تنقید و اصلاح کی غرض سے "عنوان محبت مری پہچان ہو آسی"

غزل

عنوانِ محبت مری پہچان ہو آسی
اور وہ مری پہچان کا عنوان ہو آسی

وہ آتشِ دوراں ہو کہ ہو آتشِ جاناں
تم جلنے جلانے کا ہی سامان ہو آسی

دے ڈالے اسے ربطِ مصائب کے حوالے
تم عشق کے آداب سے انجان ہو آسی

جب سے نظر آئی ہے قبا بند سے عاری
اس وقت سے تم چاک گریبان ہو آسی

بس ایک تمنا ہے کہ ہمسائے میں میرے
رحمت کدہِ بادہ فروشان ہو آسی

میخانے کے باہر سے چلے جاتے ہو پیاسے!
بنتے ہو یا پھر صاحبِ ایمان ہو آسی

نظروں کی حقارت کو سمجھتے ہو محبت
نادان ہو، نادان ہو، نادان ہو آسی

محمد ارتضیٰ الآسی
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب ارتضیٰ۔ فنی اسقام تو ایسے خاص نہیں ہیں۔ ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔ بس مجھے دوسرا شعر معنی خیز نہیں لگا۔ تخاطب اپنے آپ سے ہے یا محبوب سے؟ مطلب شاید یوں ہے کہ جلنے کے لئے آسی ہی موجود ہے (جلانے کے لئے نہیں)، وہ چاہے آتشِ غمِ دوراں ہو یا آتشِ غمِ جاناں۔ غم جاناں اور غم دوراں تو سنا ہے، آتشِ دوراں اور جاناں کا محاورہ نہیں ہے۔ لیکن ’جلانے‘ پر مجھے اعتراض زیادہ ہے۔ میرے خیال میں آتشِ دوراں کو قبول کرتے ہوئے محض یہ تبدیلی کر دی جائے تو بہتر ہو۔
ایندھن ہو، تمہی جلنے کا سامان ہو آسی

میخانے کے باہر سے چلے جاتے ہو پیاسے!​
بنتے ہو یا پھر صاحبِ ایمان ہو آسی​
اس میں دوسرے مصرع میں ’یا پھر‘ میں الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔ اگر یوں کر دیں تو​
کچھ بنتے ہو یا صاحب ایمان۔۔۔۔​
یا​
یوں بنتے ہو یا صا۔۔۔۔​
 
بہت خوب ارتضیٰ۔ فنی اسقام تو ایسے خاص نہیں ہیں۔ ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔
بہت شکریہ! ہم اس تعریف کے در ہر صورت قابل و لائق نہیں! آپ کی بندہ نوازی ہے تو سہی!
بس مجھے دوسرا شعر معنی خیز نہیں لگا۔ تخاطب اپنے آپ سے ہے یا محبوب سے؟ مطلب شاید یوں ہے کہ جلنے کے لئے آسی ہی موجود ہے (جلانے کے لئے نہیں)، وہ چاہے آتشِ غمِ دوراں ہو یا آتشِ غمِ جاناں۔ غم جاناں اور غم دوراں تو سنا ہے، آتشِ دوراں اور جاناں کا محاورہ نہیں ہے۔ لیکن ’جلانے‘ پر مجھے اعتراض زیادہ ہے۔ میرے خیال میں آتشِ دوراں کو قبول کرتے ہوئے محض یہ تبدیلی کر دی جائے تو بہتر ہو۔
ایندھن ہو، تمہی جلنے کا سامان ہو آسی
آپ کا تجویز کردہ مصرع سر آنکھوں پر! لیکن، جلنا جلانا ، روٹی شوٹی کا سا استعمال ہے، باقی آپ صاحب علم ہیں!
میخانے کے باہر سے چلے جاتے ہو پیاسے!​
بنتے ہو یا پھر صاحبِ ایمان ہو آسی​
اس میں دوسرے مصرع میں ’یا پھر‘ میں الف کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔ اگر یوں کر دیں تو​
کچھ بنتے ہو یا صاحب ایمان۔۔۔ ۔​
یا​
یوں بنتے ہو یا صا۔۔۔ ۔​
اسقاط ہماری نظر میں کہیں بھی ہو، محمل ہوتا ہے، پر یہاں "بنتے ہو یا پھر صاحب ایمان ہو آسی" سے زیادہ رواں مصرع ترتیب نہیں پا رہا۔
در ہر صورت آپ کی اصلاح گری کا ممنون ہوں!
 
Top