فہمیدہ۔ "کتنا ہی عفو و درگزر کیوں نہ ہو، مگر اپنے گناہوں کی بھی کچھ انتہا ہے۔ ماں باپ کو جیسی اولاد کی مامتا ہوتی ہے، ظاہر۔ مگر دیکھو کلیم کی حرکتوں سے میرا تمھارا دونوں کا جی آخر کھٹا ہو ہی گیا، کتنی برداشت، کہاں تک چشم پوشی؟"
نصوح۔ "خدا کی پاکیزہ اور کامل صفتوں کو آدمی کی ناقص و ناتمام عادتوں پر قیاس کرنا بڑی غلطی ہے۔ تمام دنیا کے ماں باپوں کو جو اولاد کی محبت ہے، وہ ایک کرشمہ ہے اس عنایتِ بے غایت اور لطف و شفقتِ بے منت کا جو خداوند کریم ہر حال میں اپنے بندوں پر فرماتا ہے۔ گناہ اور نافرمانی انسان کے خمیر میں ہے، اگر بندوں کے گناہ پر اسکی نطر ہوتی تو ہر متنفس کشتنی اور گردن زنی تھا، دنیا کاہے کو بستی، لیکن اللہ رے در گزر، گناہ بھی ہو رہے ہیں اور رزق کا راتب جو سرکار سے بندھا ہوا ہے موقوف ہونا کیسا، کبھی ناغہ بھی تو نہیں ہوتا۔ سانس لینے کو ہوا تیار، پینے کا پانی موجود، آرام کرنے کو رات، کام کرنے کو دن، رہنے کو مکان، وہی چاند، وہی سورج، وہی آسمان، وہی زمین، وہی برسات، وہی فواکہہ و نباتات۔ جملہ اعضاء، ہاتھ پاؤں، آنکھ کان اپنی اپنی خدمت پر مستعد، نہ ماندگی، نہ کسل، نہ تکان۔ پس جبکہ خدا ایسے ایسے گناہ اور ایسی ایسی نافرمانیوں پر نیکی سے نہیں چوکتا تو یہ بات اسکی ذات ستودہ صفات سے بہت ہی مستبعد معلوم ہوتی ہے کہ اسکی درگاہ میں معذرت کی جائے اور نہ بخشے، توبہ کی جائے اور قبول نہ کرے۔"
اسی وقت میاں بی بی دونوں نے دعا کے واسطے ہاتھ پھیلا دیے اور گڑگڑا گڑگڑا کر اپنے اور ایک دوسرے کے گناہوں کی مغفرت چاہی۔ اسکے بعد فہمیدہ مسرت و اطمینان کی سی باتیں کرنے لگی مگر نصوح کی افسردہ دلی بدستور باقی تھی۔ تب فہمیدہ نے پوچھا کہ جب توبہ کرنے سے گناہوں کا معاف ہو جانا یقینی ہے اور آئندہ کے واسطے ہم عہد کرتے ہیں کہ پھر ایسا نہ کرینگے تو کیا وجہ ہے کہ تم اداس ہو؟
نصوح۔ "ایمان خوف و رجا کا نام ہے، توبہ کا قبول کیا جانا کچھ ہمارا استحقاق نہیں، خدائے تعالٰی قبول کرے تو اسکی عنایت اور قبول نہ کرے تو ہم کو نہ گلہ ہے نہ محلِ شکایت۔ آئندہ کے عہد پر کیا بھروسا ہو سکتا ہے، انسان مخلوق ضعیف البنیان ہے، غفلت اسکی طینت ہے اور نافرمانی اسکی طبیعت۔ خدا ہی توفیق خیر دے تو عہد کا نباہ اور وعدے کا ایفا ممکن ہے، ورنہ آدمی سے کیا ہوسکتا ہے۔
کیا فائدہ فکرِ بیش و کم سے ہوگا
ہم کیا ہیں کہ کوئی کام ہم سے ہوگا
جو کچھ کہ ہوا، ہوا کرم سے تیرے
جو کچھ کہ ہوگا، تیرے کرم سے ہوگا
اور میری افسردگی کی ایک وجہ اور ہے کہ اسطرح اس سے میرا قلب مطمئن نہیں ہوتا۔"
فہمیدہ۔ "وہ کیا؟"
نصوح۔ "وہ یہ ہے کہ میں تو بگڑا ہی تھا، میں نے ان بچوں کو کیسا غارت کیا، میری دیکھا دیکھی یہ بھی گئے گزرے ہوئے۔ تم دیکھتی ہو کہ چھوٹے بڑے سب ایک رنگ میں ہیں، کسی کو بھی دینداری سے مس ہے؟ کوئی بھی خدا پرستی کی رغبت رکھتا ہے؟ اور رغبت ہو تو کہاں سے، نہ تو گھر میں دین و مذہب کا چرچا کہ خیر دوسروں کو دیکھ کر آدمی نصیحت پکڑے، نہ کوئی کہنے اور سمجھانے والا کہ نیک و بد کا امتیاز سکھائے بلکہ حق تو یہ ہے کہ میں انکی تباہی اور خرابی میں ہر طرح کی مدد کرتا رہا۔ افسوس کہ میں نے انکے حق میں کانٹے بوئے، انکے ساتھ دشمنی کرتا رہا اور جانا کہ میں انکی بہتری چاہتا ہوں۔ میں جو غور کرتا ہوں تو کھیل کود کی جتنی عادتیں خراب ہیں، حقیقت میں انکا بانی اور معلم میں ہوں۔ میں نے انکا جی بہلانے کو کھلونے اور کنکوے لے دیے ہیں، میں انکو خوش کرنے کی نظر سے بازار ساتھ لے لے گیا۔ میں نے انکو دام دے دے کر بازاری سودوں کی چاٹ لگائی، مور پالنے میں نے انکو سکھائے، میلے تماشے انکو میں نے دکھائے، خوش وضعی، خوش لباسی کی لت انکو میں نے ڈلوائی۔ میں خود عیبِ مجسم کا ایک بڑا نمونہ انکے پیشِ نظر تھا، جو جو کچھ یہ کرتے ہیں، ماں کے پیٹ سے لیکر نہیں آئے، مجھ سے سیکھا، میری تقلید کی۔ میں ہر گز اس نعمت کے لائق نہ تھا کہ مجھ کو بچوں کا باپ بنایا جائے، میں کسی طرح اس عنایت کے شایاں نہ تھا کہ مجھ کو ایک بھرے کنبے کی سرداری ملے۔ یہ بھی میرے نصیبوں کی شامت اور انکی بدقسمتی تھی کہ انکی پرداخت مجھ کو سپرد ہوئی۔ افسوس، سنِ تمیز کو پہنچنے سے پہلے یہ یتیم کیوں نہ ہو گئے۔ شیر خوارگی ہی میں میرا سایۂ زبوں انکے سر پر سے کیوں نہیں اٹھا لیا گیا کہ دوسرا انکی تربیت کا متکفل ہوتا جو اپنی خدمت کو مجھ سے بدرجہا بہتر انجام دیتا۔ غضب ہے کہ یہ اشراف کے بچے کہلائیں اور پاجیوں کی عادتیں رکھیں۔ مجھ کو اب انکی شکل زہر معلوم ہوتی ہے، صورت، سیرت، ظاہر، باطن ایک سے ایک خراب، ایک سے ایک بد تر۔
ایک نابکار کو دیکھو کہ وہ ماش کے آٹے کی طرح ہر وقت اینٹھا ہی رہتا ہے، کبھی سینے پر نطر ہے کبھی بازؤں پر نگاہ ہے، آدم زاد ہو کر لقا کبوتر کا پٹھا بنا پھرتا ہے۔ اتنا اکڑتا ہے، اتنا اکڑتا ہے کہ گردن گدی میں جا لگی ہے۔ کپڑے ایسے چست کہ گویا بدن پر سیئے گئے ہیں۔ چھاتی پر انگرکھے کے بند ہیں، گھٹنوں تک پائجامے کی چوڑیاں ہیں، ایک دیوالی برابر ٹوپی ہے کہ کود بہ کود گری پڑتی ہے۔ دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ اتوار کو مدرسے سے چھٹی ملی تو بیٹریں لڑائیں۔ تیسرے نالائق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ، محلہ نالاں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اترتا ہے۔ انکی حرکات و سکنات، نشست و برخاست کوئی بھی تو بھلے مانسوں کی سی نہیں۔ گالی دینے میں ان کو باک نہیں، فحش بکنے میں ان کو تامل نہیں، سم ان کا تکیہ کلام ہے، نہ زبان کو روک ہے نہ منہ کو لگام ہے۔ انکی چال ہی کچھ عجیب طرح کی اکھڑی اکھڑی ہے کہ بے تہذیبی انکی رفتار سے ظاہر ہے۔
رہیں لڑکیاں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان میں اسطرح کے عیوب نہ ہونگے جو لڑکوں میں ہیں، لیکن ساتھ ہی مجھ کو اسکا تیقن ہے کہ دیندارانہ زندگی تو کسی کی بھی نہیں۔ انکو بھی اکثر گڑیوں میں مصروف پاتا ہوں یا کنبے میں کوئی تقریب ہوتی ہے تو کپڑوں کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، لڑکے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں، بہرکیف کیا لڑکے کیا لڑکیاں، میرے نزدیک تو دونوں ایک ہی طرح کے ہیں۔ ان سب کی یہ تباہ حالت دیکھ کر میں زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہوں مگر پھر دیکھتا ہوں تو انکا کچھ بھی قصور نہیں، خطا اگر ہے تو میرا اور تمھاری، انکے عیوب پر جھڑکنا اور ملامت کرنا کیسا، ہم نے کبھی انکو روکا تک بھی تو نہیں۔"
فہمیدہ۔ "تم تو باہر کے اٹھنے بیٹھنے والے ٹھہرے، اس میں تو میرا سراسر قصور ہے، بچے ابتداء میں ماؤں ہی سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں اور ماؤں ہی کی خو بو پکڑتے ہیں، بلکہ تم جب کبھی انکو نصیحت کرتے اور کسی بات پر گھرکتے تو میں الٹی انکی حمایت لیتی تھی، ان سب کو میں نے خراب کیا اور اسکا الزام بالکل میری گردن پر ہے۔"
نصوح۔ "بیشک تم نے بھی اکی اصلاح کی کوشش نہیں کی لیکن پھر بھی میں باپ تھا، تم سے انکی پرورش متعلق تھی اور مجھ سے انکی صلاح و تہذیب۔"
فہمیدہ۔ "ہاں میں نے انکے بدنوں کو پالا اور انکی روحوں کو تباہ اور ہلاک کیا، میری ہی بیہودہ محبت نے انکی عادتیں بگاڑیں۔ میرے ہی نامعقول لاڈ پیار نے انکے مزاجوں کو گندہ، انکی طبیعتوں کو بے قابو بنایا۔"
نصوح۔ "لیکن اگر میں اپنے کام پر آمادہ سرگرم ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ میں کہوں اور نہ سنیں، میں چاہوں اور نہ کریں، آخر میں ان پر ضابطہ تھا، میں ان پر ہر طرح کی قدرت رکھتا تھا اور نہ صرف ان پر بلکہ تم پر اور سارے گھر پر۔"
فہمیدہ۔ "پھر بھی جس قدر برائیاں مجھ پر ظاہر ہوتی رہتی تھیں انکا شاید دسواں حصہ بھی تم پر منکشف نہ ہوتا ہوگا۔ جان بوجھ کر میری عقل پر پردہ پڑ گیا، دیکھتے بھالتے میں اندھی بنی رہی۔ اب بھی جو جو خرابیاں انکی میں جانتی ہوں تم کو معلوم نہیں۔ دیکھو لڑکیاں ہی ہیں کہ تم گڑیاں کھیلنے اور کپڑوں کا اہتمام کرنے کے سوا انکے حالات سے محض بے خبر ہو، میں جانتی ہوں کہ انکے مزاجوں میں کیا خرابیاں ہیں، انکی عادتوں میں کیسے بگاڑ ہیں۔"
نصوح۔ "پھر آخر کیا کرنا ہوگا۔"
فہمیدہ۔ "میرے گمان میں ان بچوں کی اصلاح تو اب ہمارے امکان سے خارج ہے۔"
نصوح۔ "البتہ ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ہونے میں بھی کچھ شک نہیں۔"
فہمیدہ۔ "دشوار تم ہی کہو، آسمان میں تھگلی کا لگانا ممکن ہے اور انکی اصلاح ممکن نہیں، ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے مگر یہ درست ہونے والے نہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کلیم ایک بات کے سو سو جواب دینے کو موجود ہے اور ایک کلیم پر کیا الزام ہے، جتنے بڑے وتنے کڑے، جتنے چھوٹے وتنے کھوٹے۔"
نصوح۔ "تو کیا انکو اسی گمراہی میں رہنے دیں کہ اور بدتر ہوں، انکو بہ اختیار خود چھوڑ دیں کہ پیٹ بھر کر خراب ہوں۔"
فہمیدہ۔ "بڈھے طوطوں کا پڑھانا، پکی لکڑی کا لچکانا تم سے ہو سکے تو بسم اللہ۔ کیا خدانخواستہ میں مانع و مزاحم ہوں، مگر میں ایسی انہونی کا بیڑا نہیں اٹھاتی، ایاز قدرِ خود بشناس۔ میں خود جانتی ہون کہ بیٹوں کی نظروں میں میرا کتنا وقر ہے، بیٹیاں کتنا میرا ادب لحاظ کرتی ہیں، رشتے میں ماں ضرور ہوں مگر افتاد سے مجبور ہوں، کوئی میرے بس کا نہیں۔"
(جاری ہے)