فرخ منظور
لائبریرین
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
درد بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے
کاش اے ابرِ بہاری ترے بہکے سے قدم
میری امیّد کے صحرا میں بھی گاہے جاتے
ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بھی ہر لغزشِ مستی کو سراہے جاتے
ہے ترے فتنۂ رفتار کا شہرہ کیا کیا
گرچہ دیکھا نہ کسی نے سرِ راہے جاتے
ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے
لذّتِ درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غمِ ہستی سے نباہے جاتے
(شان الحق حقّی)