سیف تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں

شیزان

لائبریرین
تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں

سوچا تھا پہلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ہیں
پھر تو سارے ماہ و سال اُسی کے ساتھ گزرنے ہیں
جب یہ فرض ادا کر لوں گا، جب یہ قرض اُتاروں گا
عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا

آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کے اپنا اِک اِک زخم ٹٹولا ہے
چھان چکا ہوں جسم و جان پر آئی ہوئی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے ارمانوں کی لاشوں کو
کمرے میں رکھا تھا اسے یا دل میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھُپایا تھا؟

ساری عمر کا حاصل تھی یہ کھونے والی چیز نہ تھی
سوچ رہا ہوں یاد تیری، گم ہونے والی چیز نہ تھی

سیف الدین سیف
 

عمر سیف

محفلین
ساری عمر کا حاصل تھی یہ کھونے والی چیز نہ تھی
سوچ رہا ہوں یاد تیری، گم ہونے والی چیز نہ تھی


واہ۔۔ واہ ۔۔ بہت خوب
 
Top