کچھ اشعار میں ’پیچھےُ ردیف کا درست استعمال نہیں لگ رہا ہے
بھاگ اے دل سراب کے پیچھے
عشق خانہ خراب کے پیچھے
÷÷درست
ذرا سی تبدیلی اس میں بھلی لگی
دل چلا ہے سراب کے پیچھے
عشق خانہ خراب کے پیچھے
عکس یوں آئنے میں دکھتا ہے
قید جیسے ہو آب کے پیچھے
۔۔ رواں تو ہے، لیکن ’دکھتا‘ فصیح نہیں
عکس یوں لگ رہا ہے آئینے میں
یا
یوں نظر آئے عکس آئینے میں
آب کے پیچھے قید ہونا البتہ درست نہیں، آب میں قید تو ہو سکتا ہے،
آئنہ کو اُستاد محترم دیکھا جائے تو پانی جیسا لگتا ہے اُسی مناسبت سے کہا، یوں دیکھ لیجئے
عکس تھا آئنے میں آشفتہ
قید رکھا ہو آب کے پیچھے
کھو دیا بعد میں کہیں اُس کو
آخر شب تھا خواب کے پیچھے
÷÷درست، اگرچہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ شاعر خود پیچھے تھا خواب کے۔
یوں کہا جائے تو جناب
کیا عجب ہے؟ اُسے بچھڑنا تھا
آخر شب تھا خواب کے پیچھے
گھورتا ہے مجھے کوئی اکثر
پر چھپا ہے نقاب کے پیچھے
÷÷درست، لیکن کیا کہنا چاہ رہے ہو؟
یوں کہوں تو
کچھ بُرا ہو تو اس تجسس کا
کیا چھپا ہے نقاب کے پیچھے
نیکیاں کم پڑیں تو کیا ہو گا؟
سوچ یوم حساب کے پیچھے
یہاں تو محل ’آگے‘ کا ہے!!!
یوں دیکھ لیجئے جناب
میں نے جب کہہ دیا محبت ہے
کیوں پڑے ہو حساب کے پیچھے
پھر محبت کو میں نے جانے دیا
کون جاتا عذاب کے پیچھے
÷÷مفہوم؟
محبت کو ایک عذاب سے تعبیر کیا جناب
وہ بھلا یوں ہی پی گیا اظہر؟
کچھ وجہ تھی شراب کے پیچھے
÷÷وجہ کا تلفظ؟ ہ پر جزم ہے۔ یہاں سبب کر دو۔
جی بہت بہتر
وہ بھلا یوں ہی پی گیا اظہر؟
کچھ سبب تھا شراب کے پیچھے
گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی
دل چلا ہے سراب کے پیچھے
عشق خانہ خراب کے پیچھے
عکس تھا آئنے میں آشفتہ
قید رکھا ہو آب کے پیچھے
کیا عجب ہے؟ اُسے بچھڑنا تھا
آخر شب تھا خواب کے پیچھے
کچھ بُرا ہو تو اس تجسس کا
کیا چھپا ہے نقاب کے پیچھے
میں نے جب کہہ دیا محبت ہے
کیوں پڑے ہو حساب کے پیچھے
پھر محبت کو میں نے جانے دیا
کون جاتا عذاب کے پیچھے
وہ بھلا یوں ہی پی گیا اظہر؟
کچھ سبب تھا شراب کے پیچھے