تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہوغُربت کیا ہے! ۔۔۔

تفسیر

محفلین
تم مجھ سے پوچھتے ہو غُربت کیا ہے! ۔۔۔


سنو، مجھےدیکھو۔ میں یہاں ہو۔۔۔ گندی، بدبو میں نہائی اورغلیظ کپڑے پہنے۔۔۔ قریب آؤ اور میرے دانتوں کی بساند کوسونگھو۔۔۔ میں کہتی ہوں۔ سنو، اور مجھ پر رحم کئے بغیرسنو۔۔۔ مجھےتمہارا افسوس کرنا نہیں چاہیے۔ سنو، سمجھے بغیرسنو۔۔۔ میرےگندے، گِھسےاور کوڑے میں پائے ہوے جوتوں میں اپنے پاوں رکھو۔ پھرمجھےسنو۔

اب تمہیں کیسا لگتا ہے۔۔۔

غُربت، ہرصبح ایک بدبودار، جراثیم سے بھرے بستر سےاُٹھنے کا نام ہے۔ غُربت، اُس بدبو میں دن رات رہنا ہے جوکبھی نہیں جاتی۔ یہ بدبو پیشاب، بگڑے ہوے دودھ ، پھپھوندی لگےچاول اور جلی پیاز کی ہے ۔اگرتم کو کبھی یہ باس آئی بھی ہے تو تمہیں یہ نہیں پتہ ہوگا کہ یہ کہاں سے آئی۔ یہ بو، اس بستر سے آتی ہے جہاں دسویں بار بیماری میں میرا پیشاب خطا ہوچکا ہے ۔یہ اس فضلہ کی بو ہے جو ہمشہ رہےگا اور جو میرے پاس کدال نہ ہونے کی وجہ سے کبھی زمین میں نہیں گڑھےگا۔

غُربت تھکاوٹ ہے۔ میں اپنےآپ کو ہروقت تھکا محسوس کرتی ہوں۔ جب میرا آخری بچہ ہوا توانہوں نے۔۔۔سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں نے مجھ سے کہا کےغیرمتوازن غذا کی وجہ سےتمہیں خون کی بیماری ہے۔۔۔ تمہیں خون کی کمی کا عارضہ ہے اور تمہارے پیٹ میں کینچوے ہیں۔ تمہیں آپریشن کی ضرورت ہے۔ میں اُنہیں ادب سےسنتی ہوں۔ ہم غریب ہمیشہ اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ ہم ہمیشہ سنتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ میرے پاس آئرن کی گولیوں کے لیے یا اچھے کھانے یا کینچوؤں کی دواؤں کے لیے پیسہ نہیں ہے۔

آپریش کاخیال ہی مجھےخوف ذدہ کردیتا ہے اور آپریش کی قیمت ۔۔۔ اگر مجھ میں ہنسنے کی قوت ہوتی تو ضرور ہنستی۔۔۔ آپریشن سےصحت یابی ایک مدت لیتی ہے۔ میرے بچوں کی کون دیکھ بھال کرےگا۔ میرے تین بچے ہیں۔ میں ایک دفعہ نوکری پرجانے کے لیے ان کو دادی کے پاس چھوڑگئی تھی۔ جب میں واپس آئی تو بےبی پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ اور اس کا پوتڑا سُکھ کراس کےکولوں سے چپک گیا تھا جب میں نے پوتڑا علحیدہ کرنے کی کوشش کی تو اس کےساتھ بےبی کی کھال کی جھلی بھی اتر آئی۔ میری دوسری بچی ایک شیشہ کے ٹکڑے سے کھیل رہی تھی۔ میرا بڑا ۔۔۔ میرا بڑا، گہرے اور بہتے نالے کے کنارے پراکیلا کھیل رہا تھا۔

میں کئی گھرانوں میں باتھ ٹب دھوتی تھی اور فرش صاف کرتی تھی اس کےمجھے ایک سو پچاس روپےملتے تھے۔ بچوں کو رکھنے والی ایک سو پچاس روپےمانگتی تھی۔ اس لیےمیں نےنوکری چھوڑ دی۔

غُربت دھول مٹی ہے۔ تم جوصاف ستھرے کپڑے پہنتے ہو۔ تم بغیر پلک جھپکائے کہہ سکتے ہو“ ہرشخص صاف رہ سکتا ہے“۔ میں تم کو بتاتی ہوں کےگھر کی صفائی اور پیسوں میں کیا رشتہ ہے!۔میں نے ناشتہ میں بچوں کو بھوسی کھلائی۔ اس میں کوئی زیادہ برتن نہیں استعمال ہوتے۔ جو برتن استعمال ہوتے ہیں، میں ان کو ٹھنڈے پانی سے بغیرصابن کےدھولیتی ہوں۔ میرے پاس جوصابن کا ٹکڑا ہے اس کو بےبی کے پوتڑے کو دھونے کے لیےاستعمال کرتی ہوں۔

دیکھو۔۔۔ میرے ہاتھ دیکھو۔۔۔ وہ خشکی سےتڑک رہے ہیں اور کتنے لال ہیں۔

بےبی کےگرمی دانوں اور میرے ہاتھوں کے لئے ویسلین کی بوتل خریدنے کے لیے میں نےایک دفعہ بہ مشکل پیسہ اکھٹا کیے لیکن جب میں لینےگی اس وقت تک ویسلین کی بوتل کی قیمت بڑھ چکی تھی۔ بےبی اور میں تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ ہردن مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کیا میرے زخمی ہاتھ اس پانی اور صابن کو برداشت کرسکیں گے!۔

لیکن تم پوچھتے ہو۔گرم پانی کیوں نہیں!۔
ایندھن کے لیے پیسہ چاہیے۔ اگرتمہارے پاس لکڑی جلانے کا چولھا ہے تو پیسہ، اگر تمہارے پاس بجلی کا چولھا ہے تو پیسہ۔ گرم پانی عیش و عشرت ہے کا سامان ہے۔ اور عیش و عشرت میرے گھر نہیں آتیں۔

تم کوحیرت ہوگی جب تم سنوگے کہ میری عمر کیا ہے؟ میں تم کوعمر رسیدہ لگتی ہوں نا۔ میری کمر اس لیےجھکی ہے کہ میں سارا دن باتھ ٹب دھوتی تھی۔ مجھ کو یاد نہیں پڑتا کہ میں نےاس کےعلاوہ کوئی اور نوکری کی ہو۔ ہر رات میں اپنے بچوں کے اکلوتےجوڑے کو دھوتی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ یہ صبح تک خشک ہوجائے گا۔

غُربت، سردیوں میں تمام رات جاگنا ہے۔ اس ڈر سےجاگنا۔۔۔ کے میں اگر سوگئی تو وہ اخبار جومیں جلا کر بچوں کوگرمی پہنچا رہی ہو کہیں آگ نہ لگا دیں اور میرے بچےاس آگ میں جل جائیں۔

گرمیوں میں میرے بچے کا رونا اور مکھیوں کا ان آنسو کو پینے کا نام غُربت ہے ۔

چھونپڑی کا دروازہ نہ ہونے کا نام غُربت ہے۔ جب میں اپنے آپ کو صاف کرتی ہوں توگلی کے لڑکےدروزے پر کھڑے ہو کر مجھے ننگا دیکھتے ہیں۔

غُربت، کھانے میں کیڑے موجود ہونے کا نام ہے۔ جب میں سوتی ہوں تو چیونٹیوں اور مکھیاں کا آنکھوں میں گھسنے کی کوشش کرنے کا نام بھی غُربت ہے۔

غُربت، اللہ سے یہ دُعا کرنا یا اللہ بارش کھبی نہ ہو تاکہ میں ہمیشہ بچوں کے کپڑے سُکھاسکوں ۔

غُربت، میرے بچوں کی ناک بہتے رہنا ہے ۔ میرے پاس ناک کو بہنےسے روکنے والی دوا نہیں اور نا ہی ناک پوچھنے کا کاغذ ہے اور کپڑے کے کَترَن جو میرے پاس ہیں وہ بےبی کے پوتڑوں کے لیے ہیں۔

غُربت کوڑے میں سے نکالی ہوئی ضائع تر کاری سے کھانا بنانے کا نام ہے۔غُربت، قصائیوں کے پھینک دیے ہوئے چھیچھڑوں کے لیے کتُوں سےلڑنے کا نام ہے۔غُربت بغیرصابن کےصفائی کرنے کا نام ہے۔

غُربت بھیک مانگنا ہے۔ کیا تم نے کبھی اس لمحہ کو محسوس کیا ہے۔ وہ لمحہ ۔۔۔جب ، جب ایک ماں اپنا ہاتھ ایک اجنبی کے سامنےہاتھ پھیلاتی ہے۔۔۔ تمہیں دھتکار کے آنے سے پہلے اس لمحہ کا پتہ ہے جہاں خوف سےاس ماں کا احساس منجمد ہوجاتا ہے اور۔۔۔ اور جب ماں کا خالی ہاتھ واپس لوٹتا ہے تو کیا تم اس ماں کے دکھ کا اندازہ کرسکتے ہو، جو آج بھوکی سوئے گی اور اپنے بچوں کو بھوکا سلائےگی۔

غُربت، ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ مجھےاس لئےاسکول چھوڑنا پڑا تھا کے میرے کپڑےگندے اور بدبودار تھے۔ غُربت، ذہن میں یہ بیٹھالینا کے اسکول صرف ان بچوں کے لیے ہے جن کےماں باپ ان کوصاف اور بغیر بدبو والےکپڑے پہناسکتے ہیں۔

غُربت، ایک پیٹ کو کم کرنے کا نام ہے۔جب ایک ماں اپنی بیٹی کی شادی بارہ سال کی عمرمیں کردے۔ غُربت ایسے مرد سےشادی ہونے کا نام ہے جو جاہل، ناکارہ اور عمرمیں تین گنا بڑا ہو۔ جو دن میں تم کو بہت مارے اور ساری رات تم پرجھولے۔ تم کہوگے کےاتنے بچے۔ تم نےمیرے شوہر کی مار نہیں کھائی ہے۔ جب وہ کہتا تھا دن تو میں کہتی تھی دن اور وہ اگر وہ دن کو رات کہتا تھا تو میں رات کہتی تھی۔۔۔ غربت، ایک شوہر کا انتظار کرنا ہے جو ایک دن گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔۔۔

غُربت تاریک مستقبل کا نام ہے۔ تم جانتے ہو کےتمہارے لڑکے، میرے بچوں کےساتھ نہیں کھلیں گے۔ میرا لڑکا ان لڑکوں کےساتھ کھیلنے پر مجبور ہوگا جواس کوچوریاں کرنا سیکھائیں گے۔ میں اس کا مستقبل دیکھ سکتی ہوں۔ ہاں سلاخوں کے پیچھے۔۔۔ ہاں غُربت کی سلاخوں کے پیچھے۔ وہ ایک دن اپنی آذادی کے لیے شراب پیئےگا اور نشہ کرےگا مگر وہ پھران دونوں کا غلام بن جائے گا۔

غُربت میری لڑکی کی عصمت کا نام ہے جو اس کے حیض آنے سے پہلے ہی لوٹ لی جائےگی۔۔۔

دیکھو میں یہ سب تم کوانتہاہی مایوسی کےعالم بتا رہی ہوں۔ تم نے کہا ہے نا کہ اگر میں تم کو بتاؤں کہ غُربت کیا ہے توتم مجھےاور میرے بچوں کو کھانے کے پیسےدو گے۔۔۔

یاد رکھو میں تمہاری ہی دنیا میں رہتی ہوں۔ میں کہیں اور سے نہیں آئی۔ اپنےاردگرد دیکھو تم کو میرے جیسے ہزاروں نظر آئیں گے۔ کیا تم ان سے بھی یہی سوال کروگے! ۔ کیا تم ان کو بھی ایک وقت کے کھانے کے پیسےدوگے۔

بولو کیا تم دوگے!۔۔۔ کیا تم اکیلے سب کو ایک وقت کے کھانے کے پیسےدوگے۔

تم مجھ سے پوچھتے ہو کےغُربت کیا ہے۔
سنو، مجھے دیکھو۔
میں یہاں ہو۔۔۔ گندی ، بدبو میں نہائی اور غلیظ کپڑے پہنے ۔۔۔
قریب آؤ اور میرے دانتوں کی بساند کو سونگھو۔
میں کہتی ہوں، سنو ، اور مجھ پر رحم کئے بغیر سنو۔
مجھے تمہارا افسوس کرنا نہیں چاہیے۔ سنو بغیرسمجھےسنو۔
اور کوڑے میں پائے ہوے جوتوں میں اپنے پیر رکھو۔
پھر مجھے سنو۔۔۔

اب تمہیں کیسا لگتا ہے۔۔۔

ایک لمحمہ کے لیے ۔۔۔
صرف ایک لحمہ کے لیے ۔۔۔
یہ سوچو کہ میں تمہاری بہن ہوں۔۔۔
کیا تم ایسا سوچ سکتے ہو۔۔۔ بولو کیا تم ایسا سوچ سکتے ہو۔۔۔ بولو نا۔۔۔ کیا تم ایسا سوچ سکتے ہو!
۔۔۔۔۔۔ کیا تم ایسا سوچ سکتے ہو۔۔۔
۔
۔
۔
نہیں نا۔۔۔تم کبھی ایسا نہیں سوچ سکتے۔
پھر تم مجھ سےکیوں پوچھتے ہو غُربت کیا ہے!
میں تمہاری کون ہوتی ہوں؟​
 

تیشہ

محفلین
01hmm.gif
 

تیشہ

محفلین
بڑے بھیا اتنا مشکل مشکل لکھتے ہیں آپ مجھے پڑھکر بھی سمجھ نہیں آرہی تھی نا :( کہ اب کیا کمنس لکھوں ۔ :confused:
 

تفسیر

محفلین
بڑے بھیا اتنا مشکل مشکل لکھتے ہیں آپ مجھے پڑھکر بھی سمجھ نہیں آرہی تھی نا :( کہ اب کیا کمنس لکھوں ۔ :confused:

جب میں پاکستان گیا تھا تو میں نے راولپندی اور کراچی میں بے انتہا بھکاری دیکھے۔ کراچی کے ہراچھے بُرے علاقہ میں بغیر دیواروں کی چُگیاں تھیں اور راولپندی اور کراچی میں ہر چوراہے پر عورتیں گود میں ایک بچہ اور دوسرے بچےکا ہاتھ پکڑے بھیک مانگ رہیں تھیں۔ کراچی میں زیادہ تر اندورن ملک سے روزی کے لیے آئے ہیں :mad:
میں نے ان عورتوں کے انٹرویو لیے ( امن ایمان والے نہیں:grin:) ان کے ساتھ بیٹھا۔ ان کے ساتھ کھایا۔ یہ ان غریبوں کی حقیقت ہے جو میں نے ان سے سننی۔ یہ ہماری بہنوں کی حقیقت ہے ۔
اب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ لاکھوں عورتیں کتوں سے بدتر زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ان کی حقیقت ہے :mad:
 

محسن حجازی

محفلین
آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔ بہت کمال منظر کشی کی ہے۔۔۔ جیتی جاگتی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے۔۔۔۔
لیکن تفسیر بھائی۔۔۔ اس سب کا حل کیا ہے۔۔۔ لٹیروں کے بچے مہنگی گاڑیوں پر آتے اور جاتے ہیں۔۔۔ میرے اپنے دفتر کے سامنے یہ سب ہوتا ہے۔ اتنی کاریں ہوتی ہیں کہ ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔۔۔ اور دوسری طرف یہ تصویر۔۔۔
آخر کیا حل ہے۔۔۔۔
کیا ٹینڈے لوکی ٹماٹر کاشت کر کر کے ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں آ جائیں گے؟
 
ان دنوں میں سکھر میں ہوا کرتا تھا گاؤں گیا تو امی نے عجیب بات سنائی کہنے لگی فلا بندے کا بیٹا بیمار تھا، علاج کے لئے پیسے نہیں تھے اپنی بیوی کے ساتھ سائیکل پر بچے کو سرکاری ہسپتال لے گئے، وہاں پہنچے تو بچہ فوت ہو چکا تھا اب لاش کو گھر کیسے لے جائیں پیسے کا بڑا مسئلہ تھا نہ ایمبولنس کرسکتے تھے اور نہ کوئی دوسری گاڑی دل پر پتھر رکھ کر میاں بیوی لاش کو اسی سائیکل پر 10 کلومیٹر گاؤں لے آئے۔ اس گھر کے کچھ افراد گاؤں میں چوری کرتے تھے عین اس وقت جب لاش گھر میں پڑی ہوئی تھے پولیس نے چھاپہ مارا اور مجبوراَ ان کو گھر سے بھاگنا پڑا۔
تفسیر اس طرح کی زندگی کو مجھے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے ، مگر بڑے بھائی سب سے بڑا مسئلہ میں دیہات کی بات کر رہا ہوں تعلیم ہے اگر صحیح تعلیم دی جائے تو کم از کم غربت کم ہو سکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غربت حکومت ختم کرے گی تو یہ ہمارا خواب ہوگا۔
اب دیکھیں ہماری تعلیم کا حشر جہاں اسکول ہیں وہاں استاد نہیں، جہاں استاد ہیں وہاں تعلیم نہیں اور جہاں تعلیم وہاں بچے کو پرائمری سے نقل کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ جو اس وقت اساتذہ ہیں وہ نقل کی پیداوار ہیں۔
ایک پرائمری استاد بچوں کا پڑہا رہا ہے۔
سوال: قائد اعظم کب پیدا ہوئے تھے؟
جواب: قائد اعظم کب وفات پا گئے تھے۔

اب آپ ہی بتائیں کیا ہوگا اس ملک و قوم کا۔

(یہ تحریر سندھ کے تناظر میں ہے(
 

زرقا مفتی

محفلین
تفسیر صاحب
ؔپ کی تحریر کچھ دن پہلے پڑھی تھی اور بہت ڈپریس ہو گئی
اگر انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معاشی ناہمواری،اور غربت ہر معاشرے میں موجود رہی ہے
دنیا کی عظیم ترین سلطنتیں بھی معاشی مساوات قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں
دیکھا جائے تو امریکہ کے بھی دس سے بیس فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں
اشتراکی نظام بھی دنیا میں تبدیلی نہیں لا سکا
تو پاکستان بھی اسی دُنیا کا حصہ ہے
میں سمجھتی ہوں کہ اگر زکوۃ کو اجتماعی طور پر فراہمیئ روزگار کے لئے استعمال کیا جائے اور دیہاتوں میں فنی تعلیم کے ادارے قائم کئے جائیں تو غربت میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے
والسلام
زرقا
 

محمد وارث

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح ایک بہت اچھی تحریر ہے تفسیر صاحب۔

آپ نے ایک انتہائی حساس موضوع کو چھیڑا ہے کہ معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں اور دن بدن ان میں بڑھتی ہوی خلیج، اس دنیا کے ناسور ہیں اور اس طرف توجہ کرنے کی انتہائی ضرورت بھی ہے کہ، ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق، غربت انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے۔


 

تیشہ

محفلین
جب میں پاکستان گیا تھا تو میں نے راولپندی اور کراچی میں بے انتہا بھکاری دیکھے۔ کراچی کے ہراچھے بُرے علاقہ میں بغیر دیواروں کی چُگیاں تھیں اور راولپندی اور کراچی میں ہر چوراہے پر عورتیں گود میں ایک بچہ اور دوسرے بچےکا ہاتھ پکڑے بھیک مانگ رہیں تھیں۔ کراچی میں زیادہ تر اندورن ملک سے روزی کے لیے آئے ہیں :mad:
میں نے ان عورتوں کے انٹرویو لیے ( امن ایمان والے نہیں:grin:) ان کے ساتھ بیٹھا۔ ان کے ساتھ کھایا۔ یہ ان غریبوں کی حقیقت ہے جو میں نے ان سے سننی۔ یہ ہماری بہنوں کی حقیقت ہے ۔
اب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ لاکھوں عورتیں کتوں سے بدتر زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ان کی حقیقت ہے :mad:




:grin:
اچھا کیا میرے آتے آتے یہاں سے آخری جملہ ہٹا لیا گیا ہے ورنہ :( مجھ سے بھی کچھ مزید شان میں گستاخی بڑھ جاتی ۔ :grin::grin:
 

تیشہ

محفلین
جب میں پاکستان گیا تھا تو میں نے راولپندی اور کراچی میں بے انتہا بھکاری دیکھے۔ کراچی کے ہراچھے بُرے علاقہ میں بغیر دیواروں کی چُگیاں تھیں اور راولپندی اور کراچی میں ہر چوراہے پر عورتیں گود میں ایک بچہ اور دوسرے بچےکا ہاتھ پکڑے بھیک مانگ رہیں تھیں۔ کراچی میں زیادہ تر اندورن ملک سے روزی کے لیے آئے ہیں :mad:
میں نے ان عورتوں کے انٹرویو لیے ( امن ایمان والے نہیں:grin:) ان کے ساتھ بیٹھا۔ ان کے ساتھ کھایا۔ یہ ان غریبوں کی حقیقت ہے جو میں نے ان سے سننی۔ یہ ہماری بہنوں کی حقیقت ہے ۔
اب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ لاکھوں عورتیں کتوں سے بدتر زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ان کی حقیقت ہے :mad:




جی بڑے بھیا میں اندازہ کر سکتی ہوں :( میں جانتی ہوں انکی مجبوریاں اور حالات ۔ آپ صیح کہہ رہے ہیں بلکل میں آپ سے متفق ہوں جو آخری بات آپ نے لکھی تھی اس سے ۔ :(:mad::mad:
 
Top