تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں ::: محمد علی جوہر

فرقان احمد

محفلین
تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں!

ہر آن تسلی ہے، ہر لحظہ تشفی ہے ۔۔۔!
ہر وقت ہے دل جوئی، ہر دم ہیں مداراتیں

کوثر کے تقاضے ہیں، تسنیم کے وعدے ہیں
ہر روز یہی چرچے، ہر رات یہی باتیں !!!

معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت
اک فاسق و فاجر میں ۔۔۔ اور ایسی کراماتیں!

بیٹھا ہوا توبہ کی تو خیر منایا کر ۔۔۔!!!
ٹلتی نہیں یوں جوہرؔ اس دیس کی برساتیں​
 

محمد وارث

لائبریرین
یعنی مولانا محمد علی جوہر تحریکِ خلافت والے؟
یہ اُس زمانے کا اعجاز تھا کہ باقاعدہ شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی، ہر شعبے کے اکابر اچھے خاصے شاعر ہوتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی ایک غزل کا شعر تو شہرت و قبولیتِ تامہ کے مقام پر ہے:

قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 

فاخر رضا

محفلین
اس وقت عربی فارسی تو شاید گھر میں پڑھائی جاتی تھی. اردو بھی زبردست ہوتی تھی. ماحول بھی ادبی ہوتا تھا
بہت سے شعبہ جات میں وہ لوگ ہم سے آگے تھے
جیسا کہ وارث بھائی نے لکھا ہے، وہ عام لوگ بھی اچھے خاصے شعر کہ لیتے تھے. میرے دادا اور والد کو سینکڑوں نہیں ہزاروں شعر یاد ہونگے
اس کے بعد ذوق تو بن ہی جاتا ہے
 
Top