طارق اقبال
محفلین
تم سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔القرآن
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(یٰاَ یُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوْ ا لَہ ط اِ نَّ الَّذِ یْنَ تَدْعُوْ نَ مِنْ دُوْ نِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْ ا ذُ بَا بًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْ ا لَہ ط وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّ بَا بُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُ وْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّا لِبُ وَ الْمَطْلُوْ بُ ہ مَا قَدَ رُ و ا ا للّٰہَ حَقَّ قَدْ رِ ہ ط اِ نَّ اللّٰہَ لَقَوِ یُّ عَزِیْزُ)
''لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے.'' ۔ (الحج: 73-74)
سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ابھی تک یہ ناممکن ہے کہ ہم مکھی یا اس جیسی کوئی چیز بنا سکیں۔قرآن کا یہ چیلنج عام ہے تمام بنی نوع انسان اس میں شریک ہیں اوریہ چیلنج بڑا واضح ہے کہ دنیا کے تمام انسان اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ایک مکھی نہیں بنا سکتے ،بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی خوراک چھین لے جائے تو وہ ا س سے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھی کو بنانا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح گدھا یا گھوڑا بنانا ،اس لیے کہ مکھی کی زندگی میں کئی حیرت انگیز پہلو موجود ہیں ۔
مکھی کی آنکھیں چھ ضلعی عدسوں سے بنتی ہیں ۔ایک عام عدسے کی نسبت ان سے زیادہ وسیع وعریض علاقے کو دیکھا جاسکتا ہے ۔کچھ مکھیوں میں ان عدسوں کی تعداد بعض اوقات 5000 بھی ہوتی ہے ۔ اس کی آنکھ کی گولائی میں بنی ہوئی ساخت اسے اپنے پیچھے بھی دیکھ لینے میں مدد دیتی ہے ۔یہ آنکھ یوں اسے اپنے دشمنوں پر بڑی فوقیت دے دیتی ہے ۔
امریکہ میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مکھیوں کو مارنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ تجربات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ مکھیاں یہ بات بھی جان جاتی ہیں کہ حملے کی صورت میں انہیں کس قدر جسمانی حرکت کی ضرورت ہوگی۔
کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے اپنے تجربات کے دوران مکھیوں کی متعدد فلمیں بنائیں جس سے یہ پتہ چلا کہ مکھیاں جس مقام پر بھی بیٹھتی ہیں وہاں بیٹھنے سے پہلے ہی کسی حملے کی صورت میں فرار کا راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔ماضی میں مکھیوں کی بچنے کی صلاحیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکھیاں اپنے تیز دماغ اور قبل از وقت منصوبہ بندی کی صلاحیت کی وجہ سے بچ جاتی ہیں۔اس بات کا پتہ انتہائی تیز رفتار اوربہترین ریزولیوشن والی ویڈیوز سے چلا جس نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح مکھیاں آنے والے خطرے سے خبردار ہو کر فرار کی راہ متعین کر لیتی ہیں۔
سانئسدانوں کی تحقیق کے مطابق خطرے کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے مکھیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ جب چھلانگ لگاتی ہیں تو ان کو یہ فیصلہ کرنے میں 200ملی سیکنڈکا وقت درکار ہوتاہے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکھیاں چاہے خوراک حاصل کر رہی ہوں یا پھر ویسے ہی چل رہی ہوں ان کا ردعمل ہر حالت میں قریباً ایک جتنا تیز ہوتا ہے۔مکھیوں میں افزائش نسل کا عمل بھی انتہائی تیز رفتار ہو تا ہے ۔ اب تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق اگر مکھیوں کا ایک جوڑا عمل تولید کا عمل اپریل میں شروع کرے اور انڈوں سے نکلنے والے تمام لاروے زند ہ رہیں اور حالات بھی موزوں رہیں تونسل درنسل چلتے ہوئے یہ سلسلہ اس قدر پھیل جائے گاکہ اگست تک 191,010,000,000,000,000,000 مکھیاں جنم لے چکی ہوں گیں۔
قرآ ن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ ،ان الفا ظ سے کرتا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو یہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھیاں اپنے ساتھ کئی خطرناک بیماریوں مثلاً میعادی بخار ، پیچس اور آشوب چشم وغیرہ کے جراثیم لیے اڑتی رہتی ہیں۔یہ کمزور مخلو ق انسان کوکئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔جبکہ انسان بھی اتنا کمزور ہے کہ مکھی جیسی کمزور اور ناتواں مخلوق اگر ان سے کوئی چیز مثلاً کھانے کا کچھ حصہ لے کر اُڑ جائے تو وہ اس سے واپس لینے میں عاجز ہے ۔
جدید سائنسی تحقیق سے قبل ہم قرآن کے اس دعوٰی کو اس طرح سے سمجھتے تھے کہ آخر مکھی جیسی ننھی سی مخلوق کھانے کی جس قد رمقدار لے کر جاسکتی ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہ خوراک کا کتنا حصہ لے کر گئی ہے اور اسے کہاں رکھا ہے ،تو اس سے واپس لینے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا ۔مگر اللہ جو کائنا ت کا رب ہے ،اسے اس ٹیکنالوجی کا بھی پتہ ہے جسے انسان نے قیامت تک حاصل کرتے رہنا ہے ۔اس لیے جوں جو ں ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے ،ویسے ہی ہمارے لیے قرآن مجید کی ان مخصوص آیات کے لطیف پہلوؤں کو سمجھنا نہایت آسان اور واضح ہو تا جارہا ہے۔
چناچہ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق جب مکھی کہیں سے خوراک کا کچھ حصہ حاصل کرتی ہے تو اپنے پیٹ میں سے کچھ مادوں کو نکال کر اس میں ملا دیتی ہے جس سے خوراک کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔پھر کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس خوراک کی تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل شکل میں واپس لائے۔مکھی کی اہم خصوصیات میں سے ایک اس کا کھانا ہضم کرنے کا طریقہ ہے ۔یہ اس طرح کھانا ہضم نہیں کرتی جس طرح کے زمین پر دوسرے جاندار کرتے ہیں،مکھیا ں خوراک منہ میں ہضم کرنے کی بجائے اپنے جسم سے باہر کرتی ہیں۔مکھیاں اپنی سونڈ کے ذریعے ایک خاص قسم کا محلول خوراک پر ڈالتی ہیں جس سے وہ مناسب حد تک گاڑھاہو جاتا ہے اور مکھیوں کے لیے اسے چوسنا آسان ہو جاتاہے۔چناچہ اس کے بعد مکھیا ں اپنے گلے میں لگے چوسنے والے پمپ سے خوراک کو چوس لیتی ہیں ۔
آئیے اب اس بات کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ مکھی خوراک کسی طرح کھاتی یا چوستی ہے ۔جب مکھی کو کچھ کھانا ہوتا ہے تو وہ اپنے منہ کولمبا کرتی ہے یعنی اس کے منہ سے ایک ٹیوب نما نالی نکلتی ہے جو خوراک تک پہنچتی ہے ،اس ٹیوب کاآخری حصہ ویکم کلینر کی طرح چوڑ اہوتا ہے ۔جب مکھی اپنی ٹیوب کو خوراک تک پہنچا دیتی ہے تو پھر اس سے کچھ خامرے یا کیمیائی محلول نکلتاہے جو کھا نے پر پھیل جاتاہے اور کھانے کے اجزاء کو توڑ کر محلول کی شکل میں بدل دیتا ہے۔ اس پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے سہل ہوجاتاہے کہ وہ اس Ingested Food کو چوس سکے ۔ چناچہ اس تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ مکھی کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطاکی ہوئی ہے کہ وہ کھانے سے پہلے خوراک کے اجزاء کو مخصوص کیمیائی مادوں کے ذریعے توڑ سکے اوریہ فعل وہ جسم سے باہر کرتی ہے ۔۔
آئیے اب ہم دوبارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف لوٹتے ہیں اور اس کے الفاظ پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ا س کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان کے پاس کوئی ایسے اوزار نہیں ہیں کہ وہ اس کے منہ سے یہ خوراک نکا ل سکے بلکہ اس سائنسی تحقیق کے بعد اس کی تفسیر یوں ہو سکتی ہے کہ مکھی چونکہ خوراک کو کھانے سے پہلے،کیمیائی مادوں کے ذریعے اس کی طبعی حالت کوبدل چکی ہوتی ہے لہذا اگر انسان کسی طرح وہ خوراک واپس لے بھی لے تو وہ خوراک کی اصل شکل نہیں ہوگی اورسائنسدانوں کے مطابق خوراک کی اس تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل حالت میں واپس لانا بھی ناممکن ہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ مکھی جو لے جاتی ہے اس کو اس کی اصل حالت میں واپس لے آنا ناممکن ہے اور قرآن کا یہ دعوٰی ہے کہ انسان اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
چناچہ قرآن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کو 2چیلنج کرتا ہے ۔اول یہ کہ انسان کبھی بھی مکھی نہیں بنا سکتا ،دوم یہ کہ اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین لے جائے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔جدید سائنسی تحقیقی نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ قرآن مجید کے یہ دونوں دعوے بالکل برحق ہیں اور یہ قرآن کی سچائی کی ایک روشن دلیل ہے۔اس آیت کریمہ سے ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح مکھی ایک کمزور مخلوق ہے ،انسان بھی اسی طر ح ناتواں و بے کس ہے ۔
حواشی
اللہ کی نشانیاں عقل والوں کے لیے۔ از ہارون یحییٰ
The Fly in Bible and Quran
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(یٰاَ یُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلُ فَاسْتَمِعُوْ ا لَہ ط اِ نَّ الَّذِ یْنَ تَدْعُوْ نَ مِنْ دُوْ نِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْ ا ذُ بَا بًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْ ا لَہ ط وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّ بَا بُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُ وْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّا لِبُ وَ الْمَطْلُوْ بُ ہ مَا قَدَ رُ و ا ا للّٰہَ حَقَّ قَدْ رِ ہ ط اِ نَّ اللّٰہَ لَقَوِ یُّ عَزِیْزُ)
''لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے.'' ۔ (الحج: 73-74)
سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ابھی تک یہ ناممکن ہے کہ ہم مکھی یا اس جیسی کوئی چیز بنا سکیں۔قرآن کا یہ چیلنج عام ہے تمام بنی نوع انسان اس میں شریک ہیں اوریہ چیلنج بڑا واضح ہے کہ دنیا کے تمام انسان اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ایک مکھی نہیں بنا سکتے ،بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی خوراک چھین لے جائے تو وہ ا س سے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھی کو بنانا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح گدھا یا گھوڑا بنانا ،اس لیے کہ مکھی کی زندگی میں کئی حیرت انگیز پہلو موجود ہیں ۔
مکھی کی آنکھیں چھ ضلعی عدسوں سے بنتی ہیں ۔ایک عام عدسے کی نسبت ان سے زیادہ وسیع وعریض علاقے کو دیکھا جاسکتا ہے ۔کچھ مکھیوں میں ان عدسوں کی تعداد بعض اوقات 5000 بھی ہوتی ہے ۔ اس کی آنکھ کی گولائی میں بنی ہوئی ساخت اسے اپنے پیچھے بھی دیکھ لینے میں مدد دیتی ہے ۔یہ آنکھ یوں اسے اپنے دشمنوں پر بڑی فوقیت دے دیتی ہے ۔
امریکہ میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مکھیوں کو مارنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے۔ تجربات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ مکھیاں یہ بات بھی جان جاتی ہیں کہ حملے کی صورت میں انہیں کس قدر جسمانی حرکت کی ضرورت ہوگی۔
کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے اپنے تجربات کے دوران مکھیوں کی متعدد فلمیں بنائیں جس سے یہ پتہ چلا کہ مکھیاں جس مقام پر بھی بیٹھتی ہیں وہاں بیٹھنے سے پہلے ہی کسی حملے کی صورت میں فرار کا راستہ تلاش کر لیتی ہیں۔ماضی میں مکھیوں کی بچنے کی صلاحیت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیئے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکھیاں اپنے تیز دماغ اور قبل از وقت منصوبہ بندی کی صلاحیت کی وجہ سے بچ جاتی ہیں۔اس بات کا پتہ انتہائی تیز رفتار اوربہترین ریزولیوشن والی ویڈیوز سے چلا جس نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح مکھیاں آنے والے خطرے سے خبردار ہو کر فرار کی راہ متعین کر لیتی ہیں۔
سانئسدانوں کی تحقیق کے مطابق خطرے کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے مکھیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ جب چھلانگ لگاتی ہیں تو ان کو یہ فیصلہ کرنے میں 200ملی سیکنڈکا وقت درکار ہوتاہے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکھیاں چاہے خوراک حاصل کر رہی ہوں یا پھر ویسے ہی چل رہی ہوں ان کا ردعمل ہر حالت میں قریباً ایک جتنا تیز ہوتا ہے۔مکھیوں میں افزائش نسل کا عمل بھی انتہائی تیز رفتار ہو تا ہے ۔ اب تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق اگر مکھیوں کا ایک جوڑا عمل تولید کا عمل اپریل میں شروع کرے اور انڈوں سے نکلنے والے تمام لاروے زند ہ رہیں اور حالات بھی موزوں رہیں تونسل درنسل چلتے ہوئے یہ سلسلہ اس قدر پھیل جائے گاکہ اگست تک 191,010,000,000,000,000,000 مکھیاں جنم لے چکی ہوں گیں۔
قرآ ن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ ،ان الفا ظ سے کرتا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو یہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔مکھیاں اپنے ساتھ کئی خطرناک بیماریوں مثلاً میعادی بخار ، پیچس اور آشوب چشم وغیرہ کے جراثیم لیے اڑتی رہتی ہیں۔یہ کمزور مخلو ق انسان کوکئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔جبکہ انسان بھی اتنا کمزور ہے کہ مکھی جیسی کمزور اور ناتواں مخلوق اگر ان سے کوئی چیز مثلاً کھانے کا کچھ حصہ لے کر اُڑ جائے تو وہ اس سے واپس لینے میں عاجز ہے ۔
جدید سائنسی تحقیق سے قبل ہم قرآن کے اس دعوٰی کو اس طرح سے سمجھتے تھے کہ آخر مکھی جیسی ننھی سی مخلوق کھانے کی جس قد رمقدار لے کر جاسکتی ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہ خوراک کا کتنا حصہ لے کر گئی ہے اور اسے کہاں رکھا ہے ،تو اس سے واپس لینے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا ۔مگر اللہ جو کائنا ت کا رب ہے ،اسے اس ٹیکنالوجی کا بھی پتہ ہے جسے انسان نے قیامت تک حاصل کرتے رہنا ہے ۔اس لیے جوں جو ں ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے ،ویسے ہی ہمارے لیے قرآن مجید کی ان مخصوص آیات کے لطیف پہلوؤں کو سمجھنا نہایت آسان اور واضح ہو تا جارہا ہے۔
چناچہ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق جب مکھی کہیں سے خوراک کا کچھ حصہ حاصل کرتی ہے تو اپنے پیٹ میں سے کچھ مادوں کو نکال کر اس میں ملا دیتی ہے جس سے خوراک کی نوعیت بدل جاتی ہے ۔پھر کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس خوراک کی تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل شکل میں واپس لائے۔مکھی کی اہم خصوصیات میں سے ایک اس کا کھانا ہضم کرنے کا طریقہ ہے ۔یہ اس طرح کھانا ہضم نہیں کرتی جس طرح کے زمین پر دوسرے جاندار کرتے ہیں،مکھیا ں خوراک منہ میں ہضم کرنے کی بجائے اپنے جسم سے باہر کرتی ہیں۔مکھیاں اپنی سونڈ کے ذریعے ایک خاص قسم کا محلول خوراک پر ڈالتی ہیں جس سے وہ مناسب حد تک گاڑھاہو جاتا ہے اور مکھیوں کے لیے اسے چوسنا آسان ہو جاتاہے۔چناچہ اس کے بعد مکھیا ں اپنے گلے میں لگے چوسنے والے پمپ سے خوراک کو چوس لیتی ہیں ۔
آئیے اب اس بات کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ مکھی خوراک کسی طرح کھاتی یا چوستی ہے ۔جب مکھی کو کچھ کھانا ہوتا ہے تو وہ اپنے منہ کولمبا کرتی ہے یعنی اس کے منہ سے ایک ٹیوب نما نالی نکلتی ہے جو خوراک تک پہنچتی ہے ،اس ٹیوب کاآخری حصہ ویکم کلینر کی طرح چوڑ اہوتا ہے ۔جب مکھی اپنی ٹیوب کو خوراک تک پہنچا دیتی ہے تو پھر اس سے کچھ خامرے یا کیمیائی محلول نکلتاہے جو کھا نے پر پھیل جاتاہے اور کھانے کے اجزاء کو توڑ کر محلول کی شکل میں بدل دیتا ہے۔ اس پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے سہل ہوجاتاہے کہ وہ اس Ingested Food کو چوس سکے ۔ چناچہ اس تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ مکھی کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطاکی ہوئی ہے کہ وہ کھانے سے پہلے خوراک کے اجزاء کو مخصوص کیمیائی مادوں کے ذریعے توڑ سکے اوریہ فعل وہ جسم سے باہر کرتی ہے ۔۔
آئیے اب ہم دوبارہ قرآن مجید کی اس آیت کی طرف لوٹتے ہیں اور اس کے الفاظ پر غورکرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ۔ا س کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان کے پاس کوئی ایسے اوزار نہیں ہیں کہ وہ اس کے منہ سے یہ خوراک نکا ل سکے بلکہ اس سائنسی تحقیق کے بعد اس کی تفسیر یوں ہو سکتی ہے کہ مکھی چونکہ خوراک کو کھانے سے پہلے،کیمیائی مادوں کے ذریعے اس کی طبعی حالت کوبدل چکی ہوتی ہے لہذا اگر انسان کسی طرح وہ خوراک واپس لے بھی لے تو وہ خوراک کی اصل شکل نہیں ہوگی اورسائنسدانوں کے مطابق خوراک کی اس تبدیل شدہ حالت کو اس کی اصل حالت میں واپس لانا بھی ناممکن ہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ مکھی جو لے جاتی ہے اس کو اس کی اصل حالت میں واپس لے آنا ناممکن ہے اور قرآن کا یہ دعوٰی ہے کہ انسان اس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
چناچہ قرآن مجید اس آیت کریمہ میں انسان کو 2چیلنج کرتا ہے ۔اول یہ کہ انسان کبھی بھی مکھی نہیں بنا سکتا ،دوم یہ کہ اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین لے جائے تو وہ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔جدید سائنسی تحقیقی نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ قرآن مجید کے یہ دونوں دعوے بالکل برحق ہیں اور یہ قرآن کی سچائی کی ایک روشن دلیل ہے۔اس آیت کریمہ سے ایک اور نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح مکھی ایک کمزور مخلوق ہے ،انسان بھی اسی طر ح ناتواں و بے کس ہے ۔
حواشی
اللہ کی نشانیاں عقل والوں کے لیے۔ از ہارون یحییٰ
The Fly in Bible and Quran