نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ تحریر لکھی اکتیس دسمبر کو لکھنا شروع کی اور یکم جنوری کو ختم کی۔ تاہم شائع نہ کر سکا۔ کچھ منتشر خیالی اور سال نو کا آغاز بھی انتشار اور تخریب کا امتزاج رہا۔ ارادہ یہ تھا کہ تحریر میں کوئی ربط پیدا کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کو بہتر کروں گا۔ وہ نہ کر سکا۔ نہ بہتر ہو سکی۔ اور خیر، ابھی کافی بھی دن گزر گئے، لیکن پھر بھی نئے سال کا کہہ کر ہی پیش کر رہا ہوں۔ کہ نیت یہی تھی۔


تم نے کیا سیکھا؟
کئی برس سے ہر سال کی آخری شام یا نئے سال کی صبح ایک تحریر سرزرد ہو جاتی ہے۔ یہ تحریر کبھی تو یاد ماضی سے ہوتی ہوئی حال کے دریچوں تک آ پہنچتی ہے اور کبھی کسی واقعہ سے دوسرے واقعہ تک کا سفر کر لیتی ہے۔ لیکن یہ برس گذشتہ زندگی سے بہت مختلف رہا ہے۔ سو اسی سال کا ایک واقعہ اسی سال سے جوڑ کر آغاز کرتا ہوں۔

چند مہینے پہلے کی بات ہے۔ میں اردو بازار کے باہر کھڑا تھا۔ ہاتھ میں کافی کتابیں، رنگ، پینسل ربر وغیرہ تھیں جو میں نے بچوں کے لیے خریدی تھیں۔ میں اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ جو دو چار چیزیں رہ گئی ہیں، ان کی خرید کا ارادہ ترک کر دوں، یا کہ یہ سب بوجھ اٹھائے ایک خریداری جاری رکھوں۔ اسی سوچ میں گم میری نظر سامنے رکشے پر پڑی۔ صاف ستھرے رکشے میں سادہ مگر اجلے ملبوس میں موجود بزرگ سر پر روایتی پگڑی باندھے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے مسکرا کر انہیں سلام کیا۔ انہیں نے بڑی شفقت سے جواب دیا اور کہنے لگے کہ رکشے پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
میں نے کہا ! اگر آپ لے جائیں تو!
انہوں نے کہا۔ چلیں پھر!
میں نے عرض کی! کیا کرایہ لیں گے۔
فرمانے لگے! جو بھی دے دیجیے گا۔
میں نے کہا! پچاس روپے بہت ہیں۔
انہوں نے جواب میں کہا۔ ہاں! اور رکشے کا دروازہ کھول دیا۔
میں نے کہا، سوچ رہا ہوں کہ کچھ چیزیں رہ گئی ہیں۔ وہ لے لوں یا چھوڑ دوں؟
کہنے لگے! رکشے میں سامان رکھ دیں اور جا کر خریداری مکمل کر لیں۔ اور پھر کچھ سوچ کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ شناختی کارڈ اور چند ہزار روپے جو جیب میں تھے، نکال کر میری طرف بڑھا دیے۔ اور کہنے لگے کہ اگر آپ کو شک ہو کہ میں سامان لیکر چلا جاؤں گاتو ساتھ لے جائیں۔
میں ہنس پڑا اور کہا کہ اگر میں یہ پیسے اور شناختی کارڈ لیکر نکل گیا تو آپ کو زیادہ پریشانی ہوگی۔ پہلی بار وہ کھلکھلا کر ہنسے اور کہا کہ "پتر! کسی ایک نوں تے رب تے بھروسا رکھنا پینا اے۔"
میں رکشے میں بیٹھ گیااور کہا، چھوڑیں سامان کو ۔ چلتے ہیں۔
رکشے کے اندر کسی بزرگ کی کئی تصاویر ٹنگی ہوئی تھیں۔ میں نے گفتگو جاری رکھنے کو پوچھا، یہ آپ کے مرشد ہیں؟
فرمانے لگے۔ ہاں! اور اپنے مرشد کے آستانے کا بتایا۔
پھر کہنے لگے کہ میری ڈیوٹی رکشہ چلانا ہے۔ مجھے رکشہ چلاتے پینتیس برس ہوگئے ہیں۔ مجھے مرشد رکشہ چلانے کا حکم دیا تھا۔ سو آج بھی یہ ڈیوٹی نبھا رہا ہوں۔
میں نے کہا! اگر میں اب پچاس روپے دے کر اتر جاؤں تو آپ کو نقصان ہوجائے گا۔
مسکر ا نے لگے۔ بیٹا! توں ہالے تیکر ایہو سمجھ ریا ایں نا، کہ میں اوتھے جا کے تیرے کولوں ودھ پیسے منگاں گا۔
میں نے کہا! نہیں! یہ بات نہیں ہے میرے ذہن میں۔ مگر سوچ رہا ہوں کہ آپ کا اتنا دھیما رویہ آپ کو نقصان دیتا ہی ہوگا۔
پینو راما آگیا۔ میں اترا اور ان کو کچھ رقم دی۔ وہ کہنے لگے یہ میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کسی کو چائے پلا دیجیے گا۔ کہنے لگے اب تم نے مجھ پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ مجھے کسی کو ڈھونڈ کر چائے پلانی پڑے گی۔ میں ہنس پڑا۔
جانے سے پہلے میں نے ان سے کہا۔ آپ اتنے عرصہ سے اپنے مرشد کے ساتھ ہیں۔ ڈیوٹی بھی دے رہے ہیں۔ پینتیس برس سے رکشہ چلا رہے ہیں۔ آپ نے اس سارے عرصہ میں کیا چیز سیکھی ہے؟
انہوں نے مجھے بڑے غور سے دیکھا جیسے میرے لفظوں میں کوئی طنز ڈھونڈ رہے ہوں، میرے چہرے پر کوئی کہانی پڑھ رہے ہوں۔ اور پھر مسکرا کر ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہا۔ پتر میں کنات "قناعت" سیکھی اے۔ ایسا کہتے ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔

گزشتہ برس میری زندگی کے بدترین برسوں میں سے ایک رہا۔ میں جو زندگی میں بارہا مواقع ملنے کے باوجود کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا۔ مجھے لگا کہ میں نے غلط کیا۔ میں نوجوانوں کو یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ یار تین حرف بھیجو! اگر اس ملک کے علاوہ کہیں بھی جا سکتے ہو تو چلے جاؤ۔ دنیا کا ہر گوشہ ہی شاید اب یہاں سے بہتر ہے۔ اس ملک کے سیاسی اور سماجی شعور پر جو کالک ملی گئی ہے اب اس کالک کو دھلنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔میں جانتا ہوں کہ ہم پاکستانی ہیں۔ بلکہ شاید میں یہ بات بہت شدت سے جانتا ہوں کہ میرا بلکہ ہمارا آخری سہارا یہی خطہ پاک ہے۔ جغرافیائی اہمیت رکھتے ہوئے بیرونی دباؤ اور اندر پھیلی بداعتمادی، بدظنی، نا اتفاقی اور منافرت نے ہمیں منتشر کر رکھا ہے۔ ایسے حالات میں مایوسی اور خودغرضی کی فصل ہی کاشت ہو سکتی ہے۔ ہر خوبی، اچھائی ، برائی اور زیادتی کا ردعمل ہوتا ہے۔ وہ اپنا رنگ ضرور نکالتا ہے۔ اس رنگ کے چڑھنے اترنے میں دیر سویر ممکن ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ عمل ماحول سے تعامل کر کے ردعمل نہ پیدا کرے۔سو موجودہ صورتحال ہمارے بیتے روزو شب کے اعمال کی غماز ہی ہے۔ ہم نے علم و ادب کو سرد خانے میں ڈا ل دیا۔ ہمارے مدارس سے فارسی اور عربی کا اخراج ہوا۔ اساتذہ جو ادبی رسائل و جرائد کے گرویدہ ہوا کرتے تھے، اخبار بینی سے ہوتے ہوتے ، فیس بک اور ٹک ٹاک تک محدود ہوگئے۔ اشرافیہ میں آپا دھاپی شروع دن سے چل رہی ہے۔ یہ دکان لو، وہ مکان قبضہ کرو۔ یہ کھیت یہ کھلیان ادھر کرو ۔ وہ صنعت تم لو، یہ کارخانہ ادھر سرکاؤ۔ ان سیہ کاریوں پر ہم نے بات نہ کی۔ کبھی ضرورت نہیں سمجھی۔"اپنے آپ کو بدلو زمانہ بدلے گا " کا منجن ہمیں اتنا بیچا گیا کہ ہمیں لگا یہی حقیقت ہے۔ منظم موقع پرست ان کی مدح سرائیوں پر رطب اللساں رہے، بقیہ مدح سمائی میں گم رہے۔ اور ہم سلیم بیتاب کے اشعار پڑھ کر اپنا وقت گزارتے رہے
جو سنگ کے ٹکڑے ہیں ابھی خواروپریشاں
ان ٹکڑوں کی ترتیب سے کہسار بنے گا
ہمارا کہسار کیا بننا تھا۔یہ نفسا نفسی کی فضا ہمارے ٹیلوں کو بھی کھا گئی۔نئے سال کے پہلے دن مجھے یہ بات کرنے میں رتی برابر بھی عار نہیں ہے کہ اگر انسان اپنی تاریخ اپنے سامنے موجود حالات یا ورثے میں ملے حالات و محرکات کے تابع بنائے تو اس کے اندر تخریبی پہلو لازما بہت نمایاں رہے گا۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ محض تخریبی ہو۔ اگر ایسی صورتحال سے نبٹنے کی کوئی نیت یا ارادہ آپ کو مقتدر لوگوں سے نہ ملے، تو کوچ کرنا یا گوشہ نشینی اختیار کرنا کہیں بہتر ہے۔گو کہ عہد حاضر میں گوشہ نشینی ایک مشکل کام ہے کہ نہ جنگل ہے اور نہ مصلیٰ۔ رہی بات تخت نشینی کی۔۔۔ تو وہ اب تختہ زعفران ہوئی۔

وہ رکشے والے بزرگ تو چلے گئے۔ لیکن یہ واقعہ، یہ منظر، یہ گفتگو میرے اندر رہ گئی۔ میرے کئی برس اس گفتگو میں واضح ہو گئے۔ میرے روز و شب کی قلعی کھل گئی۔ میرے اندر کی سیاہی باہر آگئی۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ اس سیاہی نے میرے پورے معاشرے کو ڈھانپ لیا۔ گزشتہ برس کے تمام واقعات گزارنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ برس میری زندگی میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یا اگر آنا تھا تو آنے سے پہلے مجھے اپنے ماحول میں مکمل طور پر ڈھل جانا چاہیے تھا۔ لیکن بھلا ہوں ان بزرگ کا۔ انہوں نے مجھے روشنی دی۔ راستہ دکھایا۔ مجھے بتایا کہ ماحول کچھ بھی ہو، راستہ کوئی بھی ہو، چلتے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ رک جانا جمود ہے۔ یہ راستے گزر جائیں گے۔ یہ وقت گزر جائے گا۔ شیکبا اور ناشیکبا وقت کی دیوار پر اپنے نقوش چھوڑ جائیں گے۔ہم زندگی کی گوناگوں مصروفیات سے سر اٹھا کر ایک نظر دوسروں کو بھی دیکھ لیں۔ شاید کسی کے پاس پچاس ہی روپے ہوں۔ شاید کسی کے پاس ایک کپ چائے ہی رہ جائے۔ یا شاید کسی کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ وہ دیوار میں در پیدا کر لے۔ شاید۔۔۔۔۔یا شاید میں نئے سال پر ارادے باندھنے والوں سے اور مبارک باد دیتے لوگوں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ زندگی کے کم یا زیادہ۔۔۔ جتنے بھی برس تم نے گزارے۔۔۔ ہاں تمہیں اجازت ہے غور سے میرا چہرہ دیکھو۔ ہاں میرے روز و شب پر بھی نظر کر لو۔ اور پھر اپنی مادری زبان میں مضبوط انداز میں یقین سے بتاؤ کہ ۔۔۔۔ تم نے کیا سیکھا؟

نیرنگ خیال
١ جنوری ۲۰۲٥


گزشتہ برسوں کے آغاز و اختتام پر لکھی گئی تحاریر

یکم جنوری 2024 کو لکھی گئی تحریر "ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی"
یکم جنوری 2023 کو لکھی گئی تحریر "سیکرٹ فرینڈ"
یکم جنوری ۲۰۲۱ کو لکھی گئی تحریر "یہ ہو تم"
یکم جنوری ۲۰۲۰ کو لکھی گئی تحریر "دو باتیں"
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
 
آخری تدوین:
زندگی میں آگے بڑھنے کو محرکات لازمی چاہیے ہوتے ہیں وہ کسی بھی صورت ہوں۔۔۔۔ مرشد اسی لیے مرشد ہے کہ یہ راستہ وہ ایک جست میں طے کروا دیتے ہیں۔۔۔ ہمیشہ کی طرح سال نو پر خوبصورت تحریر شیئر کرنے پر آپ کے شکر گزار ۔۔۔ یہ تحریريں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ جزاک اللہ خیرا
 

زیک

مسافر
آپ ابھی تک سیکھ سیکھا رہے ہیں یہی بڑی بات ہے۔

یں نوجوانوں کو یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ یار تین حرف بھیجو! اگر اس ملک کے علاوہ کہیں بھی جا سکتے ہو تو چلے جاؤ۔
یہ بات دو دہائیوں سے پاکستانیوں کو کہہ رہا ہوں اور آپ کے باقی مضمون کے باوجود یہ آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی تیس سال قبل تھی جب میں نے پاکستان چھوڑا تھا۔

میرے اندر کی سیاہی باہر آگئی۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ اس سیاہی نے میرے پورے معاشرے کو ڈھانپ لیا۔
اندر کی سیاہی اور ماحول کی سیاہی کا پازیٹو فیڈبیک کا رشتہ ہے۔ یہ مل کر آپ کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسی لئے ارد گرد کا ماحول زیادہ برا نہیں رکھنا چاہیئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قناعت و اطمینان کے بغیر زندگی کا حاصل کچھ نہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آہ۔۔۔۔
ماشاء اللّٰه ، دل کی سیاہی کا تو علم نہیں لیکن تحریر میں آپ کے دل کا گداز، دل کے پیمانے سے چھلکتا ہوا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
 
Top