تم بہت یاد آئے

گل زیب انجم

محفلین
سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس

تم بہت یاد آئے

تحریر :- گل زیب انجم

اس دنیا میں جو آیا اس کا جانا بھی ایک لازمی امر ہے لیکن بہت سے ایسے لوگ ہیں جو جا کر بھی جا نہیں پاتے یعنی یاد رہ جاتے ہیں. یادوں کا تعلق بھی کب ہرکسی سے منسوب ہو سکتا ہے. ہزاروں میں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی باتیں آپ کے دل و دماغ میں بس جاتی ہیں. ان کی محبتیں ان کے شگفتہ لبوں کے میٹھے میٹھے بول دماغ کے حوض میں امرت کی طرح ٹپکتے رہتے ہیں. آپ زندگی کی کسی بھی راہگزر سے گزرا جائے وہ لوگ یاد آتے رہتے ہیں. کچھ لوگ کسی ایسے موقع پر کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو اُن کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے. میرے ایک دوست( جو پچاس سالوں میں صرف پانچ فٹ کے ہوئے) جب بھی مسجد میں ملتے ہیں تو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں یہ جو نماز ادا کی ہے اس کا زیادہ نہیں تو آدھا دوکڑ( دوکڑ آدھے کے ساتھ وہ اضافی استعمال کرتے ہیں) ثواب تمہارے نانا مرحوم کو بھی ملا ہو گا. وہ اس کی تفصیل یوں بتاتے ہیں کہ نماز عصر کا وقت تھا مختصر سے نمازیوں کی صف کھڑی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے اتنی سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ کیسے کھڑے ہوا جاتا ہے، پھر بھی میں جماعت کے ساتھ کھڑا ہو گیا. کھڑا کیا ہوا کہ دونوں پائوں کے درمیان اتنا فاصلہ رکھا لیا کہ میں خود لیٹ بھی جاتا تو وہ بھر نہ پاتا. میری دائیں جانب تمہارے نانا کھڑے تھے. جب سلام پھیر لیا تو دھمیی آواز اتنی دھمیی کہ جسے صرف ہم دو ہی سن پا رہے تھے، ساتھ ہی زمین پر ہاتھ رکھ کر دکھاتے ہوئے کہنے لگے پائوں کا درمیانی فاصلہ اتنا رکھا کرو. بس اُس دن سے آج تک جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو وہ اپنے اُسی انداز کے ساتھ یاد کیا بلکہ دکھائی دینے لگتے ہیں. اب میرے اس عمل کا ثواب تو انہیں ضرور ملتا ہو گا. ان کی بات سن کر یقین مذید پختہ ہو گیا کہ واقعی کچھ یادیں صدقہ جاریہ ہوتی ہیں. یاد تو وہ لوگ بھی آتے ہیں جنھوں نے دکھ دیے ہوتے ہیں ہنسی چھینی ہوتی ہے ہمیشہ کانٹوں سا رویہ اختیار کیا ہو لیکن ِاِن کی اور اُن کی یادوں میں بڑا فرق ہوتا ہے.
لفظ " مر" نہ جانے اُردو کے کن معنی میں آتا ہو گا لیکن ہماری مادری زبان میں وفات کے ساتھ ساتھ لاتعلقی کے زمرے میں بھی آتا ہے. میں نے اکثر لوگوں کو ایسا اپنے حریف کے متعلق کہتے سنا ہے کہ او مہاڑی طرفوں مری گئیا اے. بدقسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو مر جاتے ہیں. خوش قسمت لوگ تو منوں مٹی تلے جا کر بھی مرتے نہیں. ان کی یادیں ان کا طرز زندگی ان کا میل جول تو صدیوں یاد رہ جاتا ہے.
جامع مسجد سیری کا لوڈ اسپیکر جب بھی ٹُک ٹِک ٹّک جیسی آوازیں نکالتے ہوئے آن ہوتا ہے نہ جانے کیوں دھیان فوراً اس شخص کی طرف چلا جاتا ہے جو ہمیں چوڑ کر بہت دور جا چکے ہیں. وہ کوئی قاری مولوی یا حافظ نہ تھے بس عام سے نمازی تھے لیکن کچھ وقت کی اذان کو اپنی ذمہ داری میں لیے ہوئے تھے. یا پھر کوئی بھی اسلامی تہوار ہوتا تو مسجد میں آپ کی موجودگی یقینی ہوتی. سیری کے یہ دو ایسے فرد ہیں جو مسجد میں ہوں تو ہمیں پتہ چل جایا کرتا تھا کہ آج کوئی بڑا دن ہے. حاجی طیفا( عبدالطیف) پڑاٹی والے اسپیکر آن کرتے ہی گلا صاف کرنے کے لیے ای ای کرتے تو ہم گھر والے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے کہتے آج جمعہ ہے؟ پھر ہم میں سے ہی کوئی کہہ دیتا ہاں جمعہ ہی ہوسی تاں ہی مانواں طیفا بانگ دین لغے ہن اور اگر اسپیکر ان کرنے کے بعد کوئی تصدیقا" پوچھتا آواز ہشنی اے تو ہم کان سہہ لیتے کے آج کوئی خاص دن ہے کہ حاجی صاحب اس ٹائم آئے ہیں. آپ بلاججھک مائیک سنبھال لیتے. اور پھر اس طرح اس دن کی مناسبت سے تقریر کر دیتے کہ جیسے ان کا شمار مبلغین میں ہوتا ہو. عیدین کی نماز کے لیے عیدگاہ وقت سے پہلے پہنچ جاتے مولوی صاحب کے آنے تک آپ تقریر کرتے رہتے. آپ کے واعظ ہی سے عید گاہ میں رونق لگی رہتی.
ہم صغریٰ سنی میں تھے جب عید گاہ جاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے ہمارے آگے آگے عربی لباس میں ایک آدمی جا رہا ہوتا تھا مکمل سر پر گاترا وغیرہ رکھے ہوئے. ہم ایک دوسرے سے پوچھتے یہ کون ہے تو سارے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی مروڑ کر کہتے آساں کی کہہ پتہ کن اے. جب ہم عمروں سے یہ جواب پاتے تو پھر کسی بڑے سے پوچھتے آپ نے عید گاہ جاتے ہوئے اس لباس میں ملبوس آدمی کو دیکھا تھا اس کا نام کیا ہے پھر کہیں بڑے یوں کہہ دیتے او یرا میرہ آلا حاجی عنایت سی.
حاجی عنایت شاید سیری کے سب سے پہلے حاجی تھے کہ کئی لوگ سمجھتے تھے کہ ان کا نام ہی حاجی ہو گا. حاجی عنایت اس زمانے میں بس کسی ایسے ہی تہوار پر نظر آیا کرتے تھے، ورنہ پورا سال کہیں گم رہتے تھے کبھی کبھی دو تین عیدیں بھی گزر جاتی لیکن ہم دیکھ نہ پاتے. کبھی کسی سے پوچھا بھی تو پتہ چلا وہ کہیں باہر کے ملکوں میں گے ہوئے ہیں. یہ بات سن کر دل میں عجیب سی کیفیت محسوس ہوتی سوچتے ہم نے ملک بھی نہیں دیکھا اور وہ ملکوں میں گئے ہوئے ہیں.
ہم نے بلوغت کی سرحد کو چھوا ہی تھا کہ گھر کا کچا آنگن ہمارے بوجھ سے کچھ عاری لگنے لگا، ہم حالات کے ہاتھوں سے ریت کی طرح سرکنے لگے یوں دھیرے دھیرے سا سرکنا ہمیں گھر سے میرپور میرپور سے لاہور اور پھر کراچی کے ساحل تک لے گیا. اس دور میں کراچی بھی ملکوں باہر ہی لگتا تھا. یوں لگتا تھا باقی کے سارے ملک سمندر کے اُس پار اور ہم اِس پار ہوں. کوئی روزگار نہ کوئی ٹھکانہ تھا بس لاہور کے رہنے والے ایک شناسا سے ملاقات ہوئی تو وہ ہمیں گلشن اقبال کے آفس میں لے گیا جہاں دو بدنوں کو ایک بندھن میں جوڑا جاتا تھا، جو اسی کی پارٹنر شپ سے تھا وہاں صبح اٹھ نو بجے سے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوتا اور شام پانچ بجے تک جاری رہتا اگر کسی پارٹی کی ملاقات کرانی ہوتی تو ایک دو گھنٹے اوپر بھی ہو جاتے. ہمیں رات بسیرا کرنے کو جگہ مل گئی تھی دن کو بس اتنا کام ہوتا کہ آنے والے گیسٹ کے لیے میٹنگ روم میں کرسیاں رکھنا یا چایے پانی کا آرڈر دینا اس کام کے عوض تین اور کبھی پانچ روپے مل جاتے. جن سے دو وقت پیٹ بھرنے کی ذمہ داری ہم خوب نبٹا لیتے. یہ بھی اس کرم فرما کے احسان تھے ورنہ اس دفتر میں چپڑاسی کی کوئی ضرورت نہ تھی. بس سر چھپانے کو جگہ عنایت کر دی اور ساتھ خدا ترسی کے طور پر تین چار روپے دے دیتا.
ایک دن صدر بازار کے فٹ پاتھ پر مٹر گشت کر رہے تھے کہ اپنے علاقے کے ایسے شخص سے ملاقات ہو گئی جو ایجنٹ صادق کے نام سے مشہور تھے انہوں نے روزگار کا پوچھا تو کہا تلاش جاری ہے. پوچھنے لگے کوئی چِھٹی وِٹھی(خط وغیرہ) لکھ لینا ایں،(وہ چونکہ پڑاٹی کے رہنے والے تھے جو سیری نالا بان کے اس پار ہے اس لیے انہوں نے لکھ لینا ایں کہا ورنہ سیری کے محلے والے لخی کیناں ایں کہتے ہیں) کہا جی لکھ لیتا ہوں. انہوں نے یہ سن کر لنڈے کے کپڑوں کی گانٹھ پر بٹھایا اور دو تین آدمیوں کو آواز دے کر کہا گھر خط لکھوانا ہو تو لڑکا موجود ہے. میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ انہوں نے کیا کیا میں کوئی خط لکھنے تھوڑا آیا تھا، کہ دو تین لوگ آ کر پوچھنے لگے ارے بابو کیا دام ہیں تیرے خط پتر لکھاوٹ کے. میں اس سٹائل کی اردو سے انجان تھا سوچ رہا تھا کہ انہیں کیا جواب دوں کہ اتنی دیر میں ملک صادق (ایجنٹ) آ گئے اور اسی سٹائل میں کہنے لگے ایک صفحہ والا ایک روپیہ اور دو صفحات والا پونے دو کا. یوں مجھے پہلی بار علم ہوا کہ کراچی میں خط لکھنے کے بھی دام ملتے ہیں. ملک صادق کہنے لگے موٹا جیا شکستہ رکھ تے چھکی جاس. یوں اس دن میں نے چار خط لکھے اور سات روپے کما لیے. جب فارغ ہوا تو کہنے لگے یرا کوئی بل پڑھے آ لغنا ایں، یہ ساتھ ہی سیمین ہاسٹل ہے پونے دو روپے مزدے والے لے گا اور تم وہاں پہنچ جاو گے. میں نے پوچھا وہاں کیا کرنا ہے کہنے لگے وہاں سیری کا حاجی عنایت رہتا ہے اس سے ملو اور بتاو کے روز گار کی تلاش ہے. حاجی صاحب کا نام لیا تو پورے قندورے کے ساتھ یاد آ گئے. انہوں نے ایمپریس مارکیٹ والے چوک سے خود ہی ایک مزدے میں بٹھایا اور ایک سواری سے کہا بچے کو سیمین ہاسٹل اتار دینا. بس چلتی رہی میں حاجی صاحب کے بارے میں سوچتا رہا زیادہ سوچ یہی تھی کہ وہ پہچانے گے بھی کہ نہیں. انہی سوچوں میں گم تھا کہ ساتھ والی سواری نے کہا ابے او سن چوکنے ہو جائیو آگے کے اسٹاپ پر تیرے کو اترنے کا ہے. اسٹاپ کے ایک لفظ سے اس کی ساری کہانی سمجھ میں آ گئی. اسٹاپ پر اتر کر دو تین لوگوں سے پوچھ کر سیمین ہاسٹل کے قریب ہی پہنچ تھا کہ مسجد سے اسپیکروں کے کھڑکنے کی آواز محسوس ہوئی دو گام ہی چلا تھا کہ جانی پہچانی آواز میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی تو میں مسجد کی طرف ہی چل دیا. نماز کے بعد حاجی صاحب سے ملاقات ہوئی بتانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی کہ میں کون ہوں اس پیار سے ملے کے جو صرف اپنوں میں ہی ہوتا ہے. کھانا کھاتے ہوئے کہنے لگے شاید قسمت میں ملاقات تھی اور سمندری طوفان کی خبر ایک بہانہ ثابت ہوئی کہ ہمارا شپ رک گیا. اب دو دن کے بعد روانگی ہے. کچھ دیر وہاں رہنے کے بعد میں واپس گلشن اقبال آ گیا دو دن کے بعد میں نے احتیاطاً فون کیا تو پتہ چلا وہ خیلجی ممالک کی طرف چلے گے ہیں.
حاجی صاحب بحریہ میں ملازمت کرتے تھے بری حصہ کہیں تین چار یا چھ ماہ بعد ہی دیکھتے تھے. اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ صوم و صلوۃ کی پابندی بھی یقینی بناتے تھے. بہت سارے بحری ملازمین یوں کرتے کہ جب جہاز کہیں لنگر اندوز ہوتا تو رفوچکر ہو کر وہاں کی سکونت اختیار کر لیتے حاجی صاحب سے بھی کافی دوستوں نے کہا کہ ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے آپ بھی کسی ملک میں وقتی روپوش ہو کر بعد میں سٹیل ہو جانا لیکن حاجی صاحب بڑی خوبصورتی سے کہہ دیتے جب روزی دینے والا ہر جگہ ایک ہی ہے تو پھر یوں کرنے سے کیا فائدہ.
حاجی صاحب تین بھائیوں میں سے منجلے تھے نہایت ہی عمدہ اخلاق کے مالک نمازی اور دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنے والے انسان تھے. جس گھر بھی آنا جانا ہوتا وہاں نماز کی ضرور تلقین کرتے. کہتے دیکھو جس چیز سے اس دنیا میں محبت کرو گے تو وہی چیز یعنی اجر و ثواب کی صورت میں اگلی دنیا میں ملے گا. آپ اکثر کہتے او تکو آں قاضی لعل ہوراں نی قور (قبر) پتہ لغنا اے قورے اپر وی قرآن مجید کھلے آ. پھر قاضی صاحب کی زندگی کے متعلق کچھ باتیں بتاتے ہوئے کہتے میں جب بھی یہاں سے گزرا ان کے سامنے قرآن مجید کھلا ہوا پایا. ان کا قرآن مجید سے اتنا پیار ہی یہ احساس دلاتا ہے کہ قبر پر لگا کتبہ بھی قرآن مجید سا دکھائی دیتا ہے. آپ جتنی دیر بھی کہیں بیٹھتے کوشش کرتے موضوع گفتگو دینی ہو، آپ میں ایک خوبی یہ بھی تھے آپ جب کسی گھر سے اٹھ کر دوسرے گھر جاتے تو پہلے گھر والوں کی تعریف کرتے وہاں جو چائے پی کر آتے تو پانچ منٹ تک اسی کی باتیں کرتے رہتے ایک بار میرے دل میں آئی کہ آج حاجی صاحب وہاں سے پانی پی کر آئے ہیں" یہ بات اُن دنوں کی ہے جب فریج وغیرہ نہیں تھے" دیکھتے ہیں آج اس گھر کے متعلق کیا کہتے ہیں. جوں ہی بیٹھے میں نے پانی کا گلاس دیا. آپ نے دو تین چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیے گلاس واپس کرتے ہوئے کہنے لگے ماشاء اللہ پانی تساں ناں وی سوادلا اے پر اُنہاں نے پانیے نی کہہ ای گل اے. میں نے پوچھا کیا یہ ٹھنڈا نہیں ہے کہنے لگے اے تے ٹھنڈا اے پر اونہاں گھڑے کورے رکھے ہوئے نا اس واسطے اس پانی وچ مٹھاس جئی محسوس ہونی سی. آپ کی بات سن کر ہمیں تھوڑی سی مسکراہٹ آ گئی اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ایسے کم لوگ ہوتے ہیں جو کسی کی تعریف اس کی پیٹھ پیچھے کریں بلکہ آجکل تو رواج یا پھر عادت سی بن گئی ہے کہ دوسرے کی غیبت کرنا اور سو سو نقص نکالنا.
حاجی صاحب سے شریک سفر کی شراکت اس وقت چھوٹ گئی تھی جب آپ کی ساتویں اولاد دس گیارہ ماہ کی تھی. یہ زمانہ آپ کے شباب کا تھا وقت بڑا کڑا آن لگا تھا. آزمائش تھی کہ ایک طرف اولاد کا مسئلہ اور دوسری طرف اپنا مستقبل. آپ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بر سر روزگار بھی تھے آپ کے جوڑ کے ہزاروں رشتے بھی موجود تھے لیکن آپ نے ایثار کی مثال قائم کر دی زوجہ مرحومہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے شاید عہد کر بیٹھے تھے کہ میں تیرے شکم کی انتڑیوں( اولاد) کی پرورش تُو(تمہاری طرح) بن کر کروں گا. بس مٹی کے ڈھیر سے عہد و پماں تھا جو آپ نے کم و بیش چھتیس سینتیس سال نبھایا. اولاد کی تربیت میں کمال کر دیا کہ اپنے بیگانوں میں سے کہیں سے بھی یہ نہ سننے کو ملا کہ بن ماں کے تھے اس لیے ان کی تربیت میں یہ کمی رہ گئی ہے. آفرین ہے اولاد پر بھی کہ انہوں نے بھی باپ کو اپنے کسی افعال سے ندامت کا سامنا نہ کرنے دیا.
حاجی صاحب کا ایک بیٹا دبئی میں ڈرائیونگ سیکھ رہا تھا ایک دو بار ٹیسٹ میں فیل ہوا تو فون پر کہنے لگا ابا جی میں یہ ٹرائی بھی فیل کر بیٹھا ہوں تو آپ نے سوچنے والے انداز میں ماتھے پر شکنیں ڈال کر جیب سے دو تین چنے نکال کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا یرا لغنا اے تو نماز نہ پڑھی ہوسی. اس نے بھی اپنی اس کوتاہی کا اقرار کیا تو کہنے لگے باپ کی دعائیں بھی تب کام کریں گی جب آپ فرائضِ کا خیال رکھو گے. بڑی پیاری بات ایسے موقع پر کہی کے بیٹا اس کے بعد نمازی بن گیا.
آپ نے نہ صرف اپنے اہل خانہ کو بلکہ ہر ملنے والے سے نماز کی تلقین ضرور کی. اکثر گھروں کی بچیاں آپ کو دیکھتے ہی یوں دوپٹہ رکھ لیتی جیسے نماز کی ادائیگی میں رکھا جاتا ہے آپ دیکھ کر خوش ہوتے اور استقامت کی دعا دیتے. کچھ ایسی بھی ہوتی جو نماز نہ پڑھتی اور آپ کو دیکھ کر چھپنے کی کوشش کرتی تو آپ ہنستے ہوئے کہتے ایں آں..... اے چھپو لوکی اتھے تے چلی جانی اے اوتھے نہی چلن لغی.
آپ چائے کا بہت شوق رکھتے تھے اکثر چائے دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ اس کا ذائقہ کیا ہو گا. آپ سے اگر کوئی پوچھ لیتا پتی تیز رکھاں یا چینی کتنی بہاں تو آپ کہتے چائے میں ہوتی ہی یہی دو چیزیں ہیں اگر یہ بھی نہ ڈالی تو پھر چائے کس سے بنے گی.
برسوں سے ایک رواج چلا آ رہا تھا کہ شبقدر وغیرہ جیسے تہواروں پر ہم پرانے کپڑوں لھیروں سے کھنڈوریاں ( گیند) بنایا کرتے تھے جنھیں تیل ڈال کر بھگویا جاتا اور پھر آگ لگا کر ایک دوسرے کی طرف پھینکا کرتے تھے. یا لمبے لمبے بانسوں پر وہی کھنڈوریاں باندھ کر مسادھے(مشعلیں) بنایا کرتے تھے بس پوری پوری رات ایسے ہی لغویات میں گزر جاتی لیکن جب سے حاجی صاحب مکمل طور پر گھر آئے ہوئے تھے تب سے ایسے کھیل ختم ہو چکے تھے آپ ظہر اور عصر کی اذانوں کے ساتھ ہی اس آنے والی رات کے فیوض و برکات بتانا شروع کر دیتے. مغرب کی نماز کے بعد مکمل پروگرام ترتیب دیتے چائے پانی کا بندوبست بھی اہل محلہ کی طرف سے ہو جاتا اور پھر نماز عشاء کے بعد ذکرِ اذکار کا سلسلہ چلتا جو صبح صادق تک جاری رہتا. آپ نے یہ سلسلہ ایسا شروع کروایا کہ آج نئی نسل کھنڈوریاں اور مسادھوں کے نام بھی نہیں جانتی اور نہ ہی ان کے کھیل کے متعلق کوئی علم رکھتی ہے.
حاجی عنایت انتہائی بےضرر اور نفاست پسند انسان تھے میری شنید میں کبھی نہیں آیا نہ ہی کبھی بصری طور پر ایسا کوئی اتفاق ہوا کہ حاجی عنایت کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف ہوئی ہو. اپ برادری یا محلے میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے. آپ کا ہر جگہ احترام کیا جاتا آپ کا پیار مسجد اور نماز سے رہا. نفلی روزے خود بھی رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی افادیت سے آگاہ کرتے. اذان کی طرز بالکل وہی جو کبھی ہم ریڈیو پاکستان سے سنا کرتے تھے. نماز جمعہ کے لیے پہلی اذان بھی دیتے اور اگر خطیب صاحب کے آنے میں کچھ تاخیر ہو تو آپ واعظ فرماتے.
ایام علالت میں جب چلنے پھرنے سے رہ گئے تو پھر بھی خواہش یہی ہوتی کہ نماز جمعہ ادا کرنے جایا جائے آپ کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے بیٹوں بالخصوص الیاس اور لیاقت (کیوں کہ مہتاب اور افتخار بیرون ملک تھے) نے اپنی فرنبرداری کی مثال قائم کر دی. دونوں میں سے جو بھی گھر موجود ہوتا غسل سے لے کر مسجد تک کے فرائض ایسے انجام دیتے کہ دیکھنے والے حاجی صاحب کی قسمت پر نازاں ہوتے. الیاس نماز جمعہ کی تیاری بھی نماز عید سی کرتا جتنا سکڑا سرمہ خود کرتا کوشش کرتا کہ حاجی صاحب کو بھی اتنا کچھ ہی کرے لیکن وہ ہنستے ہوئے دانتوں کو انگلی لگا کر کہتے یرا انہاں مونڈیاں کی ہن کہہ سکڑا ماراں. مسجد کی تعمیر نئے سرے سے ہوئی تو قبرستان جانے والا رستہ بند ہو گیا آپ بیماری کے باعث وہاں جا بھی نہ پاتے اور نہ ہی بچوں پر اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے بس کرسی جس پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے اسی کو تھوڑا سا گما کر منہ قبرستان کی طرف کر کہ ہدیہ ثواب پیش کرتے. قبرستان سے ان کی یادیں فطری طور پر وابستہ تھیں. جب تک چل سکتے تھے ساس سسر کی قبور پر باری باری حاضری دیتے پھر زوجہ کی قبر پر بہت لمبی سے دعا مغفرت کرتے..... وہاں کھڑے کھڑے ہی بڑے بیٹے آفتاب کی قبر کو دیکھتے ہوئے آبدیدہ سے ہو کر کہتے آساں تابی (آفتاب) تساں کی دیہی شوڑیا .اب وہاں نہ جا پاتے تو یہاں سے دعا کر لیتے. قبرستان نہ جا سکنے کی کسک میں نے اس وقت محسوس کی جب بیٹا لیاقت آپ کو جوتے پہنا کر پیٹھ پر اٹھنے کے لیے جھکا ہوا تھا لیکن آپ کا دھیان مسجد کے اس کونے کی طرف تھا جدھر تیس سال پہلے کی جدا ہوئی زوجہ کی قبر تھی. شاید آپ اپنے نہ آنے کا عذر پیش کرنا چاہتے تھے کہ بیٹے نے جھکے جھکے ان کے گھٹنوں کے پیچھے ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ابا جی اپر ہووہو. ٹانگوں کے ساتھ ہاتھ لگے تو چہرہ ادھر سے گما کر بیٹے کی طرف کیا اور اوپر ہونے کی کوشش کرنے لگے.
وقت کب ایک سا رہتا ہے پوری سیری گھنٹے میں گھوم کر گھر جانے والے حاجی صاحب ہفتہ بعد مسجد آتے وہ بھی بیٹے کی پیٹھ پر سوار ہو کر موٹر سائیکل تک جاتے موٹر سائیکل سے پھر بیٹا اٹھاتا اور صف کے آخری کونے پر رکھی کرسی پر بٹھا دیتا. بس کچھ یادیں چھوڑنے آتے سارے نمازیوں کو دیکھتے قریب والوں سے مصافحہ بھی کرتے کچھ خود چل کر پاس آتے حال احوال پوچھتے اور چل پڑتے. حاجی صاحب کی شاید کچھ دیر رکنے کی خواہش ہوتی ہو لیکن بچوں کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح خواہشات کو قابو پا لیتے.
ربیع الاول کا چاند نظر آ چکا تھا میلاد النبی کے موضوع پر تقریریں ہو رہی تھیں نعتیہ مقابلے جاری تھے مساجد کے ساتھ ساتھ گلیوں محلوں کو بھی سجایا جا رہا تھا. لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے. پچھلے ربیع الاول سے لے کر اس ربیع الاول تک کتنے لوگ بچھڑ اور کتنے مر چکے تھے لیکن حاجی عنایت آج بھی اسپیکر کی ہر ٹھک ٹِھک کے ساتھ یاد آ رہے تھے.
سچ کہا کرتے تھے پرانے لوگ کہ کچھ یادیں صدقہ جاریہ ہوتی ہیں. آج جب میں محلے کے نوجوانوں کو کھنڈوریاں اور مسادے چھوڑ کر اس رات ذکر اذکار میں مصروف ہوتے دیکھتا ہوں تو اپنے دوست (قادری بٹ) کی وہ بات یاد آ جاتی ہے کہ آدھا دوکڑ ثواب اُن کو بھی تو ملتا ہو گا.
 
Top