تنہا کہیں بیٹھا ہوا پر تول رہا ہے

عظیم

محفلین
غزل


تنہا کہیں بیٹھا ہوا پر تول رہا ہے
اک ایسا پرندہ ہے کہ جانا نہیں کیا ہے

ڈر ہے کہ عبادت ہے کہ مطلب ہے کوئی اور
ضد ہے کہ اکڑ ہے کہ عداوت ہے وفا ہے

جب سامنے کچھ ہے ہی نہیں حیرتی میرے
دن رات یوں آنکھوں سے تری دیکھتا کیا ہے

بت بن کے ہی پھرتا ہے وہ رہ گیر بچارہ
پیچھے کی خبر ہے نہ کچھ آگے کا پتا ہے

ہے عشق تو پھر چین سے پھرنا یہاں کیسا
دیوانے اگر ہو تو گریبان کا کیا ہے

کیا دکھ کبھی پہنچائے گا وہ چاہنے والا
جس نے تجھے عرفان محبت کا دیا ہے

مل جائے گا دنیا میں تو گزرے گی بہت خوب
ہاں خوب تو اب بھی ہے بہت خوب کہا ہے


*****
 
Top