گل زیب انجم
محفلین
تم پرندے نہیں ہو
تحریر :- گل زیب انجم
کہا جاتا ہے کہ ہر گزرے پل پر سوچ و فکر کرنے سے خود ساختہ طور پر احتساب ہوتا رہتا ہے اسی طرح اچھائی پر شکر کرنے اور برائی پر نادم ہونے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور گذری ساعتوں کے المیے مستقبل کے لیے مشعل راہ کے طور پر کام آتے ہیں .
کسی مفکر کا کہنا ہے کہ جو قومیں ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتی رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے . یہ ایسا معقولہ ہے جس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا .
وقت نے ہمیں کیا کیا نہیں سکهایا لیکن ہم ایسے ہیں کہ رات گئی بات گئی کہہ کر ماضی کو دفنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. قومی شاہراہوں بلند ترین ٹاورز اورقریہ کوچوں کو دلہنوں کی طرح سجاتے سنوارتے اور ہپی نیو ایئر کی فلک شگاف صدائیں دیکھ اور سن کر نہ جانے کیوں میرے خیالات کی کڑی اس محصوم پوتے کی دہلیز تک جا پہنچی جو اپنے دادا ابو سے یہ پوچه رہا تھا پرندے کچھ دیر چہچہانے کے بعد دفعتاً خاموش کیوں ہو جاتے ہیں.
دادا جی بتائیں نا ! کیا بتاؤں ؟ یہی نا کہ پرندے شام کو درختوں پر بیهٹتے ہوئے شور کیوں کرتے ہیں؟ یہ شور ان کی واپسی کی خوشی میں ہوتا ہے . ان سب کو گهل مل کر بیهٹنا اور دن کا بخیر و عافیت گذر جانا اچھا لگا اس لیے ان کے چہچہانے سے خوشی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور ایک طرح سے یہ شکر بھی بجا لاتے ہیں -دادا جی نے بات ختم کرتے ہی حقہ نزدیک کرتے ہوئے ایک لمبا کش لگایا . حقے کی نے کو ہونٹوں سے ہلکے ہلکے بجاتے ہوئے تیکهی نظروں سے پوتے کی معصوم صورت دیکهنے لگے . لیکن ان کے اس وقفہ کش میں پوتے نے ایک اور سوال سوچ لیا تھا. ..! دادا جی کو نے ( حقے کی نال) سے منہ ہٹاتے دیکھ کر بڑی دهیمی آواز سے پوچھا. ..... پهر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں ؟. پوتے کے اس نئے سوال پر دادا جی نے کیسانی نظروں سے دیکھتے ہوئے حقے کی نال کو کچھ اور گرفت میں لیا اور لمبی سی آہ بهری........ دادا جی کو یوں آفسردہ دیکھ کر پوتا شرمندہ ہوتے ہوئے کہنے لگا کیا میں نے کچھ نامناسب سا سوال کر دیا ہے. نہیں نہیں تمہارا سوال تو بڑا اہم ہے لیکن جواب اس کا شاید تمہاری سمجھ میں نہ آئے.....نہیں دادا ابو آپ مجھے بتائیں میں سمجھنے کی کوشش کروں گا. ...اچھا تو تم نے یہ پوچھا تھا کہ پهر اچانک چپ کیوں ہو جاتے ہیں جی ہاں دادا ابو !
دادا جی نے گلا کهنکارتے ہوئے جهری پڑی آنکھوں کو حقے پر لگی آگ والی ٹوپی پر فوکس کرتے ہوئے کہا بیٹا ان پرندوں کا اچانک چپ ہو جانا سوگ کے زمرے میں آتا ہے. وہ کیسے دادا ابو؟
وہ ایسے کہ جب صبح کے نکلے ہوئے پرندے شام گھروں کو لوٹتے ہیں تب وہ ایک دوسرے کی خبرگیری کرتے ہیں یہ جو ہمیں شور سا سنائی دیتا ہے نا دراصل یہ ایسا ہی ہے جیسا ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی بات دوسرے تک پہچانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کیے بغیر پورے زور سے آواز نکال رہے ہوتے ہیں یہ مخلوق خدا بهی زور زور سے ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہوتی ہے کہ فلاں کا کیا حال ہے فلاں کدهر ہے فلاں ابهی تک کیوں نہیں پہنچا پهر جو ان فلاں کے متعلق جانتے ہوتے ہیں نا وہ بھی پورے زور سے بلکل ہمارے معاشرے کے لوگوں کی طرح پہلے بتانے کی بنا پر اپنی اپنی انفارمیشنیز دینے کے لیے پہل کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فلاں کو پیاس کی شدت نے ہلاک کیا فلاں برقی تاروں سے ٹکرا کر مر گیا اور جو فلاں تها اسے کسی آدم زاد نے پکڑ کر پابند سلاسل کر دیا. جب یہ خبر سب تک پہنچ جاتی ہے تو سارے پرندے ان کی جدائی کا صدمہ دل میں لے کر آنکھیں موند لیتے ہیں اور ان سے وابستہ یادیں ذہن میں گھومنے لگتی ہیں اور وہ صدمہ جدائی کی اذیت سے اپنی چونچ کو سینے پر یوں مارتے ہیں جیسے ہمارے معاشرے کے ان لوگوں کی طرح جن کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی تو وہ اپنے ہی ہاتھوں سے سینہ کوبی کر کے ٹهوڑی سینے پر رکھ لیتے ہیں دادا جی نے اپنی ٹهوڑی سینے سے لگا کر دکهاتے ہوئے کہا بس جب پرندے اس کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو خاموشی چھا جاتی ہے.
دادا جی نے خاموشی. ... چها.... جاتی ہے کچھ ایسے انداز میں کہی کہ پوتا فوراً چونک کر دادا ابو کو دیکهنے لگا جو حقے کی نال نہ جانے کب سے چهوڑ کر نم ہوتی پلکوں کو ہاتھ کے انگوٹهوں کی پشت سے صاف کر رہے تھے. پوتے نے بھی روندی ہوئی آواز میں کہا اچھا اس ... لیے ... پرندے ...خاموش ... ہو ... جاتے ... ہیں .
دادا پوتے کی سادگی بهری کہانی سن کر میری سوچیں وطن عزیز کے کونے کونے تک پهیل گئی میری آنکھوں کے سامنے ماضی قریب کی خون رنگ ہولی کی فلم چلنے لگی مساجدوں میں پهٹتے بموں کی آوازیں سنائی دینے لگیں گلیوں کوچوں سے آہوں سسکیوں اور بینوں کی دلسوز صدائیں گونجنے لگیں سکولوں سے بچوں کے خون الودہ بیگ اور چهتڑے چهتڑے ہوئے جسم آتے دکھائی دینے لگے افواج وطن کے تابوت قطاروں میں قبرستان جاتے دکھائی دینے لگے غربت ومفلسی کے ہاتھوں تنگ آ کر خود سوزی کرنے والوں کے جسم درختوں اور شہتیروں سے جھولتے نظر آنے لگے تو گوشہ دل سے صدا آئی تم کون سے پرندے ہو جو بچهڑے ہووں کی یاد میں سوگ منانے کے لیے آفسردہ ہو رہے ہو تم تو اشرف المخلوقات ہو تم گذشتہ کل کو بهول جاو ہلہ گلہ کرو کیونکہ آج کے غروب ہوتے سورج نے تم سے تمہاری الفت تمہاری ہمدردی تمہاری حب الوطنی تمہاری یادداشت چهین لی ہے تم زندہ دلی کے نعرے لگاو ہیپی نیو ایئر کے راگ الاپو کیونکہ تم اشرف المخلوقات ہو پرندے نہیں ہو .
تحریر :- گل زیب انجم
کہا جاتا ہے کہ ہر گزرے پل پر سوچ و فکر کرنے سے خود ساختہ طور پر احتساب ہوتا رہتا ہے اسی طرح اچھائی پر شکر کرنے اور برائی پر نادم ہونے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور گذری ساعتوں کے المیے مستقبل کے لیے مشعل راہ کے طور پر کام آتے ہیں .
کسی مفکر کا کہنا ہے کہ جو قومیں ماضی سے سبق حاصل نہیں کرتی رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے . یہ ایسا معقولہ ہے جس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا .
وقت نے ہمیں کیا کیا نہیں سکهایا لیکن ہم ایسے ہیں کہ رات گئی بات گئی کہہ کر ماضی کو دفنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. قومی شاہراہوں بلند ترین ٹاورز اورقریہ کوچوں کو دلہنوں کی طرح سجاتے سنوارتے اور ہپی نیو ایئر کی فلک شگاف صدائیں دیکھ اور سن کر نہ جانے کیوں میرے خیالات کی کڑی اس محصوم پوتے کی دہلیز تک جا پہنچی جو اپنے دادا ابو سے یہ پوچه رہا تھا پرندے کچھ دیر چہچہانے کے بعد دفعتاً خاموش کیوں ہو جاتے ہیں.
دادا جی بتائیں نا ! کیا بتاؤں ؟ یہی نا کہ پرندے شام کو درختوں پر بیهٹتے ہوئے شور کیوں کرتے ہیں؟ یہ شور ان کی واپسی کی خوشی میں ہوتا ہے . ان سب کو گهل مل کر بیهٹنا اور دن کا بخیر و عافیت گذر جانا اچھا لگا اس لیے ان کے چہچہانے سے خوشی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور ایک طرح سے یہ شکر بھی بجا لاتے ہیں -دادا جی نے بات ختم کرتے ہی حقہ نزدیک کرتے ہوئے ایک لمبا کش لگایا . حقے کی نے کو ہونٹوں سے ہلکے ہلکے بجاتے ہوئے تیکهی نظروں سے پوتے کی معصوم صورت دیکهنے لگے . لیکن ان کے اس وقفہ کش میں پوتے نے ایک اور سوال سوچ لیا تھا. ..! دادا جی کو نے ( حقے کی نال) سے منہ ہٹاتے دیکھ کر بڑی دهیمی آواز سے پوچھا. ..... پهر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں ؟. پوتے کے اس نئے سوال پر دادا جی نے کیسانی نظروں سے دیکھتے ہوئے حقے کی نال کو کچھ اور گرفت میں لیا اور لمبی سی آہ بهری........ دادا جی کو یوں آفسردہ دیکھ کر پوتا شرمندہ ہوتے ہوئے کہنے لگا کیا میں نے کچھ نامناسب سا سوال کر دیا ہے. نہیں نہیں تمہارا سوال تو بڑا اہم ہے لیکن جواب اس کا شاید تمہاری سمجھ میں نہ آئے.....نہیں دادا ابو آپ مجھے بتائیں میں سمجھنے کی کوشش کروں گا. ...اچھا تو تم نے یہ پوچھا تھا کہ پهر اچانک چپ کیوں ہو جاتے ہیں جی ہاں دادا ابو !
دادا جی نے گلا کهنکارتے ہوئے جهری پڑی آنکھوں کو حقے پر لگی آگ والی ٹوپی پر فوکس کرتے ہوئے کہا بیٹا ان پرندوں کا اچانک چپ ہو جانا سوگ کے زمرے میں آتا ہے. وہ کیسے دادا ابو؟
وہ ایسے کہ جب صبح کے نکلے ہوئے پرندے شام گھروں کو لوٹتے ہیں تب وہ ایک دوسرے کی خبرگیری کرتے ہیں یہ جو ہمیں شور سا سنائی دیتا ہے نا دراصل یہ ایسا ہی ہے جیسا ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی بات دوسرے تک پہچانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کیے بغیر پورے زور سے آواز نکال رہے ہوتے ہیں یہ مخلوق خدا بهی زور زور سے ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہوتی ہے کہ فلاں کا کیا حال ہے فلاں کدهر ہے فلاں ابهی تک کیوں نہیں پہنچا پهر جو ان فلاں کے متعلق جانتے ہوتے ہیں نا وہ بھی پورے زور سے بلکل ہمارے معاشرے کے لوگوں کی طرح پہلے بتانے کی بنا پر اپنی اپنی انفارمیشنیز دینے کے لیے پہل کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فلاں کو پیاس کی شدت نے ہلاک کیا فلاں برقی تاروں سے ٹکرا کر مر گیا اور جو فلاں تها اسے کسی آدم زاد نے پکڑ کر پابند سلاسل کر دیا. جب یہ خبر سب تک پہنچ جاتی ہے تو سارے پرندے ان کی جدائی کا صدمہ دل میں لے کر آنکھیں موند لیتے ہیں اور ان سے وابستہ یادیں ذہن میں گھومنے لگتی ہیں اور وہ صدمہ جدائی کی اذیت سے اپنی چونچ کو سینے پر یوں مارتے ہیں جیسے ہمارے معاشرے کے ان لوگوں کی طرح جن کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی تو وہ اپنے ہی ہاتھوں سے سینہ کوبی کر کے ٹهوڑی سینے پر رکھ لیتے ہیں دادا جی نے اپنی ٹهوڑی سینے سے لگا کر دکهاتے ہوئے کہا بس جب پرندے اس کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو خاموشی چھا جاتی ہے.
دادا جی نے خاموشی. ... چها.... جاتی ہے کچھ ایسے انداز میں کہی کہ پوتا فوراً چونک کر دادا ابو کو دیکهنے لگا جو حقے کی نال نہ جانے کب سے چهوڑ کر نم ہوتی پلکوں کو ہاتھ کے انگوٹهوں کی پشت سے صاف کر رہے تھے. پوتے نے بھی روندی ہوئی آواز میں کہا اچھا اس ... لیے ... پرندے ...خاموش ... ہو ... جاتے ... ہیں .
دادا پوتے کی سادگی بهری کہانی سن کر میری سوچیں وطن عزیز کے کونے کونے تک پهیل گئی میری آنکھوں کے سامنے ماضی قریب کی خون رنگ ہولی کی فلم چلنے لگی مساجدوں میں پهٹتے بموں کی آوازیں سنائی دینے لگیں گلیوں کوچوں سے آہوں سسکیوں اور بینوں کی دلسوز صدائیں گونجنے لگیں سکولوں سے بچوں کے خون الودہ بیگ اور چهتڑے چهتڑے ہوئے جسم آتے دکھائی دینے لگے افواج وطن کے تابوت قطاروں میں قبرستان جاتے دکھائی دینے لگے غربت ومفلسی کے ہاتھوں تنگ آ کر خود سوزی کرنے والوں کے جسم درختوں اور شہتیروں سے جھولتے نظر آنے لگے تو گوشہ دل سے صدا آئی تم کون سے پرندے ہو جو بچهڑے ہووں کی یاد میں سوگ منانے کے لیے آفسردہ ہو رہے ہو تم تو اشرف المخلوقات ہو تم گذشتہ کل کو بهول جاو ہلہ گلہ کرو کیونکہ آج کے غروب ہوتے سورج نے تم سے تمہاری الفت تمہاری ہمدردی تمہاری حب الوطنی تمہاری یادداشت چهین لی ہے تم زندہ دلی کے نعرے لگاو ہیپی نیو ایئر کے راگ الاپو کیونکہ تم اشرف المخلوقات ہو پرندے نہیں ہو .