تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی

سر الف عین
عظیم
فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی
یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی

ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف
یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی

ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے
بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی

صاف ظاہر ہے ہماری ذات تم کو ناپسند
ہم سعی کرتے ہیں آخر بھول جائیں گے کبھی

زخم کھا کر آج تم سجاد کیوں حیران ہو
علم تھا پہلے ہی پتھر وہ اٹھائیں گے کبھی

شکریہ
 

عظیم

محفلین
تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی
یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی
۔۔۔۔پھر ہم کی جگہ واپس استعمال کریں کہ 'پھر' کی وجہ سے روانی متاثر ہے۔ دوسرے میں 'اب' کی بجائے 'ہم' لے آئیں

ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف
یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی
۔۔۔۔۔'ہم معافی' میں میم کی وجہ سے تنافر ہے اگر کسی طرح الفاظ بدلے جائیں۔ یاد ماضی کا منہ سے لگانا سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کیا محاورہ ہے ؟ اور اس کا ربط بھی ہہلے مصرع سے واضح نہیں ہے

ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے
بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی
۔۔۔۔۔بارہا کا استعمال درست معلوم نہیں ہو رہا، بار بار انکار۔ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شعر مکمل طور پر نامکمل لگ رہا ہے۔ دونوں مصرعے الگ الگ ٹکڑے لگ رہے ہیں ۔

صاف ظاہر ہے ہماری ذات تم کو ناپسند
ہم سعی کرتے ہیں آخر بھول جائیں گے کبھی
۔۔۔۔ناپسند ہے ہونا چاہیے تھا۔ صرف ناپسند اچھا نہیں لگ رہا۔ سعی کا تلفظ بھی دیکھیں، میرا خیال ہے کہ درد کے وزن پر ہے

زخم کھا کر آج تم سجاد کیوں حیران ہو
علم تھا پہلے ہی پتھر وہ اٹھائیں گے کبھی
۔۔۔۔۔یہ شعر درست ہے
 
تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی
یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی
۔۔۔۔پھر ہم کی جگہ واپس استعمال کریں کہ 'پھر' کی وجہ سے روانی متاثر ہے۔ دوسرے میں 'اب' کی بجائے 'ہم' لے آئیں

ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف
یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی
۔۔۔۔۔'ہم معافی' میں میم کی وجہ سے تنافر ہے اگر کسی طرح الفاظ بدلے جائیں۔ یاد ماضی کا منہ سے لگانا سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کیا محاورہ ہے ؟ اور اس کا ربط بھی ہہلے مصرع سے واضح نہیں ہے

ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے
بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی
۔۔۔۔۔بارہا کا استعمال درست معلوم نہیں ہو رہا، بار بار انکار۔ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شعر مکمل طور پر نامکمل لگ رہا ہے۔ دونوں مصرعے الگ الگ ٹکڑے لگ رہے ہیں ۔

صاف ظاہر ہے ہماری ذات تم کو ناپسند
ہم سعی کرتے ہیں آخر بھول جائیں گے کبھی
۔۔۔۔ناپسند ہے ہونا چاہیے تھا۔ صرف ناپسند اچھا نہیں لگ رہا۔ سعی کا تلفظ بھی دیکھیں، میرا خیال ہے کہ درد کے وزن پر ہے

زخم کھا کر آج تم سجاد کیوں حیران ہو
علم تھا پہلے ہی پتھر وہ اٹھائیں گے کبھی
۔۔۔۔۔یہ شعر درست ہے
شکریہ بھائی اس کو دیکھتا ہوں
 
Top