نور وجدان
لائبریرین
آگہی کا جنون
اسکی آنکھ ایک دھماکے سے کھلی تھی۔شاید کوئی اور نیا مہمان آیا تھا ۔ کمرہ گو کہ ٹھنڈا تھا مگر غیرمعمولی شور اسکے لیے نیا تھا ۔ اس نے کبھی سو چا تھا کہ وہ اس پاگل خانے میں سسکیاں لیتی زندگی کی آخری سانسوں کو گنے گی۔ابھی سوچ کے در مزید وا ہوتےاک آواز نے توجہ کھینچ لی۔ وہ عورت کی سسکتی بلکتی آواز تھی ۔اس آواز سے اسکی رگوں میں ارتعاش سا چھا گیا۔
''میں پاگل نہیں ہوں، نہیں ہوں پاگل!۔۔۔۔۔۔۔ ''
اسکی چیخیں وحشتناک تھیں جس نے اس کی سوچ کو نئی وادیوں میں دھکیل دیا۔ اسکی سسکیاں بھی ویسی ہی تھیں جو کبھی اسکی تھیں ۔۔
'' میرا قصور تو فہیم ہونا تھا مگراسکا قصور۔۔۔ ۔؟
پھر اسی آواز نے توجہ مبذول کروالی اور وہ ماضی کے گمشدہ اوراق سے پردہ ہٹا رہی تھی۔ اسکی نمیدہ آنکھوں سے جاری آنسوؤں کی شدت میں اسکی آواز سننے سے اور بڑھ گئ۔ وہ ایک مقفل کمرے میں تھی۔ اسکو دیکھ نہیں سکتی تھی مگر اسکی آوازیں اس کے اندر ہلچل پیدا کر رہی تھیں ۔۔۔ اسے دیکھنے کا اختیار بھی ہوتا تو تب بھی اس کو نہیں دیکھ پاتی ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب وہ آزاد پنچھی سے صیاد کی قید میں آگئ ۔۔صیاد بھی کیا تھا اک پاگل خانہ تھا جس نے اس کے تمام پر کاٹ ڈالے تھے۔اس کی سوچوں کی یلغار کو گونجتی ہوئی کرخت آواز نے ختم کیا
یہاں پر آنا والا ہر کوئی یہی کہتا ہے؛
'' میں پاگل نہیں۔ میں پاگل نہیں ہو ں''
اک گرج دار مردانہ آواز نے ہنستے پھر قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔اور اسکو مزید سوچوں کے گرداب میں گھیر لیا۔ وہ اس پاگل خانے میں اس سوچ کہ سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی ۔
'' کیا میں بھی پاگل ہوں۔ اگر پاگل ہوں تو سوچ کیوں رہی، ماضی کیا پاگلوں کو یاد رہتا ہے؟''
وائیٹ کلر کے ماربلز ،نامور ڈاکڑوں کی دیواروں پر لٹکی تصاویر، برآمدے کے سامنے چھوٹے چھوٹے باغیچے جن کے راستے بالائی منزلوں سے دیکھنے والوں کو دلکش نظارہ دے رہے تھے اور یہی سبزہ شاید پاگل خانے میں پاگل ہونے سے بچاتا تھا۔اور وقت کے پیچ و تاپ نے گرچہ ماضی کے در وا رکھے تھے اور اسکے ساتھ ساتھ زندگی کا وہ شعور دیا کہ شاید وہ کبھی دوبارہ حاصل نہ کر سکتی ۔یہ زندگی تو تھی جس نے ہنستے کھلکھلاتے لہکتے دنوں کو آگ و خون میں بدل ڈال تھا
جرم کو تحریر کرنا بڑا گراں ہوتا ہے اگر وہ جرم محبت کا ہو۔ اور تقدیر کا ایسا کھیل کھیلتی ہے جو آپ کو مجرم بنا کر ہی چھوڑتا ہے ۔۔وہ چل رہی تھی اور سوچ رہی تھی ۔ جانے کیوں دو چہر ےا سکے سامنے آجاتے ۔جن کو فراموش نہیں کر پائی تھی ایک اس کے نانا جان تھے اور دوسرا اسکی محبت کا تھا ۔۔
محمد یعقوب آسی ناصر علی مرزا صائمہ شاہ سید زبیر قیصرانی ابن سعید سلمان حمید سید فصیح احمد عثمان ابن رضا نایاب
آپ ابتدائے میں جو خامیاں مہربانی کرکے ان کو بتا دیں ۔۔۔ تاکہ آگے ٹھیک لکھا جائے۔۔یہ افسانے کا پہلا پیرائیہ ہے ۔۔ میں اصلاح کروانا چاہ رہی
اسکی آنکھ ایک دھماکے سے کھلی تھی۔شاید کوئی اور نیا مہمان آیا تھا ۔ کمرہ گو کہ ٹھنڈا تھا مگر غیرمعمولی شور اسکے لیے نیا تھا ۔ اس نے کبھی سو چا تھا کہ وہ اس پاگل خانے میں سسکیاں لیتی زندگی کی آخری سانسوں کو گنے گی۔ابھی سوچ کے در مزید وا ہوتےاک آواز نے توجہ کھینچ لی۔ وہ عورت کی سسکتی بلکتی آواز تھی ۔اس آواز سے اسکی رگوں میں ارتعاش سا چھا گیا۔
''میں پاگل نہیں ہوں، نہیں ہوں پاگل!۔۔۔۔۔۔۔ ''
اسکی چیخیں وحشتناک تھیں جس نے اس کی سوچ کو نئی وادیوں میں دھکیل دیا۔ اسکی سسکیاں بھی ویسی ہی تھیں جو کبھی اسکی تھیں ۔۔
'' میرا قصور تو فہیم ہونا تھا مگراسکا قصور۔۔۔ ۔؟
پھر اسی آواز نے توجہ مبذول کروالی اور وہ ماضی کے گمشدہ اوراق سے پردہ ہٹا رہی تھی۔ اسکی نمیدہ آنکھوں سے جاری آنسوؤں کی شدت میں اسکی آواز سننے سے اور بڑھ گئ۔ وہ ایک مقفل کمرے میں تھی۔ اسکو دیکھ نہیں سکتی تھی مگر اسکی آوازیں اس کے اندر ہلچل پیدا کر رہی تھیں ۔۔۔ اسے دیکھنے کا اختیار بھی ہوتا تو تب بھی اس کو نہیں دیکھ پاتی ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب وہ آزاد پنچھی سے صیاد کی قید میں آگئ ۔۔صیاد بھی کیا تھا اک پاگل خانہ تھا جس نے اس کے تمام پر کاٹ ڈالے تھے۔اس کی سوچوں کی یلغار کو گونجتی ہوئی کرخت آواز نے ختم کیا
یہاں پر آنا والا ہر کوئی یہی کہتا ہے؛
'' میں پاگل نہیں۔ میں پاگل نہیں ہو ں''
اک گرج دار مردانہ آواز نے ہنستے پھر قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔اور اسکو مزید سوچوں کے گرداب میں گھیر لیا۔ وہ اس پاگل خانے میں اس سوچ کہ سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی ۔
'' کیا میں بھی پاگل ہوں۔ اگر پاگل ہوں تو سوچ کیوں رہی، ماضی کیا پاگلوں کو یاد رہتا ہے؟''
وائیٹ کلر کے ماربلز ،نامور ڈاکڑوں کی دیواروں پر لٹکی تصاویر، برآمدے کے سامنے چھوٹے چھوٹے باغیچے جن کے راستے بالائی منزلوں سے دیکھنے والوں کو دلکش نظارہ دے رہے تھے اور یہی سبزہ شاید پاگل خانے میں پاگل ہونے سے بچاتا تھا۔اور وقت کے پیچ و تاپ نے گرچہ ماضی کے در وا رکھے تھے اور اسکے ساتھ ساتھ زندگی کا وہ شعور دیا کہ شاید وہ کبھی دوبارہ حاصل نہ کر سکتی ۔یہ زندگی تو تھی جس نے ہنستے کھلکھلاتے لہکتے دنوں کو آگ و خون میں بدل ڈال تھا
جرم کو تحریر کرنا بڑا گراں ہوتا ہے اگر وہ جرم محبت کا ہو۔ اور تقدیر کا ایسا کھیل کھیلتی ہے جو آپ کو مجرم بنا کر ہی چھوڑتا ہے ۔۔وہ چل رہی تھی اور سوچ رہی تھی ۔ جانے کیوں دو چہر ےا سکے سامنے آجاتے ۔جن کو فراموش نہیں کر پائی تھی ایک اس کے نانا جان تھے اور دوسرا اسکی محبت کا تھا ۔۔
محمد یعقوب آسی ناصر علی مرزا صائمہ شاہ سید زبیر قیصرانی ابن سعید سلمان حمید سید فصیح احمد عثمان ابن رضا نایاب
آپ ابتدائے میں جو خامیاں مہربانی کرکے ان کو بتا دیں ۔۔۔ تاکہ آگے ٹھیک لکھا جائے۔۔یہ افسانے کا پہلا پیرائیہ ہے ۔۔ میں اصلاح کروانا چاہ رہی
آخری تدوین: