تنقيدي محفل

شاکرالقادری

لائبریرین
سخن فہمانِ اردو محفل!
آداب و تسلمات!
يہاں پر "اصلاح سخن ۔۔۔۔ چند تجاوز" نامي دھاگے ميں ميري جانب سے تنقيدي محفل کا تصور ديا گيا تھا بہت سے لوگوں نے اسے پسند بھي کيا اور اپنا اپنا کلام تنقيد کے ليے پييش کرنے کا عنديہ بھي ديا تاہم اس سلسلہ ميں پہل مجھے ہي کرنا چاہيے کيونکہ تجويز ميں نے پيش کي تھي ميں اپني ايک پراني غزل برائے تنقيد پيش کر رہا ہوں اور سخن شناسوں کو دعوت ہے کہ وہ دل کھول کر بغير کسي لگي لپٹي کے اس غزل کي خوبيوں اور خاميوں پر آپني اپني آرا سے نوازيں تنقيدي محفل کے قواعد و ضوابط سکور بالا ميں متذکرہ دھاگے کے اندر موجود ہيں اگر کوئي صاحب ہنوز ان سے آگاہ نہ ہوں تو وہ
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=4096
يہاں پوسٹ نمبر 10 ديکھ سکتے ہيں

اس تنقيدي اجلاس کي صدارت کے ليے ميں
جناب اعجاز اختر کا نام تجويز کرتا ہوں
طريقہ کار يہ ہو گا کہ ايک ايک شعر پر تنقيد ہوگي جب تماام لوگ اپني رائے دے چکيں گے تو صاحبِ صدارت سب سے آخر ميں اس شعر پر اپني رائے ديتے ہوئے بحث کو سميٹيں گے اور اگلے شعر پر تنقيد کے ليے احباب کو دعوت ديں گے صدر کي رائے کے بعد اس شعر پر کوئي اور رائے نہيں دي جائے گي الا کہ صدر خود کسي کي رائے طلب کريں ۔ اس طرح ايک شعر پر تنقيد مکمل ہو جائے گي اور اگلے شعر پر تنقيد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تمام شعروں پر باري باري تننقيد مکمل ہو جانے پر پوري غزل پر بحيثيت مجموعي گفتگو ہو گي اور سب سے آخر ميں صدر محفل اس گفتگو کو سميٹيں گے اور تنقيدي محفل کے اختتام کا اعلان کريں گے
اس کے بعد اگلي تنقيدي نشست ہو گي جس کے ليے کوئي بھي صاحب اپنا کلام پيش کر سکتے ہيں۔ تو صاحبو! بسم اللہ کيجئے
غزل حاضر خدمت ہے
نوٹ ۔۔۔۔ اس غزل کے صرف چار اشعار ہيں اور مقطع موجود نہيں

ھرطرف ہے اداس تنہائي
آگئي مجھ کو راس تنہائي

وہ، کہ محوِ نشاطِ محفل ھے
اور مرے آس پاس تنہائي

اب يہي چند اپنے ساتھي ہيں
آرزو، درد، ياس، تنہائي

وحشتِ دل بڑھائے ديتي ہے
آرزو ناشناس تنہائي
////////////

دوران تنقيد ميں بطور شاعر بالکل خموش رہونگا اور کسي بھي مثبت يا منفي تنقيد کا جواب نہيں دونگا ميں اسي صورت ميں کوئي جواب دينے کا حق رکھتا ہوں جب صدرِ محفل يا انکي وساطت سے کوئي اور رکن مجھ سے غزل کے سلسلہ ميں کوئي وضاحت طلب کريں ۔۔۔ تنقيدي اجلااس کا پورا ککنٹرول صدرِ اجلاس کے ہاتھ ميں ہوگا اور وہ اگر محسوس کريں کہ تنقيد کا رخ تبديل ہو کر غير متعلقہ موضوعات کي طرف جا رہا ہے تو وہ ايسا کرنے والوں کو موضوع کي طرف متوجہ کريں گے اور اگر وہ کہيں يہ سمجھيں کہ ايک شعر پر کافي تنقيد ہو چکي ہے تو وہ اس سلسلہ کو موقوف کر کے اگلے شعر پر تنقيد کي دعوت ديں گے
تو جناب پہلے شعر تنقيد سے آغاز کيا جائے

ھرطرف ہے اداس تنہائي
آگئي مجھ کو راس تنہائي
 

الف عین

لائبریرین
فی الحال تو میں محض غزل کی پسندیدگی کا اظہار کروں گا کہ بھائی شاکر القادری صاحب نے مجھے صدارت کے عہدے پر نافذ کر دیا ہے اور مجھ سے یہ متوقع ہے کہ میں اس تخلیق پر کئے گئے مباحثے کو اپنی رائے کے ساتھ سمیٹوں گا۔ لیکن یہاں اب تک کوئی آیا ہی نہیں؟؟
کہاں ہیں وارث، فاتح، سخنور، فوٹوٹیک (یا خرمین کہا جائے، کہ دونوں ہی کرم ہیں نا!
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم جناب صدرِ محترم صاحب۔

ناچیز حاضر ہے، شاکر صاحب کا آئیڈیا بہت اچھا ہے تنقیدی محفل والا، لیکن خاموش تھا کہ شاید میں اس کام کے قابل نہیں ہوں اور پھر وہ بھی حلقۂ دوستاں میں۔ :)

اور صدرِ محترم، آپ سے ایک گزارش ہے کہ بجائے ایک ایک شعر کو موضوع بنانے کے اگر غزل کو بحیثیت مجموعی زیرِ بحث لایا جائے تو شاید کچھ آسانی ہوجائے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
فی الحال تو میں محض غزل کی پسندیدگی کا اظہار کروں گا کہ بھائی شاکر القادری صاحب نے مجھے صدارت کے عہدے پر نافذ کر دیا ہے اور مجھ سے یہ متوقع ہے کہ میں اس تخلیق پر کئے گئے مباحثے کو اپنی رائے کے ساتھ سمیٹوں گا۔ لیکن یہاں اب تک کوئی آیا ہی نہیں؟؟
کہاں ہیں وارث، فاتح، سخنور، فوٹوٹیک (یا خرمین کہا جائے، کہ دونوں ہی کرم ہیں نا!


جناب محترم سب سے پہلے میں نے ہی اس تھریڈ کو پڑھا تھا پہلے تو شاکر القادری بھائی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اس سلسلے کے لیے
جی جنابِ صدر میں تو اس قابل ہی نہیں ہوں کے تنقید کر سکوں میں تو اس محفل میں طالبِ علم کے طور پڑ آتا ہوں میں تو آپ سب سے بہت کچھ سیکھنا ہے چاہتا ہوں اس لے میں تو شاکر القادری صاحب کی طرح خاموش بیٹھوں گا اور جب کوئی تنقید کرے گا تو جو چیز مجھے سمجھ آئے گی اس پر آپ سب کا شکریہ ادا کروں گا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم جناب صدرِ محترم صاحب۔

ناچیز حاضر ہے، شاکر صاحب کا آئیڈیا بہت اچھا ہے تنقیدی محفل والا، لیکن خاموش تھا کہ شاید میں اس کام کے قابل نہیں ہوں اور پھر وہ بھی حلقۂ دوستاں میں۔ :)

اور صدرِ محترم، آپ سے ایک گزارش ہے کہ بجائے ایک ایک شعر کو موضوع بنانے کے اگر غزل کو بحیثیت مجموعی زیرِ بحث لایا جائے تو شاید کچھ آسانی ہوجائے۔

جی محمد وارث صاحب آپ نے ٹھیک کہا ہے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ایک ایک شعر کو مضوع بنایا گیا تو پھر کام بہت لمبا نہیں ہو جائے گا ؟
 

دوست

محفلین
میں تو خود اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ یہاں پیغام ہی بھیج سکوں۔ پڑھنا پسند کروں گا۔
 

Dilkash

محفلین
بھئ دوست !!! اتنا تو لکھ سکتے ہو کہ بہت اچھی سادہ سی اور عام فہم غزل کے چند اشعار ہیں۔میں نے کہیں پڑھا ہے کہ جب تک پانچ یا سات اشعار نہیں بنتے ، اساتذہ اسے غزل کی صنف میں شمار نہیں کرتے۔
لہذا اگر مکرمی شاکر صاحب پوری غزل لکھ کر ارسال فرمائیں۔تو نوازش ھوگی۔
 

زرقا مفتی

محفلین
قادری صاحب
تنقیدی اجلاس کا خیال اچھا ہے تاہم میں بھی اپنے ؔپ کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ تنقید کر سکوں
البتہ ایک قاری کی حیثیت سے اپنے تاثرات پیش کر سکتی ہوں
ؔپ کی غزل سیدھے سادہ الفاظ میں جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے اور دل کو چھوتی ہے
داد قبول کیجئے
غزل روایتی رنگ میں ہے اور ندرت خیال سے عاری ہے
پہلے شعر میں آپ لکھتے ہیں
آ گئی مجھ کو راس تنہائی

اور آخری شعر میں
وحشتِ دل بڑھائے دیتی ہے

جب تنہائی راس آ چکی ہے تو وحشتَِ دل بڑھنے کا جواز؟؟؟؟؟

بس اتناہی میری طرف سے
والسلام
زرقا
 

Dilkash

محفلین
پتہ نہیں حاضرین کہاں غائب ہیں۔
میں تو خو یہاں سیکھنے کے لئے بے چین ہورہا ہوں۔

اپ نے قادری صاحب کے دو الگ الگ شعروں کے مصروں سے خیالات کی تضاد کی بات کی ہے ۔
غزل کی خوبی شائد یہی ہوتی ہے کہ ہر شعر میں الگ خیال ہو لیکن اپ شاید یہ بتانا چاہتی ہیں کہ قادری صاحب کی ایک ہی غزل میں مجموعی طور پر خیالات کا اتنا تضاد نہیں ہونا چاہئے تھا۔
دیکھتے ہیں باقی دوست کیا کہتے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
چند تاثرات...1

ایک سادہ سی دلنشیں زمین میں شاکرالقادری کی غزل(چار شعر بھی اگر قافیہ ردیف کی شرائط پر پورا اترتے ہوں تو غزل ہی کہلائیں گے) پہلے مطالعہ میں دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔لیکن یہ کسی تخلیق کے اعلیٰ ہونے کی علامت ہرگز نہیں ہے۔اچھے شعر (فن پارہ) کے بارے میں وضاحت کرتا چلوں کہ وہ اپنے قاری یا سامع کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے، ایک دوسرے جہان میں ، ایک دوسری فضا میں۔ جہاں سے قاری یا سامع معانی و مفہوم کی نئی پرتیں ساتھ لئے پلٹتا ہے۔اس کے بعد دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ دریافت کردہ معانی کن اقدارکے حامل ہیں۔
تو آئیے !!!
دیکھتے ہیں شاعر ہمیں کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

ھرطرف ہے اداس تنہائي
آگئي مجھ کو راس تنہائي

(غزل کی اس اکائی-شعر میں دونوں مصرعوں کا تضاد کس قدر واضح ہے۔پہلے دوسرے مصرعہ پر غور کیجئے، "آ گئی مجھ کو راس تنہائی" گویا تنہائی پسند آ گئی،یا مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔جب کوئی چیز روزمرہ کا حصہ بن جائے تو اس کی بابت خبر میں حیرانگی کا عنصر قدرے چبھتا ہے۔ اس شعر میں یہی ہوا ہے۔
پہلا مصرعہ ایک خبر ہے " ہر طرف ہے اداس تنہائی" دوسرے مصرعہ میں شائد نتیجہ (وجہ) اخذ کیا گیا ہے۔ لیکن نتیجہ قطعا" اپنی خبر (وجہ/سبب) سے متضاد ہے۔ چلئے سیدھے سادے لفظوں میں بات کرتے ہیں، " جب تنہائی راس آگئی تو یہ تو اچھی ہو گئی، پھر اسے ایک منفی صفت سے کیوں منسوب کیا جا رہا ہے، اور وہ بھی خاصے چونکا دینے والے حیران کن انداز میں" ویسے ایک بات اور بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ تنہائی اداس بھی ہو سکتی ہے واللہ اعلم!!!

باقی اشعار پر بات ابھی باقی ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
چند تاثرات...2

وہ، کہ محوِ نشاطِ محفل ھے
اور مرے آس پاس تنہائي

تضادِ طرفین کی خوبصورت مثال ہے۔ جو ہوا،اچھا یا برا، اس کا انجام دلکش پیرائے میں بیان کر دیا گیا ہے۔ واضح کرتا چلوں کہ یہاں محذوف کا ایک اپنا لطف ہے۔ قاری شعر پڑھ کر سوچ میں پڑھ جاتا ہے،کہ ایسا کیا ہوا جس کا انجام یہ دونوں مصرعے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز صاحب کہ مجھ کم مائہ کو اس قابل سمجھا- پہلے دو باتیں پھر غزل کے بارے میں گزارش کروں گا - شاکر صاحب نے بہت اچھا سلسلہ شروع کیا اور تختہ ِ مشق کے لیے اپنی غزل پیش کی - اصل میں یہ روائت حلقہ اربابِ ذوق، لاہور سے جڑی ہوی ہے - یہ حلقہ آغاز پاکستان سے ہی قائم ہے اور پاکستان کے سب ہی ادیب اس حلقے کے رکن ہیں اور اسی طرح کی تنقیدی محفل ہر ہفتے منعقد کی جاتی ہے -

جہاں تک سوال غزل میں موضوعات کے تنوّع کا ہے - اس سلسلے میں ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ جوش ملیح آبادی اور فراق گھورکھپوری کے درمیان غزل اور نظم کے بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا - جوش، نظم کے شدید حامی تھے اور فراق غزل کے- ایک دن جوش نے کہا کہ فلاں جگہ مجھے ملنا اور ہم اس موضوع پر گفتگو کریں گے -
جوش جب فراق سے ملنے پہنچے تو کہنے لگے - بھئی فراق! ملکہ الزبتھ کو جوتی بہت خوبصورت ہے - بازار میں چاول کے دام بہت زیادہ ہو گئے ہیں - شہر میں نظم و نسق نہیں پایا جاتا- اور تم نے آج لباس بہت اچھا پہنا ہے - فراق کہنے لگے یہ کیا بے پر کی ہانک رہے ہو، تو جوش کہنے لگے بے پر کی نہیں ہانک رہا غزل کہہ رہا ہوں۔

:) تو میرے خیال میں غزل میں موضوعات کا تنوّع تو ہوتا ہی ہے -

باقی شاکر صاحب کی نظم خوبصورت بہت ہے لیکن ندرتِ خیال کی کمی ہے - فیض میں خوبصورتی بھی ہے اور ندرتِ خیال بھی - علیم سادہ ہیں لیکن خیال بہت اچھوتا ہوتا ہے - ناصر صرف سادہ ہیں کہیں کہیں خوبصورتی بھی دکھائی دے جاتی ہے -
مجھے تو یہی کہنا تھا - شکریہ!
 

نوید صادق

محفلین
چند تاثرات...3

ایک ایک کر کے شعروں پر اس لئے بات کر رہا تھا کہ شاید دوسرے ارکان بھی متذکرہ شعر پر بحث میں شامل ہو جائیں، اور اختلاف یا اتفاق سامنے آ جائے۔ ایسا نہیں ہو سکا، چلئے بات ختم کرتے ہیں۔
اب يہي چند اپنے ساتھي ہيں
آرزو، درد، ياس، تنہائي
---آرزو، درد، یاس، تنہائی۔۔۔۔ زمانہ حال میں چار ساتھی گنوائے گئے ہیں۔پہلی نظر میں آرزو اور یاس کا ایک ساتھ ہونا کَھلتا ہے۔ لیکن غور کیجئے کہ انسان پر ایسا وقت آتا ہے جب کبھی آرزو ہوتی ہے اور کبھی نا امیدی، یہ دھوپ میں بارش جیسی ملی جلی کیفیت جی کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔

وحشتِ دل بڑھائے ديتي ہے
آرزو ناشناس تنہائي

بہت اچھا تو نہیں البتہ اچھا شعر ہے۔ "آرزو نا شناس" کا جواب نہیں۔

غالبا" ڈاکٹر عبداللہ نے کہیں لکھا ہے کہ نامرادیوں کے مرگھٹ پر تخلیق کے پھول کھلتے ہیں۔ شاعر نے تنہائی کے زور پر جو پھول کھلائے ہیں وہ اتنے رنگارنگ اور دلکش تو نہیں ہیں کہ انہیں دور سے پہچان کر سب سے نمایاں قرار دے دیا جائے لیکن ایک بات ہے کہ یہ پھول قابلِ توجہ ضرور ہیں۔

کیا کہتے ہیں آپ اعجاز بھائی!!!!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک ایک کر کے شعروں پر اس لئے بات کر رہا تھا کہ شاید دوسرے ارکان بھی متذکرہ شعر پر بحث میں شامل ہو جائیں، اور اختلاف یا اتفاق سامنے آ جائے۔ ایسا نہیں ہو سکا، چلئے بات ختم کرتے ہیں۔
اب يہي چند اپنے ساتھي ہيں
آرزو، درد، ياس، تنہائي
---آرزو، درد، یاس، تنہائی۔۔۔۔ زمانہ حال میں چار ساتھی گنوائے گئے ہیں۔پہلی نظر میں آرزو اور یاس کا ایک ساتھ ہونا کَھلتا ہے۔ لیکن غور کیجئے کہ انسان پر ایسا وقت آتا ہے جب کبھی آرزو ہوتی ہے اور کبھی نا امیدی، یہ دھوپ میں بارش جیسی ملی جلی کیفیت جی کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔

وحشتِ دل بڑھائے ديتي ہے
آرزو ناشناس تنہائي

بہت اچھا تو نہیں البتہ اچھا شعر ہے۔ "آرزو نا شناس" کا جواب نہیں۔

غالبا" ڈاکٹر عبداللہ نے کہیں لکھا ہے کہ نامرادیوں کے مرگھٹ پر تخلیق کے پھول کھلتے ہیں۔ شاعر نے تنہائی کے زور پر جو پھول کھلائے ہیں وہ اتنے رنگارنگ اور دلکش تو نہیں ہیں کہ انہیں دور سے پہچان کر سب سے نمایاں قرار دے دیا جائے لیکن ایک بات ہے کہ یہ پھول قابلِ توجہ ضرور ہیں۔

کیا کہتے ہیں آپ اعجاز بھائی!!!!


جناب ایک دفعہ پھر شاکر صاحب کا شکریہ کہ جن کی وجہ سے ہم کو اتنا کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے
نوید بھائی کے تبصرے نے اس محفل میں جان ڈال دی ہے نوید بھائی بہت خوب آپ نے بہت اچھے انداز سے تنقید کی ہے جس سے ہم کو بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے بہت شکریہ اور جناب
اور جناب وارث بھائی آپ کہاں ہے آپ بھی اپنی رائے دے کر ہم کو اپنے علم سے فیص یاب کرے اور پھر اس کے بعد اختر صاحب بھی کچھ لکھے شکریہ
 
میں نے خموشی ہی کو ترجیح دی ہے کیونکہ اہلِ علم کی محفل میں ہم جیسے نالائق اگر منہ بند کیے بیٹھے رہیں تو پھر بھی لاج رہ جاتی ہے۔
میں نے جب پہلی بار شاکر القادری صاحب کی مذکورہ غزل پڑھی تو مجھے اس کی سادگی میں بھی حسن محسوس ہوا۔ قافیہ اور ردیف پسند آیا۔ پہلا اور آخری شعر کچھ خاص نہیں، تاہم دوسرا شعر اچھا ہے اور تیسرا شعر بہت اچھا۔
اب یہی چند اپنے ساتھی ہیں
آرزو، درد، یاس، تنہائی
غزل کے پہلے مصرعہ۔۔۔۔
ہر طرف ہے اداس تنہائی
سے غزل کی ابتداء اچھی ہوئی ہے لیکن دوسرا مصرعہ مجموعی طور پر کوئی خاص تاثر نہیں دیتا۔
بسسسس!
 

نوید صادق

محفلین
دوستو!
اس طرح کیسے چلے گا؟
تنقیدی محفل میں زیادہ احباب کی آراء متوقع تھیں۔
کہاں‌ ہیں ہمارے باقی دوست؟؟؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
آئیں وارث اور فاتح کم از کم۔ با ذوق بھی با ذوق ہیں۔ راج بھی ادب کی اچھی فہم رکھتے ہیں۔
یا ابھی سے مجھے دریاں سمیٹنی پڑیں گی؟؟
 

امن ایمان

محفلین
شاکر صاحب یہ موضوع بہت دلچسپ ہے۔۔ لیکن میں کچھ لکھنے کی اہل نہیں ہوں۔۔۔صرف پڑھا کروں گی۔۔آپ کی غزل اچھی ہے۔۔لیکن مجھے ذاتی طور پر نظم اچھی لگتی ہے۔۔غزل ایک تو میری سمجھ میں نہیں آتی اور پھر دیا لیا گیا کے چکر میں انسان جو کہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنا دکھ کاغذ پر اتارنا چاہتا ہے۔۔قافیہ ردیف میں الجھ کر اور پریشان ہوجاتا ہے۔۔( یہ میرا ذاتی تجربہ ہے)

باقی آپ کی غزل کے فیصلہ کا انتظار رہے گا۔ : )
 

نوید صادق

محفلین
ارے ارے!! یہ تو کہانی کا رخ بدل رہا ہے، غزل مخالف جوش کے بعد ایک بار پھر!!
خیر پسند اپنی اپنی!!!
آپ نے شاکر صاحب کی غزل پر رائے دی اور رائے میں تو ایک جملہ بھی بہت ہوتا ہے۔
 
Top