بعد ہر کلاس میں اڑا ۔۔پوری یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن لے کر نکلا۔۔ بے شک اللہ رب ذولجلال ولااکرام عزت دینے والا ہے۔۔
ایم اے کے دور میں ہی تھرڈ سمیسٹر میں مجھے انسرجنسی ائینڈ کاونٹر انسرجنسی کی میڈم نے لبریشن ٹایگرز آف تامل ایلم پر پروجیکٹ دیا ۔۔الحمدو للہ پوری محنت سے میں نے اس پر کام کیا ۔۔ اور بالآخر میڈم نے میرے پروجیکٹ کو اپنی نئی آنے والی کتاب میں ایک چیپٹر کی شکل میں شامل کیا۔۔
ایم اے کے بعد میری خود اعتمادی کسی حد تک بحال ہوئی ۔۔ گو دو ہزار پانچ سے دو ہزار سات تک مجھے کوئی نوکری نہ ملی لیکن ایک لائین تھی جو مجھے مل گئی ۔۔ ابو بھی سب کے سامنے مجھ پر فخر کرتے اور انھیں فخر کرتا دیکھ کر مجھے ایسا لگتا کہ میرے ابو کی خوشی میرے رب کا مجھ سے راضی ہونے کی دلیل ہے ۔۔
دو ہزار سات میں مجھے رائیل ٹی وی میں سات ہزار پر نوکری ملی ۔ اور صرف ایک سال بعد میں ایک اچھی پوسٹ پر ،پاکستان کے بہترین چینل میں تھا۔۔۔ الحمدو للہ
آج میں۔۔۔۔ جسے اس کا سایہ بھی سلام کا جواب دینا پسند نہ کرتا تھا ۔۔اور جس کا ولد اس کی شکل دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے ۔۔ ایک اچھی نوکری کر رہا ہے۔۔
جسے کم ظرفی نے ذلیل کیا ۔۔ اور مکمل توڑ ڈالا۔۔ اسے ٹوٹنے کے بعد اس کے رب نے اپنی رحمت اور کرم سے دوبارہ بنا دیا۔۔۔ آج وہی ناکام شخص دو بیٹون اور دو نیک بخت بیٹیون کا باپ ہے۔۔
خیر بات ہو رہی تھی میری اپنے ایک بھائی سے ملاقات کی۔۔
میرے بھائی کا جواب میرے لئے تکلیف دہ تو تھا ۔ شاید یہ ہی ماڈرن زمانے کا اصول ہے۔۔ میں مسکرایااور جیب سے اپنا کارڈ نکال کر اسے دے دیا اور بولا بھائی اب رابطے میں رہئے گا۔۔۔ اب میں بھی آپ کا کار آمد رشتے دار بن چکا ہوں۔۔ اللہ کی رحمت ہے اور جن کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ بھی کئی بار میرے سے مدد مانگ چکے ہیں۔۔۔
دوستو انسان واقعتاً کتنا کم ظرف ہے۔۔ طاقت، پیسےاور اقتدار میں کتنی جلدی بھول جاتا ہے کہ یہ تمام چیزین کبھی کسی کی وفادار نہیں رہیں۔۔
مجھےاس کم ظرف اور متکبر شخص پر افسوس اور اس سے ہمدردی ہے ۔۔جو اپنی فطری کمزوریون اور اپنی ذات میں غیر محفوظ ہونے کا اقرار دوسروں سے متکبر بن کر کرتا ہے اور اس مٹکے کی طرح بن جاتا ہے جو خالی ہو اور اسی وجہ سے آواز زیادہ دے۔۔۔
دوستو !کبھی سوچو انسان جو اکڑتا پھرتا ہے اس کی اس دنیا میں کیا حیثیت ہے ۔۔ ہوا میں کچھ ہزار فٹ پر کھڑا بندہ تو اسے پہچان نہیں سکتا۔۔۔ پھر اس زمیں کی کیا حیثیت ہے ۔۔جس پر یہ انسان اکڑتا پھرتا ہے۔۔ یہ زمیں تو خود اپنے نظام شمسی میں ایک چھوٹا سیارہ ہے۔۔ پھر یہ نظام شمسی اس کہکشان میں ایک انتہائی چھوٹا نظام شمسی ہے اور ۔۔یہ کہکشان بھی تو اس کائینات میں کتنی چھوٹی کہکشان ہے۔۔ الغرض انسان اس چیز کا ادراک نہیں کرتا کہ اس کا ہونا اس کائینات میں ایسے ہی ہے جیسے ہمارے جسم میں پلنے والے وہ وائرسسز جنھیں بڑی مشکل سے الیکٹران مایکروسکوپ سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔
جب انسان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تو اس کا تکبر ۔۔۔۔تو ایسا ہی ہوا نا ۔۔جیسے ایک مسخرے کا مزاق جس میں بے عزتی اسی مسخرے کی ہے۔۔
حضور نبی کریم کو اللہ رب ذوالالجلال ولااکرام نے وہ مقام دیا جو کسی اور کو نہ دیا ۔۔آسمانوں پر احمد کہلانے والے جب زمیں پر ظہور پزیر ہوئےتو محمد کہلائے ۔۔ کوئی نبی صفی اللہ ، کوئی نجی اللہ کہلائے تو کوئی خلیل اللہ ۔۔لیکن یہ ہمارے آقا کا ہی اعجاز ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں محمد عبدہ و رسول اللہ کہا اور کہلوایا ۔۔۔
میں چینل فائیو میں تھا جو آج کل نیوز فائیو کہلاتا ہے ۔۔۔ جمعے کی نماز کے لئے دفتر کے سامنے والی مسجد میں گیا۔۔۔ مولوی صاحب معراج کا واقعہ بیان کر رہے تھے ۔۔۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم اللہ کے حضور پہنچے تو اللہ رب ذوالالجلال ولااکرام نے پوچھا ۔۔اے نبی صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم آپ میرے لئے کیا لائے
تو رسول رحمت نے فرمایا ۔۔۔
اے میرے رب میں تیرے دربار میں عاجزی کے ساتھ آیا ہوں۔۔
حضور جو وجہ تخلیق کائینات ہیں ۔۔ جو ایک طرف رحمت عالم ہیں تو دوسری طرف مخلوقات کو خبردار کرنے والے اور خوشخبری دینے والے ہیں ۔۔ ان کی امت پر فرض ہے کہ اپنے آقا سے آداب زندگی سیکھیں۔۔ وہ ہستی جس کی تعریف اور شان اللہ رب ذولجلال ولااکرام اور ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرون نے بیاں کی ۔۔کس قدر عاجزی، محبت اور رحمت کا پیکر تھی۔۔ سیرت پڑھو تو حیران رہ جاو گے۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم زمیں پر کھجور کی چٹائی پر سوتے، ٹوٹے ہوئے دلون کو جوڑتے ، دشمنون کے حق میں بھی دعا کرتے۔۔ قرض داروں سے نرمی برتتے، غریبون اور مسکینوں کو اپنے ساتھ بیٹھاتے ۔۔
آپ کی حیات طیبہ نے ہمیں سیکھایا کہ انسان اور دیگر مخلوقات کو صرف عاجزی ہی زیب دیتی ہے۔ یہ ہی عاجزی۔۔۔ اللہ کی طرف سے مخلوق پر رحمت کا سبب بنتی ہے ۔۔۔عاجز انسان ہی کو احسن تقویم کا رتبہ ملتا ہے اور اسے خلافت ارضی سے نوازا جاتا ہے۔۔
لیکن جب عاجزی اور اپنی خودی نے نا واقفیت اسے غرور اور کھمنڈ میں غرق کر دیتی ہے تو انسان کو اسفل السٰفلیں بنا دیتی ہے۔۔ ۔
ہم جو مرضی بن جائیں۔۔۔ ہیں مخلوق ہی۔ ۔۔۔
لا الہ الاللہ کا اقرار تب ہی مکمل ہوتا ہے اور سچی توحید تب ہی انسان میں داخل ہوتی ہے جب اسے خود اپنا نفس نہ نظر آئے۔۔نظر آئے تو صرف رب ذولجلال ولا اکرام کی ذات ہی نظر آئے۔۔
توحید جہاں عاجزی سیکھاتی ہے،وہان یہ ہی عاجزی مخلوق کے مقابلے میں حوصلہ اور ہمت دیتی ہے۔ توحید کے اقرار سے حاصل شدہ عاجزی انسان کو صاحب کردار بناتی ہے ۔۔با عمل بناتی ہے۔۔ توحید پرست اللہ رب ذوالالجلال کا فرما بردار ہوتا ہے۔۔ اس سے خیر نکلتی ہے ۔۔ اور یہ ہی خیر اسے دوسروں میں ممتاز کرتی ہے۔۔
امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول مبارک ہے
جو اللہ کا فرما بردار نہیں اس سے خیر کی توقع مت رکھو۔۔۔
بے شک اللہ کا فرما بردار وہی بنا جو اپنی اوقات پہچان گیا ۔۔ لیکن اس مسخرے کو کیا کہیں جو خود کو نہ پہچان سکا اور شیطان کے راستے پر چلا۔۔
دوستو اللہ رب ذوالالجلال ولااکرام کی رحمت سے میں مکمل ٹوٹا۔۔ پھر اسی کی رحمت سے دنیا کی نظر میں کچھ بنا۔۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کل جو میرے برے وقت میں میرے دوست تھے میں ان کا مقروض ہوں مگر ۔۔۔جو میرے سلام کا بھی جواب نہ دیتے تھے میں ان کا بھی مقروض ہوں۔۔ ان کی محربانی سے مجھ پر وہ عقدے کھلے جو شاید ان کا ایسا نہ کرنے کی وجہ سے نہ کھلتے۔۔ میں بت پرست تھا ۔جو اللہ کی رحمت سے توحید کے راستے پر آیا ۔۔ گو کہ مجھ میں ابھی بھی کہیں نہ کہیں بت پرستی موجود ہے مگر میں اس کوشش میں ہوں کہ توحید پرست بنوں ۔۔
کوئی پوچھے کہ تمھاری اوقات کیا ہے ؟
تو صرف یہ ہی جواب دینا
کچھ نہیں، میری اوقات کچھ نہیں
میری دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو توحید پرست بنائے۔۔ عاجزی کی دولت عطا فرمائے اور فرما برداری کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین