جاں نثار اختر تمہارے جشن کو جشنِ فروزاں ہم نہیں کہتے - جاں نثار اختر

تمہارے جشن کو جشنِ فروزاں ہم نہیں کہتے
لہو کی گرم بوندوں کو چراغاں ہم نہیں کہتے

اگر حد سے گزر جائے دوا تو بن نہیں جاتا
کسی بھی درد کو دُنیا کا درماں ہم نہیں کہتے

نظر کی انتہا کوئی ، نہ دل کی انتہا کوئی
کسی بھی حسن کو حسنِ فراواں ہم نہیں کہتے

کسی عاشق کے شانے پر بکھر جائے تو کیا کہنا
مگر اس زلف کو زلفِ پریشاں ہم نہیں کہتے

نہ بوئے گل مہکتی ہے ، نہ شاخِ گل لچکتی ہے
ابھی اپنے گلستاں کو گلستاں ہم نہیں کہتے

بہاروں سے جنوں کو ہر طرح نسبت سہی لیکن
شگفتِ گل کو عاشق کا گریباں ہم نہیں کہتے

ہزاروں سال بیتے ہیں ہزاروں سال بیتیں گے
بدل جائے گی کل تقدیرِ انساں ہم نہیں کہتے
جاں نثار اختر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ! اچھا انتخاب ہے فرحان بھائی !
آخری شعر میں ہمیں وہی ایک پرانا ٹائپو نظر آرہا ہے لیکن وجہ اس کی آپ کا ٹائپو نہیں بلکہ ہمارا فرسودہ فونٹ ہے کہ بیِتے کو بیٹے دیکھتا ہے ۔
 
Top