تمہیں جفا سے نہ یوں باز آنا چاہیئے تھا
ابھی کچھ اور میرا دل دُکھانا چاہیئے تھا
طویل رات کے پہلو میں کب سے سوئی ہے
نوائے صبح تجھے جاگ جانا چاہیئے تھا
بہت قلق ہوا حیرت زدہ طوفانوں کو
کہ کون ڈوبے کنھیں ڈوب جانا چاہیئے تھا
بجھے چراغوں میں کتنے ہیں جو جلے ہی نہیں
کہ سوئے وقت انہیں جگمگانا چاہیئے تھا
عجب نہ تھا کہ قفس ساتھ لے کے اُڑ جاتے
تڑپنا چاہیئے تھا ، پھڑپھڑانا چاہیئے تھا
یہ میری ہار کہ کارِ جہاں سے ہارا مگر
بچھڑنے والے تجھے یاد آنا چاہیئے تھا
تمام عمر کی آسودگیِ وصل کے بعد
فراق آخری دھوکہ تھا ، کھانا چاہیئے تھا
( ڈاکٹر پیرزادہ قاسم )
( نوٹ : رومن اردو سے نقل کیا ہے ، املا اور مضمون میں غلطی کا احتمال موجود ہے )