تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا....................... زریاب شیخ

zaryab sheikh

محفلین
پاکستان میں خواتین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ فیس بک پر خواتین کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے ، سائنسدان محو حیرت ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد 48 فیصد ہے جبکہ فیس بک پر 60 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے ، ایک حیرت ناک انکساف یہ بھی ہوا ہے کہ چند برسوں میں پاکستان کے نوجوانوں میں شادی نہ کرنے کا رجحان کافی بڑہ گیا ہے ، لاہور میں ایک لڑکے نے دل و جان کے ساتھ ایک لڑکی سے اظہار محبت کیا اور جب اس کا دیدار کرنے گیا تو وہ کافی موٹا تازہ جوان نکلا اور اس بے چارے محبوب کا آئی لو یو کہنے کا شوق ہارٹ فیل بن کر نکل گیا، پاکستان میں سینکڑوں لوگ لڑکی بن کر دوسروں سے نہ صرف بیلنس منگواتے ہیں بلکہ ان بےچاروں کے دل و دماغ کا بھی حشر نشر کر دیتے ہیں ، مصنف کو بھی ایک بار اس تجربے سے گزرنا پڑا جب اس کے دوست نے لڑکی کی آواز میں اس کا دل بہلانے کی کوشش کی ، اللہ نے بچا لیا ورنہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے، انسان کے جسم میں دل سب سے قیمتی حصہ ہوتا ہے اور اس سے کھیلنے والے یقیناً دل جلے ہوتے ہیں لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ لڑکی بن کر فیس بک اور ٹیلی فون پر باتیں کرنے والے اندر سے لڑکی ہی ہوتے ہیں اور بے چارے جو ان کے ساتھ پھنس جائیں وہ ٹھرکی ہی ہوتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر روز سینکڑوں نقلی گرلز کی آئی ڈی بنائی جاتی ہیں اور لوگوں کو الو بنایا جاتا ہے ، اس سے پہلے عاصمہ نامی لڑکی لوگوں کو کافی الو بنا چکی ہے اس لئے میری دوستوں سے گزارش ہے کہ لڑکی کو ایزی لوڈ کروانے سے پہلے ایک بار اس کی امی سے پوچھ لیں کہ کیا ان کی بیٹی ہی ہے یہ نہ ہو کہ جیب بھی خالی ہو جائے اور عاصمہ بعد میں عاصم نکلے اور نقلی آئی ڈی بنانے والی لڑکیوں سے مصنف یہ ہی کہہ سکتا ہے کہ مرد بنوں میری بہنوں اور ایسی حرکتیں نہ کرو
 

یوسف سلطان

محفلین
سائنسدان محو حیرت ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد 48 فیصد ہے جبکہ فیس بک پر 60 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے ۔ (پہلی بار سائنسدان کو خیران ہوتے سنا :laugh:۔ نہیں تو سائنسدان ہی کوئی چیز ایجاد کر کے خیران کرتے ہیں :laughing::laughing:)

لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ لڑکی بن کر فیس بک اور ٹیلی فون پر باتیں کرنے والے اندر سے لڑکی ہی ہوتے ہیں اور بے چارے جو ان کے ساتھ پھنس جائیں وہ ٹھرکی ہی ہوتے ہیں :laugh::rollingonthefloor:
 
Top