سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین
عظیم
فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی
یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی
ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف
یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی
ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے
بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی
صاف ظاہر ہے ہماری ذات تم کو ناپسند
ہم سعی کرتے ہیں آخر بھول جائیں گے کبھی
زخم کھا کر آج تم سجاد کیوں حیران ہو
علم تھا پہلے ہی پتھر وہ اٹھائیں گے کبھی
شکریہ
عظیم
فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی
یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی
ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف
یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی
ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے
بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی
صاف ظاہر ہے ہماری ذات تم کو ناپسند
ہم سعی کرتے ہیں آخر بھول جائیں گے کبھی
زخم کھا کر آج تم سجاد کیوں حیران ہو
علم تھا پہلے ہی پتھر وہ اٹھائیں گے کبھی
شکریہ