فرخ منظور
لائبریرین
فرحت عباس شاہ کی ایک واحد غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔
تمہارا پیار مرے چارسو ابھی تک ہے
کوئی حصارمرے چارسو ابھی تک ہے
بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے
وہ انتظار مرے چار سو ابھی تک ہے
توخود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہےمگر
تری پکار مرے چارسو ابھی تک ہے
میں جب بھی نکلا میرے پاؤں چھید ڈالے گا
جو خار زار مرے چار سو ابھی تک ہے
میں اب بھی گرتے ہوئے پانیوں کی قید میں ہوں
اک آبشار مرے چار سو ابھی تک ہے
کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سو ابھی تک ہے
کوئی حصارمرے چارسو ابھی تک ہے
بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے
وہ انتظار مرے چار سو ابھی تک ہے
توخود ہی جانے کہیں دور کھو گیا ہےمگر
تری پکار مرے چارسو ابھی تک ہے
میں جب بھی نکلا میرے پاؤں چھید ڈالے گا
جو خار زار مرے چار سو ابھی تک ہے
میں اب بھی گرتے ہوئے پانیوں کی قید میں ہوں
اک آبشار مرے چار سو ابھی تک ہے
کوئی گمان مجھے تم سے دور کیسے کرے
کہ اعتبار مرے چار سو ابھی تک ہے
(فرحت عباس شاہ)