توبۃ النصوح صفحہ نمبر 51 تا 75

بلال

محفلین
فصل سو
فہمیدہ اور منجھلی بیٹی حمیدہ کی گفتگو
فہمیدہ: تم کو جواب چند روز سے نماز پڑھتے دیکھتی ہے تو پرسوں مجھ سے پوچھنے لگی کہ اماں جان دن میں کئی مرتبہ ابا جان ہاتھ منہ دھو کر یہ کیا کیا کرتے ہیں؟ پہلے دیر تک بڑے ادب سے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ چپکے چپکے کچھ باتیں کرتے جاتے ہیں۔ پھر جھکتے ہیں۔ پھر منہ کے بل گر پڑتے ہیں۔
میں: بیٹی نماز پڑھتے ہیں۔
حمیدہ: اماں جان نماز کیا؟
اس استعجاب کے ساتھ پوچھنا، یہ پہلی چٹکی تھی کہ اس نے میرے دل میں لی۔
میں: بیٹی، خدا کی عبادت کو نماز کہتے ہیں۔
حمیدہ: اماں جان خدا کیا چیز ہے اور عبادت اس کی کون ہے؟
اس کا بھولے پن سے یہ پوچھنا تھا کہ خدا کیا چیز ہے اور عبادت اس کی کون ہے کہ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
میں: کیوں، کیا تم خدا کو نہیں جانتیں؟
حمیدہ: میں سب لوگوں کو خدا کی قسم کھاتے تو سنتی ہوں اور جب کبھی اماں جان، تم خفا ہوتی ہو تو کہا کرتی ہو خدا کی مار، اور تجھ سے خدا سمجھے۔ شاید خدا بیچا کو کہتے ہیں مگر بیچا ہوتی تو اس کی قسم نہ کھاتے۔
میں: حمیدہ توبہ کرو توبہ، خدا بیچا نہیں ہے۔ خدا وہ ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔ وہی روزی دیتا ہے، وہی مارتا ہے، وہی جلاتا ہے، وہی پالتا ہے۔
حمیدہ: کیا اماں جان تم کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے؟
میں: ہاں مجھ کو بھی۔
حمیدہ: اور ابا جان کو بھی؟
میں: ہاں تمہارے اباجان کو بھی۔
حمیدہ: اور ننھی بوا کو بھی؟
میں: ہاں ننھی بوا کو بھی۔
حمیدہ: اماں جان، کیا ہر روز ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکتا؟
میں: کیوں نہیں پکتا۔
حمیدہ: پھرتم تو کہتی ہو کہ خدا سب کو کھانے کو دیتا ہے۔
میں: اللہ تعالٰی پانی برساتے ہیں۔ اللہ تعالٰی غلے اور میوے اور ترکاریاں ہم لوگوں کے واسطے زمین میں اگاتے ہیں۔ وہی ہم سب لوگ کھاتے ہیں۔
حمیدہ: ننھی بوا کو تو اماں جان تم دودھ پلاتی ہو۔
میں: دودھ بھی اللہ تعالٰی ہی اتارتے ہیں۔ تمہاری ہی دفعہ اسی دوسھ کے پیچھے برسوں مصیبت اٹھائی۔ چھٹی تک الغاروں دودھ تھا۔ چھٹی نہا کر اٹھی کہ یکایک جاڑا چڑھا۔ بخار آیا تو کس شدت کا کہ الامان۔ تمام بدن سے آنچ نکلتی تھی۔ وہ پہر پھر کا بخار آنا اور دودھ کا تاؤ کھا جانا۔ پھر بہتیری ستاول پھانکی، زیرہ پیا، حیکم کا علاج کیا۔ تمہارے دادا جان، خدا جنت نصیب کرے، ہر روز صبح کو طشتری لکھ دیا کرتے تھے۔ مگر دودھ کچھ ایسی گھڑی کا سوکھا تھا کہ پھر نہ اترا پر نہ اترا۔ جب دیکھا کہ بچی بھوک کے مارے پھڑ کی بلی جاتی ہے، چاروناچار انار گھی اور وہ عذاب اٹھائے کہ خدا دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ خدا نے زندگی بخشی تھی کہ تم پل گئیں۔
حمیدہ: تو اللہ تعالٰی بڑے اچھے ہیں۔ ہم سب کو کھانے کو دیتے ہیں۔ ہماری ننھی بوا کے واسطے دودھ اتارتے ہیں۔ لیکن اماں جان، اللہ میاں سے ہمارا کچھ رشتہ ناتا ہے کہ انتے سلوک کرتے ہیں؟
میں: رشتہ ناتا یہ کہ ہم ان کے بندے ہیں۔ مردان کے غلام ہیں، عورتیں ان کی کونڈیاں ہیں۔
حمیدہ: لونڈی غلاموں کے ساتھ اتنا سلوک کوئی اپنے بچوں کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ لیکن لونڈی غلام تو اپنے مالک کی خدمت کرتے ہیں، تہل کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالٰی کا کون سا کام کرتے ہیں؟
میں: یہی تماز جو تم نے اپنے باپ کو پڑھتے دیکھی اور جس کو عبادت کہتے ہیں۔
حمیدہ: ہاں! تمان اللہ تعالٰی کا کام ہے تو سب ہی کو نہ پڑھنے چاہئے، کیوں کہ لونڈی غلام سب ہیں، اللہ تعالٰی کی دی ہوئی روٹی سب کھاتے ہیں۔
میں: بے شک خدا کی عبادت سب پر فرض ہے۔
حمیدہ: اماں جان تم نماز نہیں پڑھتیں۔ کیا تم اللہ تعالٰی کی لونڈی نہیں ہو اور کیا تم اس کی دی ہوئی روٹی نہیں کھاتیں؟ حمیدہ نے جو سادہ دلی اور بھولے پن سے یہ الزام دیا، مجھ کو اس قدر شرم آئی کہ زمین پھت گئی ہوتی تو میں سما جاتی۔
میں: میں لونڈی بے شک ہوں اور خدا ہی کی دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں لیکن بعضی لونڈیاں نکمی، کام چور، نمک حرام اور بے غیرت نہیں ہوتیں۔ ویسی ہی اللہ تعالٰی کی ایک لونڈی ہوں۔
 

بلال

محفلین
حمیدہ: اباجان بھی تو اب بیماری سے اٹھ کر نماز پڑھنے لگے ہیں۔ کیا اس سے پہلے وہ خدا کی دی ہوئی روٹی نہیں کھاتے تھے۔
یہ سب کر نصوح کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔
میں: وہ بھی برا کرتے تھے۔
حمیدہ: اچھی اماں جان! اللہ تعالٰی خفا ہوئے ہوں گے۔
میں: خفا ہونے کی تو بات ہی ہے۔
حمیدہ: ایسا نہ ہو کہ روٹی بند کر دیں تو پھر ہم کہاں سے کھائیں گے اور اگر ننھی بوا کا دودھ سوکھ گیا تو ہماری ننھی روئے گی۔ یہ کہہ کر حمیدہ رونے لگی۔ میں نے اٹھا کر گلے سے لگا لیا اور پیار کیا۔ لیکن جس قدر میں اس کی تسلی دیتی تھی وہ اور دگنا روتی تھی۔ مجھ سے بھی ضبط نہ ہو سکا اور مجھ کو روتے دیکھ کر اور بھی بے تاب ہو گئی۔ آخر بڑی مشکلوں سے میں نے اس کو سنبھالا اور کہا کہ حمیدہ تم ڈرو مت۔ اللہ میاں کا یہ دستور نہیں ہے کہ جو لونڈی غلام کام نہ کریں ان کا کھانا بند کر دیں۔
حمیدہ: سچ؟
میں: ہاں ہاں۔ تم گھبراؤ مت۔
حمیدہ: اچھی اماں جان! ننھی کو پلا کر دیکھو دودھ ہے یا نہیں۔
میں: بیٹی، ننھی کو سونے دو اور دودھ سے اطمینان رکھو۔ دودھ خدا کا دیا ہوا بہت ہے۔
حمیدہ: ہمارے گھر میں تو لونڈی غلام نہیں، نوکر چاکر ہیں مگر کام نہیں کرتے تو تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ ابا جان جرمانہ کر دیتے ہیں۔ گھر سے نکال دیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اپنے لونڈی غلاموں پر بھی خفا نہیں ہوتے تو ایسے مالک کا کام تو اور بھی جی لگا کر کرنا چاہیے۔ کیا کام نہ کرنا اور کھانا بےغیرتی نہیں ہے؟
میں: بڑی بے غیرتی کی بات ہے۔
حمیدہ: اماں جان، میں نے تو آج تک نماز نہیں پڑھی اور نہ جچھ کو نماز پڑھنی آتی ہے اور تم تو دن رات میں دو ہی مرتبہ کھانا کھاتی ہو، میں نہیں معلوم کتنی دفعہ کھاتی ہوں۔ مجھ پر اللہ تعالٰی ضرور خفا ہوں گے۔ یہ کہہ کر پھر میں نے سمجھایا کہ حمیدہ ڈرو مت۔ اللہ تعالٰی تم سے ناخوش نہیں ہیں۔ ابھی تم بچی ہو۔ تم کو نماز معاف ہے۔
حمیدہ: کھانا تو مجھ کو بھی سب کے برابر بلکہ سب سے اچھا اور زیادہ ملتا ہے۔
میں: ہاں ملتا ہے اور یہ بھی خدا کی مہربانی ہے کہ تم کو کام معاف کر رکھا ہے۔
حمیدہ: پھر اللہ تعالٰی مجھ کو کیوں کھانا دیتے ہیں؟
میں: اس واسطے کہ جب بڑی ہو جاؤ تو اس کے بدلے کا بہت سا کام کرو۔
حمیدہ: لیکن کیا اب میں کام نہیں کر سکتی؟ دیکھو، میں تم کو پان بنا دیتی ہوں، ابا جان کو پانی پلا دیتی ہوں، ننھی بوا کو بہلا لیتی ہوں۔ کیوں اماں جان کرتی ہوں؟
میں: ہاں بوا ہاں، تم تو میرے بہت کام کرتی ہو۔ بنکھا جھل دیتی ہو، دھاگا بٹ دیتی ہو، سوئی میں دھاگا پرو دیتی ہو، جو بیز مجھ کو درکار ہوتی ہے، لے آتی ہو۔
حمیدہ: تو کیا میں اللہ تعالٰی کا کوئی چھوٹا سا کام بھی نہیں کر سکتی؟ کیا نماز پڑھنا مشکل کام ہے؟ میں تو دیکھتی ہوں، ابا جان ہاتھ منہ دھو کر ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ کیا تنا مجھ سے نہیں ہو سکتا؟
میں: اس کے سوا کچھ پرھنا بھی ہوتا ہے، جس کو تم کہتی تھیں کہ چپکے چپکے باتیں کرتے جاتے ہیں۔
حمیدہ: وہ کیا باتیں ہیں؟
میں: خدا کی تعریف اور اس کے احسانوں کا شکریہ، اپنے گناہوں کا اقرار اور ان کی معافی کی درخواست، اس کے رحم کی تمنا، اس کے فضل کی آرزو، بس یہی نماز ہے۔
حمیدہ: یہ سب باتیں اسی طرح نہ کرتے ہوں گے، جیسے ہم لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔
میں: اور کیا۔
حمیدہ: مگر ابا جان تو کچھ اور ہی طرح کی بولی بولنے لگتے ہیں۔
میں: وہ عربی زبان ہے۔
حمیدہ: وہ تو میری سمجھ میں نہیں آتی۔ اماں جان تم جانتی ہو؟
میں: نہیں میں بھی نہیں جانتی۔
حمیدہ: تو کیا خدا سے عربی ہی زبان میں باتیں کرنی ہوتی ہیں؟
میں: نہیں وہ سب کی بولی سمجھتا ہے۔ بلکہ وہ دلوں کے ارادوں اور طبیعتوں کے منصوبوں سے واقف ہے۔
حمیدہ: یہ کیوں کر؟
میں: اس واسطے کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ کوئی چیز، کوئی بات اس سے مخفی نہیں۔ سب کو دیکھتا ہے، سب کو سنتا ہے، اگلے پچھلے کل حالات اس کو معلوم ہیں۔
حمیدہ: (گھبرا کر) کیا اللہ تعالٰی یہاں ہمارے گھر میں بھی بیٹھے ہیں؟
میں: گھر میں کیا ہمارے پاس بیٹھے ہیں مگر ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے۔
یہ سن کر حمیدہ نے جلدی سے اوڑھنی اوڑھ لی اور سنبھل کر مودب ہو بیٹھی اور مجھ سے آہستہ سے کہا، "اماں جان سر ڈھک لو۔ اس کے بعد حمیدہ پر کچھ ایسی پیبت غالب آئی کہ میری گود میں تھوڑی دیر تک چپ پڑی رہی۔ آخر آنکھ لگی، سو گئی۔ میری ٹانگیں سب ہونے لگیں، تو میں نے آہستہ سے چار پائی پر لٹا کر بیدار کو پاس بٹھا دیا کہ دیکھ ہاتھ رکھے رہیو، ایسا نہ ہو لڑکی سوتے سوتے ڈر کر چونک پڑے اور میں یہاں چلی آئی۔ مجھ کو حمیدہ کی باتوں سے ڈر لگا کہ اندر سے کلیجہ تھر تھر کانپا جاتا تھا۔
 

بلال

محفلین
نصوح: کیوں، ڈر کی اس میں کیا بات تھی؟
فہمیدہ: میں کہتی تھی کہ ایسی چھوٹی سی لڑکی اور ایسی باتیں۔ کچھ اس کو ہو تو نہیں گیا۔
نصوح: مذہب میں بڑی خوبی اور عمدگی تو یہی ہے کہ وہ ایسی باتوں کی تعلیم کرتا ہے جن کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ مسائل دینی آدمیوں کے بنائے ہوئے معمے اور لوگوں کی گھڑی ہوئی پہیلیاں نہیں ہیں کہ اب کے حل کرنے اور بوجھنے کو بڑا غوروخوض درکار ہو، بلکہ اس حکیم برحق کے باندھے ہوئے اصول اور ٹھہرائے ہوئے ضابطے ہیں اور اصول بھی کیسے سلیس اور آسان، ضابطے سہل اور بدیہی۔ نہیں معلوم انسان کی عقل پر کیا پتھر پڑے ہیں کہ اتنی موٹی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی کہ زمین آسمان، چاند، سورج، ستارے، انواع و اقسام کے حیوانات، رنگ برنگی کے نباتات، ساری دنیا، تمام زمانہ، اتنا بڑا کارخانہ س میں ایک پتا اٹھا کر دیکھو تو ہزارھا صنعتوں سے بھرا ہوا ہے، آخر خود بہ خود تو نہیں ہو گیا ضرور کوئی اس کا بنانے والا ہے اور پھر اس نے جو انسان کو ایک خاص صفت عقل عطا کی ہے، کچھ تو اس تخصیص کا مطلب ہے۔ مگر ہے کیا انسان اس تصور کو اپنے ذہن میں آنے ہی نہیں دیتا، ورنہ ساری خدائی خدا کی گواہی دے رہی ہے:
؎ برگ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفت کروگار
حمیدہ نے کوئی بات اچنبھے کی نہیں کہی۔ اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ ہم میں نادان بچوں کے برابر بھی عقل نہیں۔ ڈوب مرنے کی جگہ، زمین میں، گڑ جانے کا مقام ہے۔ بلکہ حمیدہ کی باتوں کو میں ایک نیک فال اپنی کامیابی کی سمجھتا ہوں۔ افسوس ہے، تم اس کو میرے پاس نہ لے آئیں۔ اس کی ہر ہر بات لوح دل پر کندہ کرنے ے لائق ہے اور یہ باتیں اس نے کیا کہیں، خدا نے اس کے منہ سے کہلوائیں۔ بیٹی کیا ہے، سچ پوچھو تو ہمارے لئے ہدایت کا فرشتہ ہے اور بچے جو معصوم کہلاتے ہیں، اسی سبب سے کہ ان کے دل لوث دنیا سے پاک اور تیرگی، گناہ سے صاف ہوتے ہیں۔ الحمدللہ کہ ایک سے تو اطمینان ہوا۔ اب یہ بتاؤ کہ اوروں کے واسطے کیا انتظام کرنا ہو گا؟
فہمیدہ: تم ہی کوئی تجویز سوچو۔
نصوح: میں نے تو یہ سوچا ہے کہ لڑکیوں کو تو تم سنبھالو اور لڑکوں کو میں سمجھ لوں گا۔
فہمیدہ: بھلا میں بھی تو سمجھوں کیوں کر سومجھ لو گے، کہ وہی تدبیر میں بھی کروں۔
نصوح: میں پہلے چھوٹوں سے شروع کروں گا۔ امید ہے کہ جلد راہ پر آجائیں۔ بڑوں کا مجھ کو بڑا کھٹکا ہے۔ یہ تو میں خوب جانتا ہوں کہ یہ نیا ڈھنگ دیکھ کر ان کے کان کھڑے ہوں گے مگر نہیں معلوم کس سے کیا معاملہ پیش آئے۔ تم اتنا کرو کہ ایک تو میرا تمہارا دونوں کا کام ایک ساتھ شروع ہو۔ جب اندر باہر دونوں جگہ ایک ہی بات کا چرچا ہو گا تو کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ دیکھو، خاص کر ہمارے پیچھے پڑے ہیں۔ اولاد اولاد سب برابر، ان سے کچھ تعرض نہیں کرتے۔ دوسرے یہ کہ تمہاری ہر ادا سے یہ بات پیدا ہو کہ اس معاملے میں ہم دونوں کو ایک اہتمام خاص ہے۔ کیوں کہ ذرا سا ضعف بھی ظاہر ہو گا، تو تمام تر انتظام درہم برہم ہو جائے گا۔
فہمیدہ: انشاء اللہ اس کے خلاف نہ ہو گا۔
 

بلال

محفلین
فصل چہارم
نصوح اور چھوٹے بیٹے سلیم کی گفتگو
آج تو میاں بیوی میں یہ قول و اقرار ہوا۔ اگلے دن چھوٹا بیٹا سلیم ابھی سو کر نہیں ا
ٹھا تھا کہ بیدارا نے آجگایا کہ صاحب زادے اُٹھیے، بالا خانے پر میاں بلاتے ہیں۔ سلیم کی عمر اس وقت کچھ کم دس برس کی تھی۔ سلیم نے جو طلب کی خبر سنی، گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی سے ہاتھ منہ دھو، ماں سے آکر پوچھنے لگا: "اماں جان، تم کو معلوم ہے اباجان نے کیوں بلایا ہے؟"
ماں: بھائی، مجھ کو تو کچھ خبر نہیں۔
سلیم: کچھ خفا تو نہیں ہیں؟
ماں ابھی تو کوٹھے پر سے بھی نہیں اترے۔
سلیم: بیدارا، تجھ کو کچھ معلوم ہے؟
بیدارا: میاں، میں اوپر لوٹا لینے گئی تھی۔ میاں اکیلے بیٹھے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں آنے لگی تو میاں نے آپ کا نام لیا اور کہا کہ ان کو بھیج دیجیو۔
سلیم: صورت سے کچھ غصہ تو نہیں معلوم ہوتا تھا؟
بیدارا: نہیں تو۔
سلیم: تو اماں جان، ذرا تم بھی میرے ساتھ چلو۔
ماں: میری گود میں لڑکی سوتی ہے۔ تم اتنا ڈرتے کیوں ہو، جاتے کیوں نہیں؟
سلیم: کچھ پوچھیں گے۔
ماں: جو کچھ پوچھیں گے تم اس کو معقول طور پر جواب دینا۔
غرض سلیم ڈرتا ڈرتا اوپر گیا اور سلام کر کے الگ جا کھڑا ہوا۔ باپ نے پیار سے بلا کر پاس بٹھا لیا اور پوچھا: کیوں صاحب، ابھی مدرسے نہیں گئے؟
بیٹا: جی، بس جاتا ہوں۔ ابھی کوئی گھنٹے بھر کی دیر اور ہے۔
باپ: تم اپنے بھائی جان کے ساتھ مدرسے جاتے ہو یا الگ؟
بیٹا: کبھی کبھار بھائی جان کے ساتھ چلا جاتا ہوں، ورنہ اکثر اکیلا جاتا ہوں۔
باپ: کیوں؟
بیٹا: اگلے مہینے امتحان ہونے والا ہے۔ چھوٹے بھائی جان اسی کے واسطے تیاری کر رہے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر کسی ہم جماعت کے یہاں چلے جاتے ہیں۔ وہاں ان کو دیر ہو جاتی ہے، تو پھر گھر بھی نہیں آتے۔ میں جاتا ہوں تو ان کو مدرسے میں پاتا ہوں۔
باپ: کیا اپنے گھر میں جگہ نہیں ہے کہ دوسروں کے یہاں جاتے ہیں؟
بیٹا: جگہ تو ہے، مگر وہ کہتے تھے کہ یہاں بڑے بھائی جان کے پاس ہر وقت گنجفہ اور شطرنج ہوا کرتا ہے، اطمینان کے ساتھ پڑھنا نہیں ہو سکتا۔
باپ: تم بھی شطرنج کھیلنی جانتے ہو؟
بیٹا: مہرے پہچانتا ہوں، چالیں جانتا ہوں، مگر کچھی خود کھیلنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
باپ: مگر زیادہ دنوں تک دیکھتے دیکھتے یقین ہے کہ تم بھی کھیلنے لگو گے۔
بیٹا: شاید مجھ کو عمر بھر بھی شطرنج کھیلنی نہ آئے گی۔
باپ: کیوں کیا ایسی مشکل ہے؟
بیٹا: مشکل ہو یا نہ، میرا جی ہی نہیں لگتا۔
باپ: سبب؟
بیٹا: میں پسند نہیں کرتا۔
باپ: چوں کہ مشکل ہے اکثر مبتدی گھبرایا کرتے ہیں۔ مجھ کو یقین ہے کہ گنجفہ میں تمہاری طبیعت خوب لگتی ہو گی۔ وہ بہ نسبت شطنج کے بہت آسان ہے۔
بیٹا: میں شطرنج کی نسبت کر گنجفہ کو زیادہ تر نا پسند کرتا ہوں۔
باپ: وہاں شطرنج میں طبیعت پر زور پڑتا ہے اور گنجفہ میں حافظہ پر۔
بیٹا: میری ناپسندیدگی کا کچھ خاص کر یہی سبب نہیں ہے، بلکہ مجھ کو سارے کھیل بُرے معلوم ہوتے ہیں۔
 

بلال

محفلین
باپ: تمہاری اس بات سے مجھ کو تعجب ہوتا ہے اور میں تم سے تمہاری ناپسندیدگی کا اصلی سبب سننا چاہتا ہوں، کیوں کہ شاید اب سے پانچ یا چھ مہینے پہلے، جن دنوں میں باہر کے مگان میں بیٹھا کرتا تھا، میں نے خود تم کو ہر طرح کے کھیلوں میں نہایت شوق کے ساتھ شریک ہوتے دیکھا تھا۔
بیٹا: آپ درست فرماتے ہیں۔ میں ہمیشہ کھیل کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا تھا، مگر اب تو مجھ کو ایک دلی نفرت ہو گئی ہے۔
باپ: آخر اس کا کوئی سبب خاص ہو گا۔
بیٹا: آپ نے اکثر چار لڑکوں کو کیابیں بغل میں دابے گلی میں آتے جاتے دیکھا ہو گا۔
باپ: وہی جو گورے گورے چار لڑکے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ پھڈی جونتیاں پہنے، منڈے ہوئے سر، اونچے پاجامے، نیچی چولیاں۔
بیٹا: ہاں جناب وہی چار لڑکے۔
باپ: پھر؟
بیٹا: بھلا آپ نے کچھی ان کو کسی قسم کی شرارت کرتے بھی دیکھا ہے؟
باپ: کچھی نہیں۔
بیٹا: جناب کچھ عجب عادت ان لڑکوں کی ہے۔ راہ چلتے ہیں تو گردن نیچی کیے ہوئے۔ اپنے سے بڑا مل جائے، جان پہچان ہو یا نہ ہو، ان کو سلام کر لینا ضرور، کئی برس سے اس محلے میں رہتے ہیں، مگر کانوں کان خبر نہیں۔ محلے میں کوڑیوں لڑکے بھرے پڑے ہیں، لیکن ان کو کسی سے کچھ واسطہ نہیں۔
آپس میں اوپر تلے کے چاروں بھائی ہیں۔ نہ کچھ لڑتے، نہ کبھی جھگڑتے، نہ گالی بکتے، نہ قسم کھاتے، نہ جھوٹ بولتے، نہ کسی کو چھیڑتے، نہ کسی پر آواز کستے۔ ہمارے ہی مدرسے میں پڑھتے ہیں، وہاں بھی ان کا یہی حال ہے۔ کبھی کسی نے ان کو جھوٹی شکایت بھی تو نہیں کی۔ ڈیڑھ بجے ایک گھنٹے کی چھٹی ہوا کرتی ہے۔ لڑکے کھیل کود میں لگ جاتے ہیں۔ یہ چاروں بھائی ایک پاس کی مسجد میں نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں۔
باپ: بھلا پھر؟
بیٹا: منجھلا لڑکا میرا ہم جماعت ہے۔ ایک دن میرا آموختہ یاد نہ تھا۔ مولوی صاحب نہایت ناخوش ہوئے اور اس کی طرف اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ کم بخت گھر سے گھر ملا ہے۔ اسی کے پاس جا کر یاد کر لیا کر۔ میں نے جو پوچھا: "کیوں صاحب یاد کرا دیا کرو گے؟" تو کہا "یہ سرو چشم۔" غرض میں اگلے دن ان کے گھر گیا، آواز دی۔ انہوں نے مجھ کو اندر بلا لیا۔ دیکھا کہ ایک بہت بوڑھی سی عورت تخت پر جائے نماز بچھائے قبلہ رو بیٹھی ہوئی کچھ پڑھ رہی ہیں۔ وہ ان لڑکوں کی نانی ہیں۔ لوگ ان کو حضرت بی کہتے ہیں۔ میں سیدھا سامنے دالان میں اپنے ہم جماعت کے پاس جا بیٹھا۔ جب حضرت بی اپنے پڑھنے سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا، گو تم نے مجھ کو سلام نہیں کیا لیکن ضرور ہے کہ میں تم کو دعا دوں۔ جیتے رہو، عمر دراز، خدا نیک ہدایت دے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ میں غیرت کے مارے زمین میں گڑ گیا اور فوراً میں نے اٹھ کر نہایت ادب کے ساتھ سلام کیا۔ تب حضرت بی نے فرمایا کہ بیٹا، برا مت ماننا، یہ بھلے مانسوں کا دستور ہے کہ اپنے سے جو بڑا ہوتا ہے اس کو سلام کر لیا کرتے ہیں اور میں تم کو نہ ٹوکتی لیکن چوں کہ تم میرے بچوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو، اس سبب سے مجھ کو جتا دینا ضرور تھا۔ اس کے بعد حضرت بی نے مجھ کو مٹھائی دی اور بڑا اصرار کر کے کھلائی۔ مدتوں میں ان کے گھر جاتا رہا۔ حضرت بی بھی مجھ کو اپنے نواسوں کی طرح چاہنے اور پیار کرنے لگیں اور مجھ کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتی تھیں۔ تبھی سے میرا سل تمام کھیل کی باتوں سے کھٹا ہو گیا۔
باپ: یہ تو تم نے اچھا اختصار کیا۔ اجی، سب باتیں مجھ کو سناؤ۔ کیا کیا تم سے حضرت بی نے کہا۔
بیٹا: ہر روز آنے جانے میں ان لوگوں کے ساتھ خوب بے تکلف ہو گیا۔ مگر حضرت بی نے بس پہلے دن سلام نہ کرنے پر ٹوکا تھا پھر کوئی گرفت نہیں کی۔ باجودے کہ میں شوخی بھی کرتا تھا لیکن وہ خبر نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن مجھ سے اور ایک ہمسائے کے لڑکے سے، باہر گلی میں کھیلتے کھیلتے، عین انہی کے دروازے پر لڑائی ہو پڑی۔ سخت کلامی کے بعد گالی گلوچ کی نوبت پہنچی۔ پھر مار کٹائی ہونے لگی۔ لڑکا مجھ سے تھا کمزور۔ ذرا اڑنگے پر چڑھا کو ایک پٹخنی دیتا ہوں، چاروں شانے چت۔ پھر تو میں اس کی چھاتی پر چڑھ بیٹا اور بچا کو ایسے گھسے دیے کہ یاد ہی کیے ہوں گے اور لوگ چھڑانہ دیتے تو میں اس کو ادھ موا کر ہی چکا تھا۔ بارے دو چار آدمیوں نے مجھ کو اس پر سے اتارا اور دو ایک نے میری پیٹھ بھی ٹھوکی کہ شاباش پٹھے شاباش۔ لیکن وہ لڑگا ایسا چیند باز تھا کہ پھر خم ٹھوک کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ پھر گتھ جاؤ، اتنے میں اندر سے اسی میرے ہم جماعت نے پوچھا: "کیوں جی، کس سے لڑ رہے تھی؟" میں نے کہا: "میاں ہی کنجڑے والا رمضانی، کمزور، مار کھانے کی نشانی۔ لیکن خدا کی قسم میں نے بھی آج اس کو ایسا رگڑا ہے کہ یاد ہی تو کرے گا۔" اس وقت تک غصہ اور طیش تو فرو ہوا ہی نہ تھا، نہیں معلوم کیا کیا میں نے بکا کہ سب گھر والوں نے سن کر آنکھیں نیچی کر لیں اور بڑی دیر تک سرنگوں بیٹھے رہے۔ آخر حضرت بی بولیں کہ سلیم، بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو ایسا پیارا لڑکا اور گن تیرے ایسے خراب۔ اس منہ سے ایسی باتیں! آج کئی دن سے میں تجھ کو سمجھانے والی تھی۔ مگر اس وقت جو میں نے تیری گفتگو سنی، مجھ کو یقین ہو گیا کہ تجھ کو سمجھانا بے سود ہے۔ بڑا رنج تو مجھ کو اسی بات کا ہے کہ تو ہاتھ سے گیا گزرا ہوا۔ دوسرا کھٹکا یہ ہے کہ تو میرے لڑکوں کے پاس آتا جاتا ہے۔ اگر خدا نہ خوستہ تیری خوبوکا ایک سمہ انہوں نے اختیار کیا تو میری طرف سے یہ جیتے جی مر لیے۔ ملنا جلنا تو بڑی بڑی بات ہے، اب محلہ مجھ کو چھوڑنا پڑا۔ اتنی بے حیائی ایسی بدزبانی! اول تو لڑنا اور پھر گلی کو چیمیں اس پر ایسی موٹی موٹی گالیاں!"
 

بلال

محفلین
میں: جناب خدا کی قسم، ہر گز میں نے پہل نہیں کی۔ وہ سر پر چڑھ کے مجھ سے لڑا۔
حضرت بی: بس اپنی قسموں کو بند کرو۔ میں قسم اور گالی دونوں کو برا سمجھتی ہوں۔ جس کو بے موقع بے محل خدا کا نام لینے میں باک نہیں، اس کو کسی بات کے بک دینے میں تامل نہیں۔
میں: گالی بھی پہلے اس نے دی۔
حضرت بی: تم نے کیوں گالی کھانے کی بات کی؟
میں: یہی تو میں عرض کرتا ہوں کہ میرا مطلق قصور نہ تھا۔
حضرت بی: کیا ایسے بیہودہ لڑکوں سے ملاقات رکھنا تمہارا قصور نہیں ہے؟
میں: جناب آپ کو معلوم نہیں، وہ لڑکا راہ چلتوں کے سر ہوتا ہے۔
حضرت بی: یک نہ شد دو شد۔ دروغ گویم بر روئے تو۔ میرے لڑکوں کے تو کوئی بھی سر نہیں ہوتا؟
میں: ان سے تو سرے سے جان پہچان ہی نہیں۔
حضرت بی: اور تم سے ہے۔
میں: کیوں کر کہوں کہ نہیں ہے۔
حضرت بی: ہے تو وہی تمہارا قصور ہے اور اسی کی یہ سزا ہے کہ تم نے بازار میں گالیاں گائیں۔
میں: لیک میں نے بھی خوب بدلا لیا۔
حضرت بی: بس یہی تو تمہاری خرابی کے لچھن ہیں کہ اس کو تم بدلا سمجھتے ہو۔ اگر ایک شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تو اس کو لوگ بڑاکہیں گے؟
میں: ضرور کہیں گے۔
حضرت بی: اور جب تم اس کے ساتھ برائی کرو تو کیا زیادہ برے نہ کہلاؤ گے؟ گالی بکنا ایک زبوں بات ہے۔ اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔ سلیم، تو اپنے میں اور اس کنجڑے کے چھوکرے میں کچھ فرق سمجھتے ہو؟
یہ سن کر مجھ کو ندامت شروع ہوئی اور میں نے کہا کہ واقع میں اس وقت تو مجھ میں اور اس میں کچھ فرق نہ تھا۔
حضرت بی: لیکن وہ ایک بازاری آدمی کا بیٹا ہے اور تم ایک بڑے عزت دار کے لڑکے ہو۔ تمہارے دادا کا شہر میں وہ شہر ہے کہ ان کے نام کی لوگ تعظیم کرتے ہیں۔ انہی کے پوتے تم ہو، جھوٹ بولنے پر دلیر، قسم کھانے میں بے باک، فحش بکنے میں بے دھڑک۔ سلیم، کوئی شخص دین اور دنیا دونوں میں اس وجہ سے عزت نہیں پا سکتا کہ اس کے باپ دادا عزت دار تھے۔ آدمی کی عزت اس کی عادت اور مزاج سے ہے۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ یہ عادتیں جو تم نے سیکھی ہیں، عزت حاصل کرنے کی ہیں؟ ہر گز نہیں۔
یہ سب کر مجھ کو اس قدر شرمندگی ہوئی کہ میں رونے لگا۔ حضرت بی بھی آب دیدہ ہوئیں اور مھ کو پاس بٹھا کر پیار کیا اور کہا کہ بیٹا، میں تمہارے ہی فائدے کے لئے کہتی ہوں۔ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ لیکن چند روز بعد تم کو ان عادتوں کا چھوڑنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ میں نے اسی وقت توبہ کی اور کہا کہ اگر اب سے آپ مجھ کو قسم کھاتے یا حش بکتے یا جھوٹ بولتے یا بازاری لڑکوں میں کھیلتے سنیں تو مجھ کو اپنے میں نہ آنے دیجیے گا۔
باپ: کیا بس اسی دن سے تم کو کھیلنے سے نفرت ہو گئی؟
بیٹا: جنان نہیں۔ مہینوں میں حضرت بی کے یہاں جاتا رہا اور ہر روز نصیحت کی دو چار باتیں وہ مجھ کو بتایا کرتی تھیں۔ ایک روز انہوں نے مجھ سے میرے وقت کا حساب پوچھا۔ میں نے سونا اور کھانا اور کھیلنا اور تھوڑی دیر لکھنا پڑھنا بہتیرے کام گنوائے۔ مگر انہوں نے سن کر ایک ایسی آہ کھینچی کہ آج تک اس کی چوٹ میں اپنے دل میں پاتا ہوں اور کہا: "سلیم، آٹھ پہر میں خدا کا ایک کام بھی نہیں۔ خدا نے تم کو آدمی بنایا، کیا ممکن نہیں تھا کہ وہ تم کو بلی یا کتا بنا دیتا؟ پھر آدمی بھی بنایا تو ایسے خاندان کا جو عزت دار اور خوش حال ہے۔ ہو سکتا تھا کہ تم مزدور یا لکڑہار کے گھر پیدا ہوتے اور ایسی چھوٹی سی عمر میں تم کو پیٹ پورا کرنے کے واسطے محنت کرنی پڑتی اور پھر بھی سوائے چنے کے اور کچھ نہ پاتے اور وہ بھی پیٹ بھر کر نہیں۔ ایک لنگوٹی تم باندگے پھرتے۔ نہ پاؤں میں جوتی، نہ سر پر ٹوپی، نہ گلے میں انگر کھا۔ جہاں جاتے دردر۔ جس کے پاس کھڑے ہوتے، پھٹ پھٹ۔ پھر صورت تم کو ایسی پاکیزہ دی کہ جو دیکھے پیار کرے۔ کیا تم کو کالا بھٹ، کانڑا، لنگڑا، کوڑھی بنا دینا اس کو مشکل تھا۔ جس خدا کے تم پر اتنے سلوک اور اتنے احسان ہیں، ستم ہے کہ دن رات میں ایک دفعہ بھی اس کے آگے سر نہ جھکاؤ، غضب ہے کہ ایک لمحہ بھی اس کو یاد نہ کرو۔" تب حضرت بی نے مجھ کو نماز سکھائی، اس کے معنی سمجھائے اور اسی طرح انہوں نے مجھ کو ہزارہا نصیحتیں کیں کہ بر زبان یاد نہیں رہیں۔ مگر افسوس ہے کہ کئی مہینے سے ان کے گھر میرا جانا چھوٹ گیا۔ یہ کہہ کر سلیم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
 

بلال

محفلین
باپ: کیوں، تم نے کس لیے ان کے یہاں جانا ترک کیا؟ کیا ان کے نواسوں سے لڑائی ہو گئی؟
بیٹا: جناب ان کے نواسے مجھ کو بھائیوں سے کہیں زیادہ عزیز ہیں۔ اگر میں ان سے لڑتا تو دنیا میں مجھ سے زیادہ نالائق کوئی نہ تھا۔
باپ: پھر کیا حضرت بی تم سے ناخوش ہو گئیں؟
بیٹا: استغفراللہ۔ وہ تو خود درجے کی نیک ہیں کہ غصہ ان کو چھو ہی نہیں گیا۔
باپ: تو کیا تم آپ سے بیٹھ رہے؟
بیٹا: میں تو ہر روز وہاں جانے کے واسطے تڑپتا ہوں۔
باپ: تو کیا یہاں تم کو کسی نے منع کر دیا ہے؟
بیٹا: نہیں کسی نے منع بھی نہیں کیا۔
باپ: پھر کیاسبب ہوا؟
بیٹا: اگر آپ مجھ کو اس کا سبب بیان کرنے سے معاف رکھتے تو بہتر تھا۔
باپ: نہں ضرور ہے کہ میں تمہارے نہ جانے کا سبب معلوم کروں۔
بیٹا: اس میں ایک شخص کی شکایت ہو گی اور حضرت بی نے مجھ کو غیبت اور چغلی کی ممانعت کی ہے۔
باپ: لیکن کیا وہاں نہ جانے سے تمہارا نقصان نہیں؟
بیٹا: اے جناب، نقصان سا نقصان! مگر میرے اختیار کی بات نہیں۔
باپ: تو میں تم کو اپنے منصب پدری کی رو سے حکم دیتا ہوں کہ تم سارا حال بوست کندہ بیان کرو۔
بیٹا: حضرت بی نے ایک مرتبہ مجھ کو یہ تاکید کہا تھا کہ تم اپنے سر کے بال منڈوا ڈالو۔ اگرچہ مجھ کو بال بہت عزیز تھے اور میں ان کی خدمت بھی بہت کرتا تھا لیکن چوں کہ مجھ کو یقین تھا کہ حضرت بی جو بات کہتی ہیں ضرور میری منفعت کے واسطے کہتی ہیں، میں نے کہا بہت خوب۔ حضرت بی نے اور تو کچھ سبب نہیں بیان کیامگر اتنا کہا کہ بالوں کی بزرگ داشت میں تمہارا بہت سا وقت صرف ہوتا ہے اور وقت ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کو ایسی فضول باتوں میں صرف کیا جائے اور تم کو بڑے بال رکھنے کی کچھ ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگلے دن جو حجام بڑے بھائی جان کا خط بنانے آیا، میں نے اس سے کہا کہ خلیفہ میرے بال بھی مونڈ دینا۔ بالوں کو مونڈنا سن کر بڑے بھائی جان اس قدر خفا ہوئے کہ میں عرض نہیں کر سکتا۔ مجھ کو جو چاہتے کہہ لیتے۔ حضرت بی اور ان کے نواسوں کو بھی بہت برا بھلا کہا۔ یہ کہہ کر سلیم کی آنکھوں میں پھر آنسو بھر آئے۔
باپ: تمہارے بڑے بھائی سے اور حضرت بی سے کیا واسطہ اور ان کو تمہارے افعال میں میرے ہوتے کیا دخل؟
بیٹا: جناب، نہیں معلوم ان کو کس طرح معلوم ہو گیا تھا کہ میں ان کے گھر آتا جاتا ہوں۔ دو ایک مرتبہ مجھ سے پہلے بھی کہا تھا کہ تو ان مردو شوقلاؤذیوں کے ساتھ اکثر رہتا ہے، کیا تو بھی ملانا اور مسجد کا ٹکڑگدا بنے گا؟ اس دن بالوں پر کہنے لگے: دیکھا، آخر ان نابکاروں کی صحبت کا یہ اثر ہوا کہ آپ اچھے خاصے سر کو چھلا ہوا کسیرو بنانے چلے ہیں کہ دیکھتے ہی ہتھیلی کھجلائے، چانٹا مارنے کو جی چاہے۔ ایسے اکیلے سر منڈانے سے کیاہوتا ہے۔ گھٹنوں تک کا کرتہ پہن، ٹخنوں تک کا پائجامہ بنا، پیج آیت کے واسطے دو چار سورتیں یاد کر اور چاہے کہ فقط انگی کو خون لگا کر شہیدوں میں داخل اور نراسر منڈا کر بریانی کی دعوتوں میں شامل ہو جاؤں، تو بچا ہاتھ دھورکھو، گھسنا تو ملنے ہی کا نہیں۔
باپ: تم نے کچھ جواب نہیں دیا؟
بیٹا: جناب، اول تو بڑے بھائی کو جواب دینا خلاف شیوہ ادب تھا اور اگر دیتا تو مجھ کو جیتا بھی نہ چھوڑتے۔ جب تک میں سامنے سے ٹل نہیں گیا، انہوں نے زبان بند نہیں کی، اور ناحق حضرت بی کے نواسوں کی شان میں بری بری باتیں کہیں۔ غرض ڈر کے مارے پھر میں نے بال منڈوانے کا نام نہیں لیا اور تب ہی سے مجھ کو ایک حجاب سا پیدا ہوا کہ کئی بار مجھ سے کہہ چکی ہیں، اپنے دل میں کیا کہتی ہوں گی کہ کیسا خود سر لڑکا ہے۔ لیکن پھر انہوں نے کچھ تذکرہ نہیں کیا۔ معلوم نہیں بھول گئیں یا کہنے سے کچھ فائدہ نہ دیکھ کر چپ ہو رہیں۔ ابھی ت میں نے جانا نہیں چھوڑا، اگرچہ میرا جانا داخل بے غیرتی تھا۔ جب انہوں نے مجھ کو نماز سکھائی اور نماز کی تاکید کی تو میں نے ایک دن گھر میں نماز پڑھنی چاہی۔ بڑے بھائی جان اور ان کے یار دوست برابر ہنسائے جاتے تھی اور میں نہیں ہنستا تھا، تو جانماز الٹ الٹ دیتے ۔ سجدے میں جاتا تو اوپر بیٹھ بیٹھ جاتے تھے۔ ایسی حالت میں ممکن نہ تھا کہ میں نماز پڑح سکوں اور حضرت بی سچ بولنے کا مجھ سے عہد لے ہی چکی تھیں۔ میں نے سوچا کہ جاؤں گا تو نماز کو پوچھیں گی، تو کیا کہوں گا۔ بالوں کی شرمندگی اور نماز کی ندامت، غرض اعمال کی شامت کہ میں نے جانا چھوڑ دیا۔ اب وہاں گئے مجھ کو تین ساڑھے تین مہینے ہو گئے۔ میری اس نا اہلی کو دیکھیے کہ تب ہی سے وہ میرے ہم جماعت بیمار پڑے ہیں، میں ان کی عیادت کو بھی نہیں جا سکا۔
باپ: لیکن تم نے اپنی مجبوری کا حال مجھ پر کیوں نہیں ظاہر کیا؟
بیٹا: اس خوف سے کہ غیبت ہو گی۔
 

بلال

محفلین
باپ: تم نے اپنے بڑے بھائی کے رودررو کہا ہوتا۔
بیٹا: اتنی مجال نہ مجھ میں کبھی تھی، نہ اب ہے۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ ہر وقت آپ کے پاس رہنے سے رہا۔ جب اکیلا پائیں گے، مجھ کو ٹھیک بنائیں گے۔
باپ: تم کو خوف ہی خوف تھا یا تم کو بڑے بھائی نے کبھی مارا بھی تھا۔
بیٹا: اس کی گنتی نہ میں بتا سکتا ہوں اور نہ بڑے بھائی جان بتا سکتے ہیں۔
باپ: کس بات پر؟
بیٹا: میں تو ہمیشہ ان کے مارنے کو ناحق، بے سبب، بے قصور، بے خطا ہی سمجھا۔
باپ: تم نے اپنی ماں سے بھی کچھی تذکرہ نہ کیا۔
بیٹا: جو وجہ آپ کی خدمت میں عرض کرنے کی مانع تھی، وہ ہی والدہ سے بھی کہنے کو روکتی تھی۔ دوسرے میں دیکھتا تھا کہ گھر میں نماز روزے کا مطلق چرچا نہیں۔ یہ بھی خیال ہوتا تھا کہ ایسا نہ ہو، کہوں اور جس طرح بڑے بھائی جان ناخوش ہوتے ہیں اور لوگ بھی نا رضامند ہوں۔
باپ: تو یہ چند مہینے تمہارے نہایت ہی بری طرح گزرے۔
بیٹا: کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ ایک حضرت بی کی خدمت سے محروم رہنے کا صدمہ، دوسرے اپنی مجبوری کا رنج۔ میں نے لوگوں سے سنا تھا کہ سگ باش بردر خورد مباش سو مجھ کو ہر روز اس کی تصدیق ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر تو اس بات کا قلق تھا کہ میں اپنے گھر میں سب چھوٹے بڑوں کی عادتوں کو ناپسند کرتا ہوں اور اپنے جی میں سوچا کرتا ہوں کہ جس گھر میں رہتا ہوں اس سے مجھ کو وحشت ہوتی ہے تو میں کہاں جاؤں گا اور کیا کروں گا۔
باپ: لیکن اگر اب تم کو حضرت بی کے گھر جانا ملے؟
بیٹا: سبحان اللہ۔ اس سے بڑھ کر کوئی خوشی کی بات نہیں۔ لیکن جب تک کہ میں سر کے بال نہ منڈا لوں اور نماز نہ پڑھوں میں ان کو منہ نہیں دکھا سکتا۔
باپ: اور اگر یہ بھی ہو؟
بیٹا: تو پھر یہ بھی ہو کہ ہمارے گھر بھر کی عادتیں وہیں کی سی ہو جائیں۔
باپ: بھلا اگر یہ دونوں ہوں؟
بیٹا: تو پھر مجھ کو اور کچھ درکار نہیں۔
باپ: اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے اس تمام گھر پر ایک بربادی اور تباہی چھا رہی ہے اور سارا خاندان گناہ اور بے دینی کی آفت میں مبتلا ہے۔ آوے کا آوا خراب، کنبے کا کنبہ گمراہ۔ تعجب ہے کہ اب تک کوئی عذاب الٰہی ہم پر نازل نہیں ہوا۔ حیرت ہے کہ قہر خدا ہم پر کیوں نہیں ٹوٹ پڑا اور خدا کا الزام اور تم سب کا اولاھنا تمام تر مجھ پر ہے۔ میں تم لوگوں کے جسموں کی پرداخت و پرورش کرتا رہا لیکن تمہاری روحوں کو میں نے ہلاک اور تمہاری جانوں کو میں نے تلف کیا۔ کتنے دن میری گردن پر ہیں اور کتنے وبال میرے سر پر۔
بحیر تم کہ سر انجام من چہ خواہد بود
سلیم! آج تم خوش ہو جاؤ کہ تمہاری آرزوبر آئی اور تمہارا مطلب خدا نے پورا کیا۔ شوق سے اپنا سر منڈاؤ اور نماز پڑھو اور حضرت بی کی خدمت میں جاؤ۔ آج سے حضرت بی میری دینی ماں اور ان کے نواسے میرے دینی فرزند ہیں اور میں خود تمہارے ساتھ چلوں گا اور حضرت بی کا شکریہ ادا کروں گا کہ انہوں نے حسبۃًللہ تمہارے اور میرے دونوں کے ساتھ سلوک کیا۔ تمہارے ساتھ یہ کہ تم کو نیک صلاح دی اور میرے ساتھ یہ کہ جو کم میرے کرنے کا تھا وہ انہوں نے کیا۔ آج کے بعد انشاءاللہ تم اس گھر کو حضرت بی کے گھر کی طرح دیکھو گے۔ کوئی تفرقہ تم میں اور ان کے نواسوں میں باقی نہ رہے گا۔ سلیم! تمہاری آج کی گفتگو سن کر میرا جی بہت ہی خوش ہوا اور تم مجھ کو ساری اولاد میں سب سے زیادہ عزیز رہو گے۔ تم کو میں دوسروں کے لیے نمونہ اور مثال بناؤں گا اور ان کو جو تم سے بڑے ہیں، تمہاری تقلید پر مجبور کروں گا۔
 

بلال

محفلین
فصل پنجم
فہمیدہ اور بڑی بیٹی نعیمہ کی لڑائی
ادھر تو نصوح اور سلیم دونوں باپ بیٹیوں میں یہ گفتگو ہو رہی تھی، ادھر اتنی ہی دیر میں فہمیدہ اور بڑی بیٹی نعیمہ میں خاصی ایک جھوٹ ہو گئی۔ نعیمہ اس وقت دو برس کی بیاہی ہوئی تھی۔ پانچ مہینے کا پہلونٹی کا لڑکا گود میں تھا۔ نازونعمت میں پلی، نانی کی چہیتی، ماں کی لاڈو۔ مزاج کچھ تو قدرتی تیز، ماں باپ کے لاڈ پیار سے وہی کہاوت ہوئی، "کریلا اور نیم چڑھا" اور بھی چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ ساس نندوں میں بھلا اس مزاج کی عورت کا کیوں گزر ہونے لگا تھا۔ گھونگھٹ کے ساتھ منہ کھلا کا کھلا تھا کہ سسرال کا آنا جانا بند ہو گیا۔ اب چھ مہینے سے ماں کے گھر بیٹھی ہوئی تھی۔ مگر رسی جلی پر بل نہ گیا۔ باوجودے کہ اجڑی ہوئی میکے میں پڑی تھی، مزاج میں وہی طنطنہ تھا۔ کنوارے پن ہی میں سوا گز کی زبان تھی۔ کچھ یوں ہی سا لحاظ بڑی بوڑھیوں کا تھا، سو بیاہے سے ان کو بھی دھتکار بتائی۔ جنے پیچھے تو اور بھی کھل کھیلی۔ مردوں تک لحاظ اٹھا دیا۔
فہمیدہ نے میاں کے رو برو بیٹیوں کا بیڑا اٹھانے کو اٹھا لیا تھا، لیکن نعیمہ کے تصور سے تونگٹے بدن پر کھڑے ہو ہو جاتے تھے اور جی ہی جی میں کہتی کہ ذرا بھی میں اس بھڑوں کے چھتے کو چھیڑوں گی تو میرا سر مونڈ کر ہی بس نہیں کرے گی۔ سوسو منصوبے ذہن میں باندھتی تھی، مگر نعیمہ کی شکل نظر پڑی اور سب غلط ہو گئے۔ ماں تو موقع اور محل ہی سوچتی رہی، نعیمہ نے خود ہی ابتدا کی۔ بڑے سویرے بچہ حمیدہ کو دے کر خود ہاتھ منہ دھونے میں مصروف ہوئی۔ جب حمیدہ نے دیکھا کہ نماز کا وقت ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، بچے کو بٹھا نماز پڑھنے لگی۔ بچہ کسی اکھل کھری ماں کا تھا، بٹھانا تھا کہ بلبلا اٹھا۔ آواز سن کر ماں دوڑی آئی۔ دیکھا کہ بچہ اکیلا پڑا رو رہا ہے اور حمیدہ کھڑی نماز پڑھ رہی ہے۔ دور سے دوڑ، پیچھے سے حمیدہ کے ایسی دو ہتھڑ ماری کہ حمیدہ رکوں سے پہلے سجدے میں جا گری۔
اس وقت فہمیدہ کسی ضرورت سے دوسرے قطعے میں گئی تھی۔ پھر کر آئی تو دیکھا کہ حمیدہ چبوترے پر پانی کا لوٹا لیے ہوئے سر جھکائے بیٹھی ہے اور باک سے خون کی تللّی جاری ہے۔ گھبرا کر پوچھا کہ ابھی تو میں تم کو نماز پڑھتی چھوٹ گئی تھی۔ اتنی ہی دیر میں یہ ہو کیا؟ دیکھوں کہیں نکسیر تو نہیں پھوٹی۔
حمیدہ بے چاری نے ابیھ کچھ جواب بھی نہیں تھا کہ نعیمہ خود بول اٹھی: "اے بی ہوا کیا۔ ذرا کی ذرا لڑکے کو دے کر میں منہ دھونے چلی گئی۔ اس نکمی سے اتنا نہ ہو سکا کہ ذرا لڑکے کو لیے رہے۔ آخر میں کہیں کنویں میں گرنے تو نہیں چلی گئی تھی۔ لڑکے کو بلکتا ہوا لٹا، نیت باندھ، نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ میں جو آئی تو ذرا ہولے سے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا کہ آپ دھڑام سے گر پڑی۔ کہیں تخت کی کیل لگ لگا گئی ہو گی۔
ماں: اچھا تم نے ہولے سے ہاتھ رکھا تھا کہ نگوڑی لڑکی کے فصد کے برابر خون نکلا؟ کیسے دنیا میں لہو سفید ہو گئے ہیں۔
نعیمہ: لہو سفید نہ ہو گئے ہوتے تو کیا یوں بھانجے کو روتا ہوا چھوڑ دیتی؟
ماں: لیکن اس نے بے سبب نہیں چھوڑا۔ اس کی نماز چلی جا رہی تھی۔
نعیمہ: بلا سے صدقے سے نماز کو جانے دیا ہوتا۔ تماز پیاری تھی یا بھانجا؟
ماں: لڑکی، ڈر خدا کے غضب سے۔ کیا کفر بک رہی ہے۔ اس حالت کو پہنچ چکی اور پھر بھی درست نہ ہوئی۔
نعیمہ: خدا نہ کرے میری کون سی حالت تم نے بُری دیکھی؟
ماں: اس سے بد تر حالت اور کیا ہو گی کہ تین برس بیاہ کو ہوئے اور ڈھنگ سے ایک دن اپنے گھر میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔
نعیمہ: وہ جنم جلا گھر ہی ایسا دیکھ کر دیا ہو تو کوئی کیا کرے۔
ماں: وہاں بیٹی سچ ہے۔ میں تو تیری ایسی ہی دشمن تھی۔ مائیں بیٹیوں کو اسی واسطے بیاہا کرتی ہوں گی کہ بیٹیاں اجڑی ہوئی ان کے گھٹنے لگی بیٹھی رہیں۔
نعیمہ: کیا جانیں۔ ہم کو تو آنکھیں میچ کر کنویں میں دھکیل دیا تھا، سو پڑے ڈبکیاں کھا رہے ہیں۔
ماں: خیر بیٹی، اللہ رکھے تمہارے آگے بھی اولاد ہے۔ اب تم سمجھ بوجھ کر ان کی شادی بیاہ کرنا۔
نعیمہ: کریں ہی گے۔ نہ کریں گے تو کیا تمہارے بھروسے بیٹھے رہیں گے۔
ماں: میں کیا کہتی ہوں کہ میرے بھروسے بیٹھی رہنا۔ بڑا بھروسا خدا کا ہے۔
نعیمہ: کیسا خدا۔ بھروسا اپنے دم قدم کا۔
ماں: یہ دوسری دفعہ ہے کہ تو خدا کی شان میں بے ادبی کر چکی ہے۔ اب کی تو نے اس طرح کی بات منہ سے نکالی اور بے تامل تڑ سے طمانچہ تیرے منہ پر کھینچ ماروں گی۔
نعیمہ: سچ کہنا۔ بڑی بے چاری مارنے والی۔ مار اپنی چہیتی کو، مار اپنی لاڈو کو۔
ماں: کیسی چہیتی، کیسی لاڈو۔ قربان کی تھی وہ اولاد جو خدا کو نہ مانے۔
نعیمہ: یہ کب سے؟
ماں: جب سے خدا نے ہدایت دی۔
نعیمہ: چلو خیر جب ہم بھی تمہاری عمر کو پہنچیں گے تو بہتیرا خدا کا ادب کر لیں گے۔
ماں: آپ کو خیر سے غیب دانی میں دخل ہے کہ بارے میری عمر تک پہنچنے کا یقین ہے۔
 
Top