نبیل
تکنیکی معاون
آج بی بی سی اردو پر نظریۂ اضافیت کی تصدیق ہوگئی پر میں نے تجسس سے نگاہ ڈالی۔ یہ بات میرے لیے دلچسپی کا باعث ہے کہ اگرچہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت اور توانائی اور کمیت کی مساوات (E=mc2) کو نہ صرف درست مانا جاتا ہے بلکہ اسے طبیعیات کے میدان میں استعمال بھی کیا جاتا ہے، لیکن اس نظریہ کی باقاعدہ تصدیق 20 نومبر 2008 کو سپر کمپیوٹرز کے ذریعے کی گئی۔ فرانس کے لارنٹ لیلوک نظریاتی طبیعیات کے مرکز میں جرمنی، فرانس اور ہنگری کے طبیعیات دانوں نے طاقتور ترین سپر کمپیوٹرز کا استعمال کرکے نیوٹرونز اور پروٹانز کی کمیت کا اندازہ لگایا۔ ذراتی طبیعیات (Particle Physics) کے ماڈل کے مطابق پروٹان اور نیوٹرون چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں کوارک (Quark) کہا جاتا ہے، جبکہ کوارک آپس میں ایک صفر کمیت والے ذرہ گلوآن (Gluon) کے تبادلے کے ذریعے کشش یا مخالف قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اب تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا تھا کہ گلوآن کی کمیت صفر ہوتی ہے اور کوارک کی کمیت پروٹان اور نیوٹرون کی کمیت کا صرف 95 فیصد ہوتے ہیں تو باقی 95 فیصد کمیت کہاں سے آتی ہے۔ اس سوال کا جواب مذکورہ بالا تجربہ کے نتائج سے یہی ملا ہے کہ باقی کمیت کوارک اور گلوآن ذرات کی حرکی توانائی کا نتیجہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں کمیت اور توانائی سکے کے دو رخ ہیں۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خبر میں ذیل کا دلچسپ اقتباس بھی موجود ہے:
لاہور کے علاقے گلبرگ میں کتابوں کی ایک دکان پر آج کل سائنس کے طالب علموں اور پروفیسروں کی غیر معمولی بھیڑ ہے کیونکہ یہاں آئین سٹائین کے مشہور زمانہ نظریۂ اضافیت کا اصل مسودہ تصویری شکل میں موجود ہے۔
بڑی تقطیع کی یہ رجسٹر نما کتاب اتنی مہنگی ہے کہ کوئی طالب علم یا استاد ذاتی طور پر اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لائبریریوں کے منتظمین شاید اس کتاب کی اہمیت و افادیت ہی سے واقف نہیں ہیں اس لئے توقع ہے کہ عرصہ دراز تک یہ کتاب شائقین کی زیارت کےلئے اس دکان میں موجود رہے گی۔
1905 کی سپیشل تھیوری کا یہ مسودہ آئین سٹائین کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور جرمن زبان میں ہے، لیکن ہر صفحے کے مقابل اسکا انگریزی ترجمہ بھی پرنٹ کر دیا گیا ہے۔ آئین سٹائین نے عبارت کے جِن حِصوں پر بعد میں قلم پھیر دیا تھا اُن پر خطِ تنسیخ اس طرح سے پھیرا گیا ہے کہ اصل عبارت صاف پڑھی جاسکے اور محققین اندازہ کر سکیں کہ عظیم ماہرِ طبیعات نے اپنے کِن بیانات کو بعد میں مسترد کر دیا تھا یا اُن میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی تھی۔
ایک سو تین برس کے بعد اچانک اِس تھیوری میں لوگوں کی دلچسپی پھر سے کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ - یہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔
مکمل خبر پڑھیں۔۔
ایک بلاگ پوسٹ کے مطابق نظریہ اضافت کی سپرکمپیوٹرز کے ذریعے تصدیق کرکے سائنسدانوں نے کوئی خاص کام بھی نہیں کیا۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خبر میں ذیل کا دلچسپ اقتباس بھی موجود ہے:
لاہور کے علاقے گلبرگ میں کتابوں کی ایک دکان پر آج کل سائنس کے طالب علموں اور پروفیسروں کی غیر معمولی بھیڑ ہے کیونکہ یہاں آئین سٹائین کے مشہور زمانہ نظریۂ اضافیت کا اصل مسودہ تصویری شکل میں موجود ہے۔
بڑی تقطیع کی یہ رجسٹر نما کتاب اتنی مہنگی ہے کہ کوئی طالب علم یا استاد ذاتی طور پر اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ لائبریریوں کے منتظمین شاید اس کتاب کی اہمیت و افادیت ہی سے واقف نہیں ہیں اس لئے توقع ہے کہ عرصہ دراز تک یہ کتاب شائقین کی زیارت کےلئے اس دکان میں موجود رہے گی۔
1905 کی سپیشل تھیوری کا یہ مسودہ آئین سٹائین کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور جرمن زبان میں ہے، لیکن ہر صفحے کے مقابل اسکا انگریزی ترجمہ بھی پرنٹ کر دیا گیا ہے۔ آئین سٹائین نے عبارت کے جِن حِصوں پر بعد میں قلم پھیر دیا تھا اُن پر خطِ تنسیخ اس طرح سے پھیرا گیا ہے کہ اصل عبارت صاف پڑھی جاسکے اور محققین اندازہ کر سکیں کہ عظیم ماہرِ طبیعات نے اپنے کِن بیانات کو بعد میں مسترد کر دیا تھا یا اُن میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی تھی۔
ایک سو تین برس کے بعد اچانک اِس تھیوری میں لوگوں کی دلچسپی پھر سے کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ - یہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔
مکمل خبر پڑھیں۔۔
ایک بلاگ پوسٹ کے مطابق نظریہ اضافت کی سپرکمپیوٹرز کے ذریعے تصدیق کرکے سائنسدانوں نے کوئی خاص کام بھی نہیں کیا۔