کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آبھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی سکو گے تم
ذرّہ تو لاکھ مرتبہ تم پر کرے نگاہ
ذرّے کو آفتاب بنا بھی سکو گے تم
دنیائے دل حسین بنانے کے واسطے
میری فضائے شوق پہ چھا بھی سکو گے تم
بہزاد اک نگاہِ محبت فریب پر
کل دل کی کائنات لُٹا بھی سکو گے تم
(بہزاد لکھنوی)
تم کو بُلا تو لوں، مگر، آبھی سکو گے تم
سچ سچ کہو، یہ بار اُٹھا بھی سکو گے تم
تم کو تخیلات میں لا تو رہا ہوں میں
بزمِ تصوّرات سجا بھی سکو گے تم
اظہارِ عاشقی تو کروں لاکھ بار میں
بارِ جنونِ شوق اُٹھا بھی سکو گے تم
جلوؤں سے چار ہونے کو تیار ہے نظر
اس کو فریبِ حسن میں لا بھی سکو گے تم
ذرّہ تو لاکھ مرتبہ تم پر کرے نگاہ
ذرّے کو آفتاب بنا بھی سکو گے تم
دنیائے دل حسین بنانے کے واسطے
میری فضائے شوق پہ چھا بھی سکو گے تم
بہزاد اک نگاہِ محبت فریب پر
کل دل کی کائنات لُٹا بھی سکو گے تم